• صفحہ اول
  • /
  • ادب نامہ
  • /
  • ظلمت سے نور کا سفر(قسط12)۔۔۔محمد جمیل آصف ،سیدہ فاطمہ کی مشترکہ کاوش

ظلمت سے نور کا سفر(قسط12)۔۔۔محمد جمیل آصف ،سیدہ فاطمہ کی مشترکہ کاوش

خواب آنکھوں میں پرونے کی اجازت ہے تجھے
شب ِ ہجراں میں بھی سونے کی اجازت ہے تجھے

Advertisements
julia rana solicitors london

ہسپتال کے صحن میں ڈوبتے سورج کی مدھم کرنیں اور رات کی پھیلتی تاریکی اس کی امید کے دیے کی لو بھی بجھا رہی تھیں ۔
“کیا میری زندگی کا سورج بھی غروب ہو رہا ہے ؟”
جب سے وہ موت کے خوف کا شکار ہوئی تھی تو عصر کے بعد مغرب کے قریب کا وقت اس پر پل صراط سے گزرنے جیسا دشوار محسوس ہوتا تھا ۔ جان لیوا بے چینی اکثر اسے نزع کے حالات سے دوچار کردیتی تھی. اس نے پڑھا تھا کہ مرنے والا چاہے کسی بھی وقت اس کا انتقال ہو اسے عصر کا وقت ہی معلوم ہوتا ہے ۔ اس بات کا حقیقت تو پتہ نہیں مگر ایسا کیوں ہے؟ ڈھلتی شام کی منظر میں اداسی کیوں ہے؟
آمنہ سے ملنے کے بعد ایک مثبت تبدیلی یہ آئی کہ وہ اب اس ذہنی و روحانی کیفیت کو ایک نفسیاتی بیماری سمجھنے لگی تھی. جس کا شکار وہ واحد نہیں تھی بلکہ بے شمار رہ چکے تھے.
“اب جب بھی آمنہ سے میرا رابطہ ہوا، ضرور پوچھوں گی کہآخر ڈیتھ فوبیا کیوں ہوتا ہے؟ ”
اس نے ایک عزم کیا اب وہ اپنے آپ کو سمجھے گی.
پہلے وہ دوسروں کے لیے جیتی رہی اب اسے اپنے لیے بقاء کی جنگ لڑنی ہے ۔
سادہ، مخلص، اپنائیت لیے حساس دل کے ساتھ اپنے اور پرائے کے کام آنے والی لڑکی سخت طوفانی بھنور میں بے توجہی اور زہر آلود رویوں کا شکار بنتی جا رہی تھی مگر اب
اس نے اپنے اندر ہمت اور امید کا چراغ روشن کرلیا ۔
آج سے خود کو سمجھنا ہے اور ڈھونڈنا ہے کہ غلطی کہاں سے ہوئی.مجھے یہ نفسیاتی مسائل کیوں پیدا ہوۓ۔ یہ احساسات اور خیالات کس طرح مجھے اکٹوپس کی طرح جکڑ گئے ۔
اسے اپنی بزنس کولیگ کی بات یاد آئی کہ جب آپ مسائل کا شکار ہوں تو اس کے حل کرنے کے لیے پہلے اس کی بنیاد کو تلاش کریں ۔ اس کی وجوہات اور اسباب پر توجہ دیں ۔
اسلام علیکم آمنہ کیسی ہو؟”
اس نے گھر آتے ہی آمنہ کو کال کی.
“وعلیکم السلام کیسی طبیعت ہے. آج میں سوچ رہی تھی تمہارے ساتھ بیٹھ کر چائے پی جائے. ضحی تمھیں پتہ ہے کہ اچھے دوست کے ساتھ بیتے کچھ لمحے بے جان سی زندگی میں روح پھونک دیتے ہیں ۔ اور تم میری وہ دوست ہو جس سے ملاقات کے بعد مجھے بہت خوشی ہوتی ہے. ”
آمنہ جب بھی اس سے ملاقات کرتی اور بات کرتی وہ ضحی کو ہمیشہ اپنے اپنائیت بھرے جملوں سے سرشار کردیتی. واقعی کسی نے کہا تھا
“لفظ مار بھی دیتے ہیں اور لفظ جینے کا سبب بھی بن جاتے ہیں ۔یہ تو بولنے والے کی فطرت پر ہے۔ ”
ایک آنسو اس کی آنکھ سے ٹپکا…
” ایسے مرہم رکھتے لہجے کیا گھر سے نہیں مل سکتے؟ ”
اس سوچ کے آتے ہی اس کی ہمت ریت کے ذروں کی طرح بکھرنے لگی۔ اس نے فوراً خود کو مخاطب کیا۔
” مجھ اس ظلمت کے اندھیرے سے نکلنا ہے مجھے نور چاہیے مجھے اس خوف سے آزاد ہونا ہے”۔
جوں جوں اس کی طبیعت میں خوف کا عنصر بڑھنے لگا اس کی کیفیت غیر متوازن ہونے لگی پاگل ہوتی سوچوں کو دیکھ کر ازلی مادیت پستی اس کی ماں کی سوچ پر حاوی ہونے لگی ۔۔۔”اے ریشمہ ایک بات سن “ریشمہ نے اپنی کتاب کو بند کیا” جی اماں سن رہی ہوں بولوں ”
اماں کے اشارے سے نزدیک ہوئی ۔۔۔
“ضوئی لگتا ہے پاگل ہو گئی ہے، ایک کام کرو اس کے کاروبار اور لین دین کو ہاتھ میں کر لو، اس کی چیک بک اور اے ٹی ایم کارڈز قابو کرکے پیسے نکلوا لیتے ہیں ۔ اور بوتیک کی ملازمہ کو اپنے ہاتھ میں کرکے کام خود دیکھتے ہیں ۔اگر اس کی طبیعت سنبھلی نہیں تو میں سوچ رہی ہو اسے پاگل خانے داخل کروا دیتے ہیں کچھ دن ۔روز روز کی سر دردی تو کم ہو ”
ریشمہ ہمیشہ کی طرح خوف غرض اور مفسد پرستی میں ماں کی ہاں میں ہاں ملا کر اپنی خواہشات کو ضحی کے پیسے پورا کرنے کے خواب دیکھنے لگی ۔
اماں کچن میں شاید کچھ کاٹ رہیں تھیں اس کی دلدوز پکار پر کچن سے ہاتھ میں چھری پکڑے نکل آئیں۔ ہاتھ میں پکڑی چھری ہلاتے ہوۓ کہنے لگیں۔
“بس کردے ضوئی اللہ کا واسطہ۔ نہیں مرتی تم، چیخ چیخ کے محلہ اکٹھا کرو گی کیا۔؟ ”
ضحی کی نظر چھری پہ ٹہر گئی۔۔ ذہن نے سکڑنا شروع کیا۔ آنکھوں کی پتلیاں چھری پہ جم گئیں ۔چھری قریب آتی محسوس ہونے لگی اور اماں کی آواز نے کانوں کے پردے پہ دستک دینے سے انکار کردیا۔ لب تھر تھرانے لگے۔
“چھری،اماں چھری مجھے لگ جاۓ گی ۔ میں مر جاؤں گی۔ مت کریں میں مرجاؤں گی۔” اب وہ ہر وہ چیز جو جان لیوا ہے اس سے خوف زدہ رہنے لگی ۔
ضحی زمین پہ کونے میں سمیٹ کر بیٹھ گئی۔ اماں نے چھری پھینک کر سنبھالنا چاہا تو ضحی مزید چیخنا شروع ہوگئی کہ “مت کریں میرے قریب مت آئیں۔ مجھے مت ماریں ۔میں مرنا نہیں چاہتی۔”
اماں نے ایمبولینس کو فون کیا اور ضحی کو ڈال کر پاگل خانے لے گئیں۔ ڈاکٹر نے ضروری معالجہ کرکے ایڈمٹ کرلیا اور اماں اسے چھوڑ کر واپس ہوگئیں ریشمہ نے کالج سے آنا تھا ۔۔
ضحی ہکی بکی ایک جوڑے میں ملبوس پاگل خانے کے زرد کمرے میں زردی مائل دیواروں کو وحشت زدہ انداز میں ویران آنکھیں لیے دیکھ رہی تھی ۔ذہنی دھچکا اتنا شدید تھا کہ زبان گنگ ہوگئی۔ ایسے ہی بیٹھے اسے گھنٹوں گزار گئے ۔خالی ذہن میں ایک ہی تکرار ابھی اماں آجائیں گی۔ شاید ریشمہ بیمار ہے ورنہ آ جاتیں۔
ذہن کی رو اس قدر اس ایک خیال پہ مجتمع تھی، کہ اسے محسوس ہی نہیں ہوا وہ ہلکا ہلکا ہل رہی تھی ۔اور زیر لب کہہ رہی تھی کہ ابھی اماں آجائیں گی۔
پاگل خانہ کے عورتیں الجھے بال، میلے لباس اور اپنی وحشت بھری نظروں سے ضحی کو ترحم سے دیکھ رہیں تھیں کہ اس کو نہیں پتہ کیا؟ جو پاگل خانے چھوڑ جائیں پھر وہ واپس نہیں آیا کرتے ۔۔۔
“کیا میرے گھر والوں کی نظر میں” میں ” پاگل ہوں”
آنسوؤں کی لڑی اس کی آنکھوں سے بہنے لگی اور پھر ساون کی موسلا دھار بارش کی طرح برس پڑی ۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply