تِل ۔۔۔( 5،آخری قسط)نجم السحر

” ہاں میں ۔۔۔ جھوٹی عورت ۔۔۔ دھوکے باز رنڈی ۔۔۔ ” اس نے پہلے صدف کے بال اپنے دونوں ہاتھوں سے نوچ کر اس کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا پھر اس کے چہرے کو چانٹے مار مار کر لال کر دیا۔
” خرم آئی ایم سوری ۔۔۔ آئی ایم ویری سوری ۔۔۔۔ یہ جان کے نہیں ہوا ہے۔ کب ہوا کیسے ہوا ہمیں پتا بھی نہیں۔ ہمیں معاف کر دیجیے۔ ہم سے یہ غلطی دوبارہ نہیں ہوگی۔ پلیز اس بار چھوڑ دیجیے ۔۔۔ پلیز ”

شادی شدہ دس سالہ زندگی میں پہلی دفعہ خرم کا ہاتھ اس پر اٹھا تھا۔ مگر وہ گزشتہ دس سالوں سے اتنی توہین سہتی آئی تھی۔ کہ اس وقت بھی اس کو کسی قسم کا کوئی احساس نہیں ہوا۔ شاید وہ خرم کو صحیح بھی مانتی تھی۔

” صحیح کہتے ہیں لوگ عورت کو اس کی اوقات سے بڑھ کر دیا جائے تو وہ بے وفا ہو جاتی ہے۔۔۔۔  ” خرم کے لہجے میں حقارت ہی حقارت تھی۔ وه ٹوٹ سا گیا تھا اس انکشاف پہ  کہ اس کی بیوی کسی اور سے محبت کرتی ہے۔ محبت بھی ایسے شخص  سے جو کسی طور اس کے برابر کا بھی نہیں۔ نہ شکل صورت کے اعتبار سے نہ پیسے کے اعتبار سے نہ ہی کلاس کے اعتبار سے۔ یہ بات اس سے ہضم ہی نہیں ہو رہی تھی اسے سمجھ نہیں آرہا تھا اسے غصہ کس بات پہ ہے۔ اس بات پہ کہ اس کی بیوی کو کسی غیر شخص سے محبت ہوگئی یا اس بات پر کہ  صدف نے اس کے اوپر اس شخص کو فوقیت دی جس کو وہ کسی لائق بھی نہیں سمجھتا۔ وہ کافی عرصے سے اس کے اندر تبدیلیاں محسوس کر رہا تھا۔ اسے اب سمجھ آ رہا تھا کہ کچھ مہینوں سے صدف کی دلچسپی اس میں کم کیوں ہوگئی۔ صدف کو اس کے غصے اور ناراضگی کی پروا کیوں نہیں ہوتی۔ پہلے وہ دو گھنٹے ناراض ہوتا تو صدف کی جان پہ بن  آتی تھی۔ اب وه ہفتوں اس سے الگ کمرے میں سوتا مگر صدف لاپرواہ رہتی۔ وہ جا چکی تھی۔ یہ بات خرم کو سمجھ آ گئی تھی اور کیونکر نہ سمجھ آتی  وہ جیون ساتھی تھا اس کا لباس اس کے ہر انداز سے واقف ۔

” سوری خرم ہمیں معاف کر دیجیے ۔۔۔ پلیز ۔۔۔ ” صدف نے  خرم کے آگے ہاتھ جوڑ دیے۔

” احسان فراموش عورت ۔۔۔ کیا نہیں دیا تجھ کو میں نے ۔۔۔ کیا نہیں کیا تیرے لیے میں نے ۔۔۔ تجھ کو تیری اوقات سے بڑھ کر دیا ۔۔۔ اپنے آپ کو پیسہ کمانے والی مشین بنا کر رکھ لیا ۔۔۔ دیکھ اپنے آپ کو اور اپنی زندگی کو اور کر لے مقابلہ اپنی کسی بھی کزن سے کسی کے پاس اتنا کچھ نہیں جتنا تجھے حاصل ہے۔ مرد بیویوں کو جوتے کی نوک پر رکھتے ہیں۔ اور وہ بالکل ٹھیک کرتے ہیں۔ کہ عورت کم ذات، کم ظرف ہوتی ہی اسی لائق ہے ۔۔۔۔” خرم اس کے اوپر پاگلوں کی طرح چیخ رہا تھا۔

صدف کے لیے یہ جملے نہیں تھے وہ جملے شادی کے چھ مہینے کے بعد سے سنتی آ رہی تھی اس چیخ و پکار اور اس لہجے کی اس کو عادت تھی۔ فرق صرف اتنا تھا کہ اس بار وہ غلط اور گناہ گار تھی۔ وہ اب خاموشی سے اس کی باتیں سن رہی تھی اور سر جھکائے اس کے سامنے کھڑی تھی کہ اچانک خرم اس کی جانب بڑھا۔

