بہادر شاہ ماں باپ کی بے عزتی کو چپ چاپ سہہ کر گھر آگیا ،وہ چاہتا تو زبردستی ماں بیٹے کو اٹھا کر لے آتا یا کوئی اور ترکیب نکالتا لیکن اس کا منتشر ذہن اسے کسی ایک نقطے پر سوچنے کا موقع ہی نہ دے رہا تھا ،اسے درمیانی راہ سوجھ ہی نہیں رہی تھی جس پر چل کر گھر آباد ہوتا ،لوگ اسے سمجھانے کی کوشش کرتے تو وہ بھڑک اٹھتا، کسی کی سنتا مانتا وہ پہلے سے نہیں تھا، اگلے دن شہر بانو تو نہ آئی لیکن اسکے گھر سے طلاق کا پیغام آگیا کہ اب ہماری بیٹی اس گھر نہیں جائے گی اور ہر صورت طلاق چاہیے، پیار محبت تو تھا ہی نہیں ،ایک تعلق تھا وہ بھی کب سے الگ رہ رہ کر کمزور ہوگیا تھا، بہادرے کیلئے پھر بھی یہ ایک جھٹکا تھا وہ رشتوں اور تعلقات میں اس مقام سے ناواقف تھا جہاں اکٹھے رہنے والے سرد مہری کی چادر اوڑھ کر بچھڑنے کا ارادہ باندھ لیں تو پھر قیامت تک یکجا نہیں ہوتے۔
خوشی دوکاندار کے گھر کا کام تقریباً ختم ہونے والا تھا ،بڑی عید میں چند روز باقی تھے، ایک دن خوشی دوکاندار کہنے لگا۔۔ استاد کب بیوی کو گھر لا رہے ہو؟ استاد نے ترنت جواب دیا چچا جب آپ چاہو
خوشی نے کہا کیا مطلب تمھارا۔۔ استاد دوبارہ گویا ہوا کہ چاچا خوشی آپ میرے سسرال جا کر اس کو راضی کر لاؤ تو بیوی آج ہی آسکتی ہے، خوشی دوکاندار ویسے پرائے پھڈوں میں ٹانگ اڑانے سے گریز کرتا تھا اس لیے ادھر اُدھر کی باتیں کرکے موضوع بدل دیا، باپ اور استاد کی باتیں روبینہ کے کانوں میں برابر پڑ رہیں تھیں ،اسے غصہ آنے لگا کہ ابا خوامخواہ فضول مشورے دے رہا ہے، ایک ہی گھر میں کام کرتے ہوئے کئی بار دونوں کا آمنا سامنا ہوتا رہتا تھا ،استاد سے کسی کا پردہ نہیں تھا، اوپر سے اس کی کشش تو خواتین کو بے اختیار کرکے کھینچ لیا کرتی تھی اور روبینہ تو ایک نوزائیدہ سورج مکھی کا پھول تھا جس کا اب سورج اور محور استاد بہادرے بنتا جارہا تھا۔
استاد عورتوں کی کیفیات کا اتنا ماہر نہ تھا۔۔ ہوتا تو اس کے گھر میں ناچاقی ڈیرے نہ ڈالتی، لیکن وہ اتنا سادہ ہرگز نہیں تھا کہ کچی زمین سے پھوٹتی تازہ کونپلوں کی اٹھان سے انجان رہتا، روبینہ استاد میں اپنا مستقبل دیکھنے لگی اور استاد کو روبینہ کے اندر کی عورت دکھائی دینے لگی، تکلف بے تکلفی میں ڈھلتے ذرا دیر نہ لگی، استاد بہادرے کھانا کھا لو سے “آئیں کھانا کھا لیں” کا سفر بڑی تیزی سے طے ہوا اجنبیت کی دیوار تو پہلے دن سے ڈھے گئی تھی، فرق تھا تو کسی کو محبت ہورہی تھی اور کوئی ضرورت اور محبت کے درمیان کے جھگڑے میں تھا۔
ایک دن بہادر شاہ کے نام عدالت سے خلع کے کاغذات آگئے اس نے سوچا جو تعلق کاغذوں کا محتاج ہو اس کو توڑ دینا ہی بہتر ہے، اس کا ماں باپ کے علاوہ کوئی خاص ہمدرد نہ تھا جس سے وہ مشورہ کرتا اور مشورہ کرنے کا وہ قائل بھی نہیں تھا، اپنے بچے کی ابھی تک اس نے شکل تک نہ دیکھی تھی اور مستقل جدائی سر پر آپہنچی تھی، ایک کسک ایک ٹیس اٹھی لیکن اس نے بھی دل پر سرد مہری کی ایک بھاری سِل رکھ دی ،جس کے نیچے کئی جذبے دب گئے ،اس نے شہر بانو کو آزاد کردیا۔ بے دلی سے جیتے جیتے اسے ایسے لگا جیسے اس کے سر سے منوں بوجھ اتر گیا ہو، شہر بانو نہیں بلکہ وہ خود آزاد ہوگیا ہو ،ذہنی کوفت سے نجات ملتے ہی استاد بہادر کی خزاں زدہ زیست نے ایک بار پھر آہستہ آہستہ اپنی پہلے والی بہار کی طرف لوٹنا شروع کردیا۔
روبینہ کے لیے بہادر شاہ کی شہر بانو سے علیحدگی کی بات خوش آئند تھی وہ سوچنے لگی تھی بہادر شاہ اب پورے کا پورا میرا ہے ،یوں دونوں کے درمیان خاموش گفتگو ایک قدم آگے بڑھ کر آنکھوں تک جا پہنچی اور وہ کتنی باتیں چپ چاپ آنکھوں میں طے کرتے جارہے تھے، محبت کا جذبہ عورتوں میں بڑی تیزی سے نمو پاتا ہے، جس طرح بانس کا ننھا منا پودا یکدم مٹی کا سینہ چیر کر چند دنوں میں قدآور اور مضبوط ہوجاتا ہے اسی طرح روبینہ کے ساتھ بھی ہورہا تھا اس نےجو محبت کا بیج سب سے چھپا کر دل کی گہری زمین میں بویا تھا، اس بیج سے نمو پاتی ننھی منی کونپلیں سر اٹھا کر گستاخی کرنے تک پہنچ رہی تھیں،۔
ایک تو استاد بہادر سارا دن اس کی نگاہوں کی دسترس میں رہتا دوسرا اس نے دل کو اچھی طرح ٹٹول کر کھنگال کر دیکھ لیا تھا، جس میں استاد بہادرے پورے وجود کے ساتھ براجمان تھا، محبت ابھی تک کونپل اور کلیوں میں بند تھی ابھی تک پھول مہکا نہیں تھا، بات اقرار اور عہد و پیماں تک نہ پہنچی تھی، عید سے دو روز پہلے استاد نے سارا گھر چمکا دیا تھا اب کام ختم تھا رکنے کا جواز ختم ہوگیا تھا، روبینہ کی جان پر بن آئی کہ اب وہ کیا کرے گی ،پاس تھا تو تحفظ تھا ،دوری میں تو موت تھی ،دوسری طرف استاد بھی چاہتا تھا یہاں کسی طرح آتا جاتا رہوں، خوشی کے دوسرے دو بھائی قصاب تھے ،عید قربان پر خوشی بھی ان کے ساتھ مل کر ان کا ہاتھ بٹاتا تھا، یوں گوشت کے ساتھ کچھ پیسے مل جاتے تھے، کام ختم ہوا تو خوشی نے بہادرے کا حساب کتاب چکاتے ہوئے کہا استاد اگر عید کے روز کوئی کاج نہ ہوا تو میرے ہاں آجانا ،بڑے ملک صاحب کے ہاں اونٹ اور بیل کی قربانی ہے، مل جل کر جانور ذبح کرلیں گے ،وقت بھی گزر جائے گا اور محنت کے عوض کچھ معاوضہ بھی مل جائے گا، استاد کےلیے جیسے یہ پیشکش ایک نعمت تھی اس نے فوراً حامی بھر لی، عید کے دن نماز ادا کرکے وہ سیدھا ملک صاحب کے ڈیرے پر چلا گیا وہاں خوشی اور اس کے بھائی پہلے سے موجود تھے، یوں مل جل کر اونٹ اور بیل کو قربان کیا گیا ،عصر کے بعد گوشت وغیرہ کاٹنے سے فارغ ہوئے تو خوشی کہنے لگا استاد بہادرے چلو میرے گھر چلتے ہیں کچھ کھا پی لینا اور کچھ گھر لے جانا وہاں گھر میں کون ہے جو تمھارا انتظار کرتا ہوگا۔۔ بات تو معمولی تھی لیکن بہادرے کے دل میں ترازو ہوگئی وہ خوشی کے ساتھ چلا گیا لیکن دل و دماغ میں ایک جنگ تھی جو اس کو بے چین کررہی تھی گھر میں کون ہے جو انتظار کرتا ہوگا یہ الفاظ نہیں ہتھوڑے تھے جو اس پر برس کر اس کو ڈھا رہے تھے،
وہاں بے دلی سے اس نے کچھ کھایا پیا تھا کہ اچانک کانوں کے قریب جلترنگ ہوئی کسی نے عید مبارک کہا ایک مانوس آواز نے دل کی ساری شکنیں مٹا دیں یہ دیکھنے کیلئے کہ آواز کا ہدف میں ہی ہوں استاد بہادرے نے سر اٹھا کر دیکھا وہاں دشمن جاں روبینہ نک سک سے تیار ہوکر مہندی میں رچی بسی کھڑی تھی شوخی سے ہاتھ آگے بڑھایا جیسے عیدی کی طلب گار ہو روبینہ کے جسم سے پھوٹتی جوانی کی مہک نے استاد بہادرے کو بے چین کردیا اس کے اندر محبت اور ضرورت کے درمیان جھگڑا شدت اختیار کرگیا اس کو لگنے لگا جیسے ابھی اس جھگڑے میں محبت ہارنے والی ہے، وہ جانتا تھا محبت اس کے بس کا روگ نہیں وہ دنیا جہاں کے قصے سنا سکتا تھا لیکن محبت کی زبان میں محبت بھری باتیں کرنا اس کے بس کا روگ نہیں، شادی سے پہلے چند عورتوں سے مراسم تھے لیکن وہ سارے تعلق جسم کی ضرورت سے آگے نہ بڑھ سکے تھے، کھانا کھانے کے بعد چند لمحوں کی تنہائی جیسے ہی ان کو میسر ہوئی تو روبینہ کہنے لگی بہادر شاہ میں تمھارے بغیر اب نہیں رہ سکتی دو دن سے میری جند سولی پر تھی مجھے کب اپنے ساتھ رکھنا ہے یہ بتا کر جاؤ، استاد بہادرے کے ماتھے پر تریلیوں نے بیل بوٹے بنانے شروع کردیئے اس سے پہلے یہی اس کے گماں میں تھا کہ تعلق اگر بنا بھی تو ضرورت کی پگڈنڈیوں پر ہی چل چل کر تھک ہار کر سمت بدل لے گا محبت کی نوبت ہی نہیں آئے گی نہ ہی ذہنی طور پر وہ خود کو ان بکھیڑوں میں پڑنے دینا چاہتا تھا۔
وہ ششدر تھا کہ یہاں تو شعلہ جل کر لال ہوچکا تھا جس کی تپش پور پور میں دہک رہی تھی لہجے میں عیاں تھی، استاد بہادرے نے بغیر کوئی جواب دیے وہاں سے نکلنے میں عافیت جانی گھر جاکر اس نے خود کو چارپائی پر گرا لیا روبینہ کی باتوں نے اس کے اندر زلزلہ بپا کردیا تھا وہ اس طوفان سے خوفزدہ ہوگیا تھا جو اس نے روبینہ کے لہجے میں محسوس کرلیا تھا ۔تمام رات اس نے سوچ کے جلتے انگاروں پر کروٹیں بدلتے ہوئے گزار دی نیند آنکھوں کا رستہ بھول گئی ہو جیسے، مؤذن نے اللہ اکبر کی صدا کو بہرام پورے کے چاروں جانب جب بکھیرا تو اس کے سلگتے بدن کو جیسے راحت مل گئی، فوراً اٹھ کر وضو کیا نماز گھر میں ہی ادا کرلی مسجد جانے کا حوصلہ ہی نہ ہوا جیسے تیسے کرکے رات گزر ہی گئی اور سورج نکلتے ہی اس نے بازار کی طرف رخ کرلیا ،عید کا دوسرا روز تھا اور وہ چاہتا تھا گھر میں بیکار پڑے رہ کر جلنے سے بہتر ہے کہیں دیہاڑ لگا کر خود کو مصروف رکھا جائے ۔
دن پوری طرح روشن ہوکر ہر طرف پھیل چکا تھا بازار کی جانب آہستہ آہستہ زندگی معمول کی طرف لوٹ رہی تھی اکا دکا لوگ آ جارہے تھے کافی کوشش کے باوجود استاد کو اس روز کام نہ مل سکا تو وہ گھبرا کر بے اختیار خوشی کی دکان کی جانب چل نکلا وہاں بڑا سا تالا اس کا منہ چڑا رہا تھا اچانک اس بند تالے نے استاد کے دماغ کا تالا کھول دیا وہ یہاں سے سیدھا خوشی دوکاندار کے گھر چلا گیا وہاں جاکر کہنے لگا کچھ گھر کیلئے سامان لینا تھا دوکان بند تھی سوچا گھر پر پتا کروں کہ آج دوکان کھلے گی بھی یا نہیں، بہادر شاہ کی آواز ڈیوڑھی سے نکل کر چار سو پھیلتی ہوئی کمروں کے اندر ان سماعتوں تک جاپہنچی جو کل شام سے کسی جواب کی منتظر تھیں، استاد بہادرے رات سے اپنے وجود پر اپنا بس کھو چکا تھا وہ بے بس تھا خود ہی اونچی آواز میں مخاطب ہوکر کہنے لگا چاچی ساتھ کچھ کھانے کو مل جائے تو اچھا ہے صبح سے کچھ کھایا نہیں اور یوں وہ برآمدے میں بچھی چارپائی پر جا بیٹھا، تھوڑی دیر بعد روبینہ اس کو ناشتہ دینے آئی تو دھیمی آواز میں کہنے لگا چاچا خوشی میرے ساتھ تمھارا رشتہ کبھی بھی نہیں کرے گا اس لیے میں نے سوچا ہے کہ یہاں سے بھاگ کر کہیں دور کسی اور جگہ جا کر ساتھ رہیں گے روبینہ کی عقل پر تو پہلے سے پتھر پڑ چکے تھے اپنا آپ وہ استاد بہادرے کو سونپ چکی تھی انکار کی گنجائش ہی نہ نکلی اس نے اسی دھیمے لہجے میں پوچھا کب بھاگنا ہے بہادر شاہ کہنے لگا تیار رہنا اور انتظار کرنا بس جلد ہی جیسے کوئی انتظام ہوگیا ہم یہاں سے اڑ جائیں گے، دن پر دن گزرتے گئے روبینہ کی محبت پختہ ہوتی گئی استاد کے جذبے میں بھی شدت آتی گئی لیکن ہزار جتن کے باوجود بھاگنے کا کوئی موقع ہاتھ نہ آیا۔۔
جاری ہے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں