• صفحہ اول
  • /
  • ادب نامہ
  • /
  • ​شعر مر زا غالب کا، نظم ستیہ پال آنند کی اور تبصرہ شمس الرحمن فاروقی کا

​شعر مر زا غالب کا، نظم ستیہ پال آنند کی اور تبصرہ شمس الرحمن فاروقی کا

شعر، مرزا غالب
یک قلم کاغذ ِ آتش زدہ ہے صفحہ ء دشت
نقش ِ پا میں ہے تپِ گرمی ء رفتار ہنوز

نظم، ستیہ پال آنند
کس قدر شعلہ بجاں ہے دم ِ تخلیق کا کرب
آگ  اگلتا ہوا یہ آپ کا قُقنس نامہ
نطقہ ء حارہ ہے یا آتش ِ آذر کی ہے آنچ
آپ کیا کہتے ہیں اس شعر کے بارے میں ، حضور؟

مرزا غالب
یک قلم کاغذ ِ آتش زدہ اور میرا قلم
ایک لمحے کے ہی گلخن میں سلگ جاتے ہیں
یہی تفسیر ہے اس شعر کی ، اے ستیہ پال
دشت کی مثل ہو ، تمثال کف ِ پا کی ہو
عقب میں ان کے تو کاغذ ہے یا پھر خامہ ہے
سب اسی ایک ہی تسبیح کے دانے ہیں ، عزیز

ستیہ پال آنند
کچھ تو فرمائیے اس طور معانی کے لیے
کیا ’’مراعات ‘‘ ہیں یا ــ’’سادگی و پرکاری‘‘ـ؟

مرزا غالب
یہ “مرا عات” ہی ہیں جن کی “نظیر ” اظہر ہے
دیکھیں تو “صفحہ” ، “قلم “، “نقش” ، بھی اور “کاغذ” بھی
اور پھر آگے چلیں، دیکھیں تو “پا” اور “رفتار
کچھ ذرا اور بڑھیں آگے ، تو ہے آتشیں دشت
اب بھی گر آپ نے سمجھا نہیں تو، میرے عزیز
آپ کے واسطے میں صدقہ ہی دے سکتا ہوں

ستیہ پال آنند
واہ، اے دیدہ ور استاد، اے با ذوق علیم
ان “مراعات” کی تو اپنی “نظیر” آپ ہی ہیں
ہاں، مگر اتنی اجازت تو مجھے دیں کہ استفسار کروں
اور کیا کچھ ہے کہ جو اس شعر کی تفسیر میں ہے

مرزا غالب
گرمی ٗ نقش ِ قدم ایک کسوٹی ہے کہ جو
دشت پیمائی کی رفتار کی شاہد ہے، میاں
گرمی ء سینہء   صحرا ہے وہ آلہ جس سے
دشت پیمائی کی وسعت کا پتہ چلتا ہے
یہی میزان کا ’’گز ماپ‘‘ ہے ، تخمینہ ہے
’’یک قلم کاغذ ِ آتش زدہ ‘‘اور ـصفحہ ٗ دشت‘‘
مستوی صورتیں گرمی کی ہیں، لیکن دراصل
ان سے تخلیق کا آتش کدہ بھی ہے مقصود

تبصرہ ۔۔شمس الرحمن فاروقی
ایک برقی مکتوب کے کچھ حصص، جس کے متن سے غیر متعلق مواد، شخصی ، ذاتی،اور دیگر موضوعات اور شخصیات کے بارے میں مواد مِنہا کر دیا گیا اور صرف اس شعر سے متعلق مر حوم کے ارشادات کو روا رکھا گیا۔

آپ کی  نظم کڑے سے کڑے معیار پر بھی پوری اترتی ہے۔آخری سطر تو گویا نظم کی تاویل، تشریح و توضیح ایک ہی جملےمیں کر تی ہے۔۔۔ ” تخلیق کا آتش کدہ” ایک خوبصورت اصطلاح ہے۔ میر ا خیال یہ ہے کہ اس شعر میں صرف عاشق کی گرم رفتاری کا مذکورنہیں ہے، یہ تصویر معشوق کی رفتار کی بھی ہو سکتی ہے۔ یہ نقش ِپا کس کا ہے، جس میں گرمی رفتار کا ، “تپ” ابھی تک موجود ہے؟ عاشق کا، جسے معشوق تلاش کرتا ہوا دشت پیمائی کر ر ہا ہے یا معشوق کا جو عاشق کی تلاش میں نکلا ہوا ہے،؟

ایک نکتہ اور بھی ہے، جسے کسی شارح نے ، (بشمولیت آپ کے)، گرفت میں لانا مناسب نہیں سمجھا۔ لفظ “تپ” (دہلی کی زبان میں ، غالب کے زمانے میں بھی اور آج بھی) “بخار” کے معنی میں استعمال ہوتا ہے جسم کا درجہ ء حر ارت جیسے کہ “معیادی بخار” وغیرہ۔ اس شعر کے داخلی اور بیرونی تناظر میں یہ کس حد تک صحیح ہے، میں اس پر کچھ کہنے سے قاصر ہوں ۔

غالب نے تو نقش اورآتش زدہ کاغذ کا تعلق خاطر شعر میں ہی بہ احسن و خوبی بیان کر دیا تھا،لیکن آپ نے مراعات النظیر کے بارے میں جو کچھ اپنی نظم اس بے بدل شاعر سے کہلوایا ہے، وہ بھی ایک خاصے کی چیز ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

میں نے “تفہیم غالب” میں اس شعر پر لکھتے ہوئے وحشی یزدی کے ایک شعر کا حوالہ دیا ہے۔ شاید آپ کی نظر سے نہیں گزرا۔
کہ گزر کرد ازیں راہ بہ شوخی وحشیؔ
نبض جادہ تپد و سینہء صحرا گرم است
نبض ِ جادہ تپد” ایک لاثانی استعمال ہے جس میں جادہ کو انسانی جسم کا رتبہ دیا گیا ہے۔”

Facebook Comments