” وہ تمہارے سینے کا تل دیکھنا چاہتا ہے ۔۔۔ میں بھی تو دیکھوں کون سا ہے وہ تل ۔۔۔۔” ابھی صدف خرم کے منہ سے ادا ہونے والے اس جملے کا مطلب ہی سوچ رہی تھی کہ
خرم نے صدف کی قمیض کے گریبان میں ہاتھ ڈال کر اسے پھاڑ ڈالا ۔۔۔۔
” اُف ۔۔۔ ” ذلت کے احساس سے صدف جھکتی چلی گئی۔ وہ اپنے شوہر کے سامنے پہلی دفعہ بے لباس نہیں ہو رہی تھی مگر جس طرح آج اس کے شوہر نے اس کا لباس تار تار کیا اسے خود پہ پہلی دفعہ ترس آیا اس پورے معاملے میں۔۔۔
” بول نا کتیا ۔۔۔ یہ تھا وہ تل جو وہ دیکھنا چاہتا ہے ۔۔۔ ” خرم پھر غرایا۔
مگر اب صدف بالکل ہاری ہوئی اپنے گھٹنوں کے بل زمین پر بیٹھی تھی۔

” ہمیں معاف کر دیجیے خرم ہم آپ کے احسانوں تلے دبے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ کے بے شمار احسانات ہیں ہماری ذات پر جو ہم کبھی نہیں چکا سکتے۔ جو ہوا بے اختیاری میں ہوا۔ ہم احسان فراموش نہیں۔ ہم نے کبھی آپ کی امانت میں خیانت نہیں کی ۔۔۔۔ ” صدف نے جیسے کمزور سے لہجے میں اپنی صفائی دینے کی کوشش کی۔

” احسان ، احسان مندی ۔۔۔ واٹ رابش ۔۔۔یہ کس قسم کا میاں بیوی کا رشتہ ہے بھئی۔۔۔ میاں بیوی کے درمیان محبت کا رشتہ ہوتا ہے۔ احسان کا نہیں۔ جہاں شوہر کو یہ لگنے لگے کہ وہ احسان کر رہا ہے اور بیوی کو یہ لگے کہ وہ احسان تلے دب رہی ہے تو بیٹا عبیر تم کچھ بھی کہو اس رشتے میں کچھ بھی ہو سکتا ہے محبت نہیں ہو سکتی  ۔۔۔۔ یہ کہانی تو بہت پہلے ہی ختم ہو چکی ہے خرم اور صدف کا رشتہ بہت پہلے ہی دم توڑ چکا ہے۔ ” چھوٹی خالہ نے  ایک مرتبہ پھر عبیر کو بیچ میں ٹوک دیا۔

” عبیر ایک عورت کا دل بہت چھوٹا ہوتا ہے محبت کے معاملے میں۔ ایک سے زیادہ مردوں کی گنجائش نہیں ہوتی اس میں۔ مردوں کی طرح چار کے چار ۔۔چار    خانے نہیں بنے ہوتے اس میں۔۔۔۔
” ہائے ہائے خالہ۔۔۔! یہ تو بارہ خانے ہو گئے یا شاید اس سے بھی زیادہ ہمارا تو حساب بھی کمزور ہے۔ ” عبیر قہقہہ لگا کر ہنس پڑی مگر اس کے قہقہے  کا کھوکھلا پن صاف واضح تھا۔

” ہاں ایسا ہی ہے ۔۔۔ تو اگر صدف کو سلمان سے محبت ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ خرم کے لئے اس کی محبت کب کی دم توڑ چکی ہے۔ میری نظر میں وہ بے وفائی کر رہی ہے مگر خرم کے ساتھ نہیں سلمان کے ساتھ۔ اسے خرم کو چھوڑ کر سلمان سے شادی کر لینی چاہیے۔۔۔۔۔ ”  چھوٹی خالہ نے ٹھوس لہجے میں کہا۔

” وہ ایسا نہیں کر سکتی خالہ وه ہرگز ایسا نہیں کر سکتی۔ کیا کہہ کے چھوڑے گی وه خرم جیسے پرفیکٹ آدمی کو۔ کہ  وه اس کو خوش رکھنے میں ناکام ہوگئی اس لیے اس نے خرم کو چھوڑ دیا۔ اس کے بچوں کا کیا ہوگا ؟ یہ بھی تو سوچیں۔۔۔ ” عبیر کی دلیل بہت مستحکم تھی۔

” اور سلمان ۔۔کیا عبیر سلمان کو بھلا سکے گی ؟ نہیں میرا بچہ نہیں ۔۔۔ وه روز سلمان کے لیے تڑپے گی اس کو یاد کرے گی اور ہر شئے  میں اس کی شبیہ تلاش کرے گی حتٰی کی اپنے شوہر کے لمس میں بھی وہ سلمان کو ڈھونڈے گی اور یہ بات خرم سے چھپی نہیں رہ پائے گی  ۔ ۔ ۔ ۔   ” چھوٹی خالہ اپنی جون میں کہتی جا رہیں  تھیں انہوں نے یہ نوٹس نہیں  کیا کہ عبیر کے چہرے کا رنگ تبدیل ہوتا جا رہا ہے۔

” مجھے نہیں پتہ بھئی۔۔۔ تم اس کہانی کی ہیپی اینڈنگ کرو اور ہیرو کو ہیروئن سے ملا دو ۔۔۔ بس میں کچھ نہیں جانتی ” چھوٹی خالہ نے نوٹس نہیں کیا کہ  عبیر کب کی  ان کے سامنے سے اٹھ کے جا چکی ۔ اچانک انہوں نے عبیر کی طرف دیکھا تو ان کی چیخ نکل گئی اور ان کی آنکھیں خوف سے تقریباً باہر نکل آئیں۔ عبیر انکے ٹیرس کی دیوار پر کھڑی تھی۔ وہ صرف ایک قدم پیچھے کی جانب لیتی تو دنیا کی کوئی طاقت اسے واپس نہیں لا سکتی تھی۔  اس کی آنکھوں سے بڑی تیزی سے آنسو بہہ رہے تھے اور چہرے پر مسکراہٹ تھی۔ ہوا سے  اس کے کھلے بال اڑ رہے تھے اور اس کے پیچھے روشنیوں کا شہر چمکتا ہوا نظر آرہا تھا۔ جس کے لیے یہ منظر نہ ہی نیا تھا نہ انوکھا۔

” سوری خالہ مگر اس کہانی کی ہیپی اینڈنگ نہیں ہو سکتی۔ وہ احسان فراموش نہیں ہے۔ وه اپنے صیاد کی احسان مند ہے۔ وہ یہ برداشت نہیں کر سکتی کہ اس کی وجہ سے اس کے بچے یہ سنیں کہ  ان کی ماں اپنے آشنا کے ساتھ بھاگ گئی۔ وہ یہ نہیں سن سکتی کہ وہ بے وفا ہے جب کہ اس نے اپنے رشتے کو بچانے کی ہر ممکن کوشش کی۔ وه ایک وقت میں دو بہترین لوگوں کو تکلیف دے رہی ہے ۔

خالہ۔۔۔۔ زمانہ کیا کہے گا خالہ۔ وہ اس دور میں بھی روایتوں کی اسیر ہے خالہ۔ وہ جس معاشرے کا حصہ ہے۔ وه معاشرہ مردوں کو چار بیویاں اور لاتعداد لونڈیاں رکھنے کی اجازت تو دیتا ہے مگر وہی معاشرہ ایک شادی شدہ بچوں والی عورت کو محبت ہوجانے پر آوارہ اور بدچلن کہتا ہے۔ وہ محبت جس پہ انسان کا اختیار ہی نہیں۔ یہ معاشرہ عورت کو اس کی بھی اجازت نہیں دیتا خالہ ۔۔۔۔ !! ۔ اور ہمیں نہیں معلوم کہ ہم محبت کے بغیر مر جائیں گے یا کسی کے احسانوں میں گھٹ کر ۔۔۔  اس کہانی کی ہیپی اینڈنگ ہو ہی نہیں سکتی خالہ ۔۔۔ اس کہانی کی ہیپی اینڈنگ ہو ہی نہیں سکتی ۔۔۔ ” عبیر تڑپ تڑپ کے کہتی جاتی تھی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

” عبیر ۔۔۔میرا بچہ اللہ کا واسطہ ۔۔ مت کر ۔۔۔ رک جا ۔۔۔ ہم ڈھونڈ لیں گے ۔۔۔ ہم اس کہانی کی ہیپی اینڈنگ ڈھونڈ لیں گے ۔۔۔ تم لکھاری ہو ۔۔۔ قلم تمہارے پاس ہے ۔۔۔ اس انجام کو بدل دو بیٹا یہ تمہارے ہاتھ میں ہے ۔۔۔” چھوٹی خالہ عبیر کے سامنے ہاتھ جوڑ کر بلک بلک کر رو رہی تھیں اور منتیں کیے جاتی تھیں ۔۔۔۔ لیکن عبیر نے ان کو کوئی جواب نہیں دیا وہ آنکھوں میں آنسو اور حسرتیں لیے  چہرے پر مسکراہٹ سجائے چھوٹی خالہ کو دیکھتی رہی اور پھر ایک قدم پیچھے کی طرف بڑھا دیا ۔۔۔ اب اس ٹیرس کی دیوار پہ کچھ نہیں تھا نہ ذمہ داری ، نہ احسان مندی، نہ زمانے کا خوف یہاں تک کہ محبت بھی نہیں ۔۔۔۔
پیچھے رہ گئی تھیں  تو بس چیخیں مارتی ہوئی مامتا ۔

Facebook Comments