بو علی اندر غبارِ ناقہ گُم ۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

میں اگر شاعر تھا، مولا، تو مری عہدہ برائی کیا تھی آخر؟
شاعری میں متکفل تھا، تو یہ کیسی نا مناسب احتمالی؟
کیا کروں میں؟
بند کر دوں اپنا بابِ لفظ و معنی؟
اور کہف کے غار میں جھانکوں ، جہاں بیٹھے ہوئے
اصحاب معبود ِ حقیقی کی عبادت میں مگن ہیں
اور سگ ِ تازی سا چوکیدار، ان کے پاس بیٹھوں
وحدت و توحید کا پیغام سُن کر
ورد کی صورت اسے دہراتا جاؤں؟

پوچھتا ہوں
کیا مری مشق ِ سخن ، توحیدکی ازلی شناسا

قرض کے بھُگتان کی داعی نہیں ہے؟
میں تو راس المال سارا پیشگی ہی دے چُکا ہوں
قرض کی واپس ادائی میں
مرے الفاظ کا سارا ذخیرہ لُٹ چکا ہے
شعر کو حرف و ندا میں ڈھالنا
تسبیح و تہلیل و عبادت سے کہاں کمتر ہے مولا؟
’’شاعری جزویست از پیغمبری‘‘
۔۔۔کس نے کہا تھا؟
میں تو اتنا جانتا ہوں
میری تمجید و پرستش لفظ کی قرآت میں ڈھلتی ہے
تو پھر تخلیق کا واضح عمل
تسبیح یا مالا کے منکوں کی طرح ہے

Advertisements
julia rana solicitors london

پھر خیال آتاہے شاید میں غلط آموز ہوں
جو شعر گوئی کوعبادت جان کر اِترا رہا ہوں
بو علی ہوں، جو ’’غبار ِ ناقہ‘‘ میں گُم ہو گیا ہے
————————
بو علی اندر غبار ِ ناقہ گم : دست ِ رومی پردہ ٔ محمل گرفت۔مولانا روم

Facebook Comments