• صفحہ اول
  • /
  • ادب نامہ
  • /
  • ​شعر مرزا غالب کا، نظم ستیہ پال آنند کی ، تبصرہ شمس الرحمن فاروقی کا

​شعر مرزا غالب کا، نظم ستیہ پال آنند کی ، تبصرہ شمس الرحمن فاروقی کا

شعر
سلطنت دست بدست آئی ہے
جام ِ مئے خاتم ِجمشید نہیں

نظم
باب ِ اول

طالبعلم ایک
سلطنت کیا ہے؟ کہوں مَیں، تو کہوں گا اتنا
سلطنت؟ ۔۔۔۔ مملکت ، اقلیم، قلمرو ، احقاف
دست سے دست تک؟ اخراج ، تعرف، تحویل

طالبعلم دو
اور اگر مجھ کو بھی کہنا ہو تو افزوں یہ کہوں
آسماں ایژر و ایتھر ہے، عدم بسط، مگر
ہے زمیں چاروں طرف،ملک ، علاقہ، کشور

طالبعلم ایک
اور کچھ شاملِ تعریف کر وں میں، تو کہوں
حصّوں، بخروں میں قلم کی ہوئی یہ ارض حسیں
’نوچا نوچی ‘ میں اُکھاڑے ہوئے قطعات ِ زمیں
ٹکڑوں ٹکڑوں میں بٹائی ہوئی سندر دھرتی

طالبعلم دو
خسروی ورثہ و میراث، خدا داد شرف
اور املاک کا مالک فقط اک شخص کہ جو
مقتدر اعلیٰ ہے، مختار ہے ، شہزادہ ہے
شیخ، سلطان، مہاراجہ، نظام ۔۔۔ اور بھی کچھ؟

استاد ستیہ پال آنند
ہاں، یہ اعزاز سبھی حفظ ِ مراتب کے ہیں، پر
ان سے کچھ بھی نہیں ملتا ہمیں معنی کا سراغ
ایک جمشید؟ کوئی، کیسا، کہاں کا جمشید؟
خاک اوڑھے ہوئے سب خاک ہوئے خاقانی
مفتخر، محتشم، مخدوم و مکرّم ۔۔۔۔ سب کو
جب اجل آئی تو اک قبرکا ایوان ملا
سلطنت؟ ہاں، فقط اک ہاتھ سے بس دوسرے تک
صرف اوضاع بدلتی ہی گئی نقشوں میں
یعنی نقشوں میں وہی عرض بلد، طول بلد
اب تو جغرافیہ، تاریخ ہیں بے صوت گواہ
سب گیا گزرا ہے اب۔۔تھا کہ نہ تھا ، کیا کہیے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
باب ِ دوئم

طالبعلم ایک
جام ِ مئے کس کا ہے؟ کوئی اسے سمجھے تو کہوں
جام ِ مئے اُس کا ہے جس نے کہ اُٹھا رکھا ہے

طالبعلم دو
“جام ” اور “سلطنت”کیا ایک ہی معنی ہے یہاں ؟
منتقل ہوتے ہیں ورثا کو جو یاں دست بدست؟

طالبعلم ایک
ہاتھ سے ہاتھ تک ،ہاں، دونوں ہیں اک معنی میں
پھر بھی، ان میں جو تبدل ہے، کچھ مشکوک سا ہے

طالبعلم دو
اب ذر ا دیکھیں تو “خاتم ” کے معانی کو یہاں
اک انگوٹھی کہ ہے جو “ُمُہر” کی حامل، لیکن
“مُہر” یھی ایسی کہ تصدیق کی بینندہ ہے!

طالبعلم ایک
کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ ہےاگڑم بگڑم
آؤ، پوچھیں تو استاد سے ، کیا ماجرا ہے

استاد ستیہ پال آنند
دس کی گنتی میں ہی الفاظ ہیں اس شعر میں،پر
اک بھلاوا ہے کہ تلبیس ہے، بہکاوا ہے
دست سے دست تک آنا تو ہے معمول ، مگر
جام تو اس کوہی ملتا ہے جو مستوجب ہو
“جام” اور “سلطنت”،دونوں میں کچھ الحاق نہیں
ان کی تلمیح بھی ہے بے محل، بے جوڑیہاں
نام کی مہر یا انگوٹھی ہے ” خاتم” سے مراد
اس پہ تُک “خاتمِ جمشید” کی؟ مہمل، مبہم
فی البطن گر ہیں معانی تو ہیںاگڑم بگڑم
محض اہمام ہے، مبہم ہے، ادق ہے یہ شعر
———————–
تبصرہ شمس الرحمن فاروقی کا ۔
اس طویل مکتوب میں بہت سے ذاتی ، شخصی اور غیر متعلق موضوعات پر ایسا مواد بھی تھا جس کی تشہیر سے نہ صر ف کچھ لوگوں کی دل شکنی ہوتی، مر حوم کی نیک ر وح کو بھی تکلیف ہوتی کہ ایک دوست نے ان کی وفات کے بعد ان کے اعتماد کو مجروح کیا۔ ا س لیے صرف وہی چیدہ چیدہ جملے ، جو اس شعرکی براہ راست تشریح کے حامل ہیں، پیش کیے جا رہے ہیں۔ (ستیہ پال آنند)

تسلیم، ستیہ پال آنند صاحب کہ شعرگنجلک ہے۔۔۔بہت کچھ جو کہنا ضروری تھا، مضمون در بطن شاعر کی تاویل بن گیا ہے لیکن اتنا مہمل بھی نہیں ہے جتنا آپ نے اپنے طلبا کے منہ سے کہلوا کر تشہیر کر دیا ہے۔

متداول معانی کچھ اس طرح لکھے جا سکتے ہیں۔ جام اور سلطنت ترازو کے دو پلڑے ہیں جو ہم وزن ہیں۔ دونوں دست بدست اپنی ملکیت بدلتے رہتے ہیں۔ گویاجمشید جام کا مالک نہیں ، جام جمشید کا مالک ہے ۔

“خاتم” (ختم کرنے والا؟) یا (انگوٹھی/مہر/شاہی منظوری کے دستخط؟) دونوں معانی تشنہ ء تکمیل ہیں۔ شاعر نے اس خفیف بحر کے کل دس الفاظ میں معانی کا ایک سمندر بھرنے کی کوشش کی ہے اور۔۔۔۔یقیناً وہ اس میں ناکام رہا ہے۔ لیکن اتنا بھی نہیں کہ آپ طلبا کے منہ سے وہ کچھ کہلوائیں جو ادب سے عاری ہے۔

خواجہ میر دردؔ کا ایک شعر ہے جو یقیناً غالب کے ذہن میں رہا ہو گا۔
سلطنت پر ہی کچھ نہیں موقوف
جس کے ہاتھ آوے جام، سو جم ہے

Advertisements
julia rana solicitors

سلطنت، جام جمشید اور خاتم میں مراعات النظیر کی خوبی تھی جس کی طرف آپ نے کوئی اشارہ نہیں دیا!

Facebook Comments

ستیہ پال آنند
شاعر، مصنف اور دھرتی کا سچا بیٹا