قصہ حاتم طائی —- 9
ظفرجی
حاتم نے نہ آؤ دیکھا نہ تاؤ فوراً اس بزرگ کی خدمت شروع کر دی- کئی روز کی مشقت کے بعد ایک روز وہ بزرگ اٹھ کھڑے ہوئے اور کہا:
اے سعادت مند !!! صد افسوس کہ جس ٹانگ کو تو آج تک دباتا رہا ، وہ اصلی نہیں لکڑی کی تھی،
حاتم نے کہا:
اے درویش !!! کوئی بات نہیں- پوری قوم آج کل لکڑی کی ٹانگیں ہی دبا رہی ہے ، اور بزرگان اس دیس کے لمبی تان کے سوئے ہوئے ہیں- بہرحال آئندہ راء احتیاط … اب ہمیشہ ٹینٹوا ہی دباؤں گا۔۔اس پر بزرگ خوشی سے نڈھال ہوئے اور کہا:
سن اے حاتم …. یہاں سے ناک کی سیدھ میں چل …. کوئی سو دو سو کوس کی مسافت پر چیچہ وطنی کے جنگلات ہیں …. وہیں گوہر مقصود ہاتھ آوے گا ۔
حاتم اس درویش سے رخصت ہوا اور منزلیں مارنی شروع کر دیں- ابھی پانچ سات منزلیں ہی ماری تھیں کہ آثار ایک بستی کے نظر آئے- وہ ایک قہوہ خانے میں جا نکلا اور دودھ پتّی کڑک کا آرڈر دیکر بیٹھ گیا-
کوئی نصف گھنٹہ بعد ایک پیر مرد چاندی کے کٹورے میں فنجان شائی لئے حاضر ہوئے-
حاتم نے کہا:
اے درویش ایدھر ویکھ … چائے میں مکھی تیرتی ہے ،،،،
اس پر وہ پیرمرد جذباتی ہو کر بولا:
قسم دانیال عزیز کی … اس پیالے سے مینڈک ، مچھلی یا سانپ تو برآمد ہو سکتا ہے ، مکھی ہرگز نہیں ، کیونکہ مکھیاں یہاں سے مونہہ لپیٹ کر گزرتی ہیں۔۔۔۔۔
حاتم نے بڑے ادب سے فنجان شائی کو اٹھایا اور بڑی تمکنت سے اس بزرگ کے سر پر مارتے ہوئے کہا:
“قسم خواجے کی ، آئندہ میں بھی یہاں سے مونہہ لپیٹ کر ہی گزروں گا!!”
اس کے بعد ایک بار پھر وہ ناک کی سیدھ میں چلنے لگا- رستے میں وہ کئی لوگوں کے کام آیا- مثلاً ایک شخص دودھ میں پانی ڈال رہا تھا ، حاتم نے دستی نلکا چلا کر اس کا ہاتھ بٹایا- ایک پرائمری اسکول کا اتالیق نونہالانِ وطن کو مرغانِ چمن بنا کر لتروڑ کر رہا تھا ، حاتم نے جھٹ اپنا جوتا پیش کر کے کہا “خواجہ اسے آزماؤ … پشاوری چپل ہے”یوں منزلیں مارتا مارتا وہ ایک بار پھر دریائے راوی کے کنارے جا نکلا-
ناگاہ اس کی نظر ایک زبوں حال ، مفلس فقیر پر پڑی ، جو برلبِ دریا پکارتا پھرتا تھا
“شادی کر …… دریا میں ڈال !!”( جاری ہے)
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں