پڑھیے دریائے چناب کے کناروں پر آباد بستیوں سے محبت اور ضرورت کے درمیان جھگڑے کا ایک سچا واقعہ، اس سچے واقعے سے جنم لیتی کہانی کے کردار مقام، نام سب فرضی ہیں منظر نگاری اور تحریر میں کسی طرح کی مماثلت محض اتفاقیہ ہوگی،اس پوری تحریر کو پڑھ کر اگر کسی کی دل شکنی ہو یا کوئی لفظ،جملہ،انداز برا لگے تو میں اس کے لیے معافی کا طلبگار ہوں.
_______
بہرام پورہ ارد گرد کے سات دیہاتوں کا مرکز تھا ہنرمندوں اور زمینداروں پر مشتمل اس علاقے کی شہرت کئی حوالوں سے تھی لیکن ان میں مشہور بابا جیون شاہ کا مزار اور استاد بہادر شاہ نمایاں تھے
نام تو اس کا بہادر شاہ تھا لیکن بچے بڑے سب اسے استاد بہادرے کے نام سے پکارتے تھے بلا کا محنتی اور جفاکش تھا پورے بہرام پورے میں اس جیسا محنتی کوئی دوسرا نہ تھا پیشے کے لحاظ سے وہ رنگساز تھا، محنت اور کام میں لگن کی وجہ سے رب نے اس کی کاریگری میں صفائی بھی خوب رکھی تھی گھروں مدرسوں اور دوکانوں میں سفیدی کرنا اس کا صرف پیشہ نہیں بلکہ شوق بھی تھا یہ کام اس نے اپنے والد قادر شاہ سے بچپن میں ہی سیکھ لیا تھا بچپن سے ہی محنت کی وجہ سے وہ استاد بھی مشہور ہوگیا تھا ، رنگ بکھیرنے کے ساتھ ساتھ وہ کنویں کھودنے، کھیتی باڑی جیسے محنت طلب کام بھی کرتا تھا، رزق اس پر ہمیشہ سے مہربان رہا تھا کھاتا بھی وہ خوب ڈٹ کر تھا طاقت میں وہ کسی بھی طرح دو بیلوں سے کم نہ تھا، اگر کسی کے پاس پیسے نہیں ہوتے تو وہ کام مفت بھی کردیتا تھا ہر گھر میں اس کا آنا جانا عام بات تھی، لڑتا کسی سے نہیں تھا لیکن اگر کوئی پہل کرے تو تب تک ٹلتا نہیں تھا جب تک اگلا ہار نہ مان لے یامعافی تلافی نہ کرلے، قدموں کا تیز تھا چلنے میں اسکو کوئی پا نہیں سکتا تھا، پورے بہرام پورے اور مضافات کے قصبوں میں شاید ہی کوئی ایسا گھر ہو جو استاد بہادرے کے نام اور کام سے واقف نہ ہو ہر گھر کی کھوئیی اور ہر گھر کے رنگ و روغن میں دونوں باپ بیٹوں کا فن جھلکتا تھا، مضبوط کسرتی بدن چوڑی چھاتی چھ فٹ سے نکلتا ہوا قد کاٹھ اور چہرے میں کشمیری زعفرانی رنگت نے اس کی مردانہ وجاہت کو دو آتشہ بنا رکھا تھا زمین کے سینے میں جب کنواں کھودنے کیلئے وہ کدال اتارتا تو اس کے فولادی بازوؤں میں مچھلیوں کی تڑپ پر گاؤں کی خواتین مرمٹتی تھیں گھریلو خواتین میں استاد بہادرے بڑا مقبول تھا، ایک تو مردانہ وجاہت اوپر سے چرب زبان اور قصہ گو بھی تھا دنیا جہاں کے قصے کہانیاں اس کو ہر موقع کی مناسبت سے زبانی یاد تھیں یا پھر وہ خود سے گھڑ لیتا تھا کام اور نام کو جہاں عروج ملا وہاں مناسب پیسے بھی جمع ہوتے گئے اس کا باپ قادر شاہ جو اب اکثر چارپائی پر بیمار پڑا رہتا تھا اس کو بہادرے کی عورتوں سے راہ و رسم کے متعلق سن گن ملتی رہتی تھی جس کا اس نے یہ حل نکالا کہ بہادر شاہ کی ساتھ والے قصبے میں فوراً شادی کرا دی عمر کے لحاظ سے استاد بہادرے پچیسویں سال میں تھا خانگی معاملات سے ابھی ناواقف ناتجربہ کار تھا اوپر سے بیوی جو ملی وہ والدین کی اکلوتی نازو نعم سے پلی انیس سال کی لڑکی تھی جو امورِ خانہ داری میں بالکل صفر تھی سکول کی شکل اس نے دیکھی نہیں تھی نام تھا اس کا شہر بانو جس کے نین نقش بڑے دلکش تھے واحد یہی ایک گُن تھا جو باقی خامیوں پر پردہ ