کتنا بھرپور پیغام۔۔حبیب شیخ

ریمنڈ چلتا رہا، چلتا رہا، اپنی چھوٹی مگر مضبوط ٹانگوں کے ساتھ۔ موٹی سوت کی بنیان کے اوپر چیک دار قمیض اور اس کے اوپرکالے رنگ کی بھاری جیکٹ، سر پر اونی ٹوپی، ہاتھوں پہ دستانے، برفانی بوٹ۔ پورا سماں برف کی تہہ میں لپٹ چکا تھا لیکن برف باری نے رکنے سے انکار کیا  ہوا تھا۔

ریمنڈ نے کئی سڑکیں عبور کر لیں، اب وہ جانی پہچانی عمارات سے آگے نکل چکا تھا اورغیر معروف گلی کوچوں میں سے گزر رہا تھا۔ اس کو چلتے چلتے دو گھنٹے ہو چکے تھے۔ اس کا سارا جسم یخ ہو رہا تھا۔ اچانک اسے پاؤں میں تکلیف کا احساس ہوا، اور گھٹنے بھی شکایت کر رہے تھے۔ وہ رُکا ’لیزا! میں تم سے ہمیشہ کے لئے دور جا رہا ہوں۔ تم مجھے ڈھونڈتی رہ جاؤ گی لیکن میں واپس نہیں آؤں گا۔  اس خیال کے آتے ہی اس کے جسم میں کچھ ہمت آئی۔

ریمنڈ کا ہر قدم اب بھاری ہوتا جا رہا تھا۔۔ لیکن اس کو سنٹرل بس اسٹیشن سامنے نظر آرہا تھا۔ وہ خود کو گھسیٹتا ہوا ُاس میں داخل ہوا اور سیدھا کافی شاپ کا رخ کیا۔

تھوڑی دیر بعد وہ کافی لے کر ایک میز پر بیٹھا ہؤا تھا اور مسرت سے اس سے اٹھتی ہوئی بھاپ کو دیکھ رہا تھا۔ ’آخر لیزا نے کام پر اتنا بن سج کر  کیوں جانا شروع کر دیا ہے؟ کس کے لئے وہ اتنا وقت اپنے خوبصورت لمبے بالوں کو سنوارنے میں لگاتی ہے، اپنی آنکھوں، کانوں، ہونٹوں کو دلکش بناتی ہے۔ ہر ہفتے دو ہفتے کے بعد ناخنوں کے لئے سیلون جاتی ہے۔ یہ اچانک پانچ چھ ماہ سے اسے کیا ہو گیا ہے۔ شادی کے ایک سال بعد ہی اس نے بننا سنورنا چھوڑ دیا تھا اور میری فرمائش کے باوجود کبھی اس نے اپنا خیال نہیں رکھا۔ وہی تین چار عام سے کپڑے، بالوں کی پونی ٹیل۔ اس کے چہرے سے مسکراہٹ غائب ہو گئی تھی اور ہنسی مذاق کو کہیں دفن کر دیا تھا۔ ایک دو بار میں نے ہماری اچھی یادوں کو جگانے کی کوشش کی لیکن  کچھ فائدہ نہ ہوا ۔ ہم ایک دوسرے کی خوبیوں کے بجائےخامیاں تلاش کرتے رہے اور شکائتیں کرتے رہے۔ میں تمہاری نظر میں غیر ذمہ دار اور گندا انسان جسے گھر کے کاموں سے کوئی دلچسپی نہیں۔ اب میں تمہاری شکائتیں اور تنقید  مزید نہیں سُن  سکتا،

ریمنڈ کا جسم اب گرم ہو چکا تھا اور اس کے ہاتھ پاؤں میں جان لوٹ آئی تھی۔ وہ باہر سڑک کی طرف دیکھنے لگ گیا اور اچانک اسے خیال آیا۔ سڑکوں پر پڑی برف کی وجہ سے ٹریفک کتنا جام ہو گیا ہے۔’ آج لیزا بڑی مشکل سے گھر پہنچے گی۔ پتا نہیں ایسے موسم میں اس بیچاری کو بس میں جگہ ملتی بھی ہے کہ نہیں اور وہ سوچ رہی ہو گی کہ گھر پہنچتے ہی میں اس کو گرم گرم چائے بنا کر دوں گا لیکن میز پہ میرا نوٹ پڑھ کر اس بیچاری کا کیا حال ہو گا۔ بہت پریشان ہو گی اور آنسوؤں کی لڑیاں اس کے گالوں سےبہہ جائیں گی۔ اگر اس کا کوئی افئیر چل رہا ہوتا تو وہ اب تک علیحدگی کی بات کر چکی ہوتی۔

لیکن،  آج جانے سے پہلے اس نے جس طرح میری بے روزگاری پر طنز کیا اس نے مجھے چیر کررکھ دیا ،وہ سمجھتی ہے کہ میں نے کام ڈھونڈنا بند کردیا ہے یا بے دلی سے تلاش کر رہا ہوں۔ میں اسے برداشت نہیں کروں گا اور میں لیزا کو کبھی معاف نہیں کر سکتا، کبھی نہیں۔‘

ریمنڈ کی آنکھیں پُر نم ہو گئیں۔ وہ کسی کی نگاہوں کا مرکزنہیں بننا چاہتا تھا، وہ کوئی آواز کئے بغیر آہستگی سے اٹھا اور وینکووَر جانے والی بس کا وقت دیکھنے لگا۔ اس نے نقد پیسے دے کر ٹکٹ خریدا اور ایک گھنٹہ بعد وہ بس میں بیٹھا منزل کی جانب  رواں دواں تھا۔

بس وینکووَر لے جانے میں چار دن لے گی اور پہلا اسٹاپ پانچ گھنٹے بعد آئے گا اور دوسرا اسٹاپ صبح سات بجے۔ وہ کنکھیوں سے دوسرے مسافروں کو دیکھنے لگا، کچھ یونیورسٹی کی لڑکیاں اس طرح شور وغل کررہی تھیں جیسے کوئی پارٹی کررہی ہوں۔ کچھ وضع دار عمر رسیدہ لوگ بھی بس کی اگلی سیٹوں پہ بیٹھے تھے۔ اور اِکا دُکا اس کی عمر کے لوگ بھی موجود تھے۔ ریمنڈ سوچنے لگا کہ شاید یہ بھی اس کی طرح بے روز گار ہوں گے۔ اس نے لیزا کو بہت مشکل سے اپنے ااعصاب سے اتار دیا اور اب وہ خود کو ہلکا پھلکا محسوس کر رہا تھا۔ تھکاوٹ کی وجہ سے اس کا جسم چور چور تھا تو نیند نے اسےتھوڑی دیر بعد اپنی آغوش میں لے لیا۔ صبح چھ بجے اس کی آنکھ کھلی تو ریمنڈ نے خود کو بہت تازہ دم پایا۔ ایک گھنٹے بعد تھنڈر بے کا شہر آنے والا تھا۔ ’وہاں بس آدھ گھنٹے کے لئے رکے گی تو میں اچھا سا ناشتہ کروں گا۔ اور تین دن بعد میں وینکووَر میں ہوں گا۔ وہاں میں باسط کے ساتھ کچھ دن گزاروں گا اور کوئی نا کوئی کام ڈھونڈ لوں گا۔ پھر لیزا کو پتا چلے  گا جب اسے میرے بغیر رہنا پڑے گا۔

تھنڈر بے کے بس اسٹیشن پہ ریمنڈ ایک اسٹور میں بنے ہوئے ریسٹورنٹ میں کاؤنٹر پر کھڑا سوچ رہا تھا کہ کیا آرڈر کرے۔ کل رات کا کھانا نہ کھانے کی وجہ سے اس کا معدہ شوکیس میں پڑی ہوئی ہر چیز مانگ رہاتھا۔ اس نے اپنے لئے انڈے کا سینڈوچ اور ایک چاکلیٹ مفن لیا اور میز پر بیٹھ گیا۔ اس نے جلدی جلدی انڈے کا سینڈوچ نگلا اور چاکلیٹ مَفِن کی طرف ہاتھ بڑھایا لیکن رک گیا۔ ’چاکلیٹ مَفِن چاکلیٹ مَفِن کتنے شوق سے لیزا ہر ہفتے ایک دو بار اپنے دفتر کی عمارت میں واقع ایک کافی شاپ سے اس کے لئے لایا کرتی تھی۔‘ ریمنڈ کی آنکھیں بھیگ گئیں۔

شاید میں نے گھر چھوڑنے کا فیصلہ جلدی میں کر لیا۔ آخر لیزا کوئی بری بیوی تو نہیں ہے۔ اپنی  جاب کے باوجود کھانا شوق سے پکاتی ہے، گھر کو صاف ستھرا رکھتی ہے۔ مجھے چاہیے تھا کہ بیٹھ کر اس کے بے رخی والے   رویے کے بارے میں اس سے بات کرتا اور معلوم کرتا کہ اس کو مجھ سے کیا شکایات ہیں۔ اگر آرام سے بیٹھ کر گفت و شنید کرنے سے مسائل حل نہیں ہوتے اور شکائتیں دور نہیں ہوتیں تو پھر کسی پیشہ ور کونسلر کے پاس جاتے۔ اور بیچاری لیزا میرے غائب ہونے سے کتنی پریشان ہو رہی ہو گی، پتا نہیں کہاں کہاں فون کر رہی ہو گی۔ میں نے صحیح فیصلہ نہیں کیا، مجھے اس طرح گھر نہیں چھوڑنا چاہیے تھا۔ریمنڈ نے چاکلیٹ مَفِن کو حسرت   بھری نظروں سے دیکھا جیسے وہ لیزا کو دیکھ رہا ہو۔

ریمنڈ فوراً فون کی طرف بھاگا لیکن اتنے میں بس کمپنی کا ملازم اعلان کررہا تھا کہ وینکووَر کی بس چلنے والی ہے۔ وہ تیز تیز قدموں کے ساتھ بس میں داخل ہوا اور اپنی سیٹ پر بیٹھنے کے بجائے بیگ اٹھایا اور بس سے باہر نکل گیا۔ تقریباً چار گھنٹے کے بعد وہ ایک اور بس میں بیٹھا ہؤا تھا جو اسے ٹورونٹو لے جا رہی تھی۔ اس بس کے پہیّوں کی ہر گردش مجھے لیزا سے قریب کر رہی ہے۔ ’ لیزا میں آرہا ہوں!

ہم بیٹھ کر بات کریں گے، ایک دوسرے کی شکائتیں اور خدشات دور کر دیں گے۔ مجھے تم پر شک نہیں کرنا چاہیے بلکہ خوش ہونا چاہیے کہ تم اپنا خیال کرتی ہو، جاب کے باوجود کبھی کبھار کھانا پکاتی ہو، گھر میں ہر شئے طریقے سلیقے سے رکھتی ہو۔ ہمارے اچھے دن پھر واپس آنے والے ہیں محبت، الفت، قربت کے دن۔‘ ریمنڈ نے کتاب کو پڑھے بغیر واپس بیگ میں رکھ دیا اور ماضی کے خوشگوار دنوں کی یادوں میں تیرنا شروع کر دیا۔

اگلے دن بس رات کے بارہ بجے ٹورونٹو پہنچ گئی۔ ریمنڈ فوراً ٹیکسی لے کر آدھ گھنٹے میں گھر پہنچ گیا۔ اس نے دروازہ چابی سے کھولنے سے پہلے ایک دو بار گھنٹی بجائی۔ اندر داخل ہوتے ہی وہ ٹھٹکا کیونکہ لیزا کے چار پانچ مختلف قسم کے جوتے جو دروازے کے بائیں  طرف ایک ٹرے میں پڑے ہوتے تھے ،آج  غائب تھے۔ اس نے طریقے سے الماری کے اندر رکھ دہے ہوں گے۔ اس نے ایک لمبا سانس لیا اور پھر لیزا لیزا پکارتا ہوا بیڈ روم کی طرف بھاگا۔ ’لیزا تم کہاں ہو؟دیکھو میں آگیا ہوں۔ لیزا لیزا۔وہ گھر کے ہر کمرے میں گیا اور پھر کچن کی لائٹ جلائی۔ گھر چھوڑنے سے پہلے وہ میز پر سفید کاغذ پہ ایک نوٹ چھوڑ کر آیا تھا اب اس کے پاس ہی ایک نیلے کاغذ کا نوٹ بھی تھا۔ وہ ڈرتے ڈرتے آگے بڑھا۔۔ پڑھنے کے لئے، مگر اس پہ کچھ بھی نہیں لکھا ہوا تھا۔ اس نے نوٹ کو پلٹ کر دیکھا وہاں بھی کچھ نہیں۔ ریمنڈ نے بار بار نوٹ کوپلٹا، چاروں کونوں کو غور سے دیکھا کہ شاید لیزا نے کہیں کچھ نشان بنایا ہو۔ ’آخر کیوں؟ شاید جلدی میں وہ لکھنا بھول گئی۔ میں صبح اس کے دفتر جاؤں گا، نہیں پہلے اس کو فون کروں گا۔‘ ریمنڈ بقیہ رات جاگتا رہا، وہیں کرسی کھینچ کر بیٹھ گیا اور دو کاغذ کے ٹکڑوں کو گھور کر دیکھتا رہا۔

ریمنڈ صبح آٹھ بجے ہی ریسیور ہاتھ میں لے کر بیٹھ گیا۔ دس منٹ بعد اس نے فون کیا۔ لیزا کی آواز سن کر اس کا دل دھڑک اٹھا۔ ہیلو، میں لیزا بول رہی ہوں۔
’لیزا لیزا میں واپس آگیا ہوں۔ مجھے اس طرح نہیں جانا چاہیے تھا اور نہ ہی مجھے نوٹ میں ایسی باتیں لکھنی چاہئیں  تھیں۔

کوئی جواب نہ سننے پر وہ تیزی سے سانس لیتے ہوئے بولا۔ ’لیزا میری بات کا جوا ب دو، اور تم نے تو اپنے نوٹ میں بھی کچھ نہیں لکھا۔

Advertisements
julia rana solicitors

ہاں! وہ نوٹ ہی میرا جواب ہے اگر تم خاموشی کی زبان کو سمجھ سکو۔‘ لیزا نے نرمی سے کہا اور لائن   منقطع کر دی۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply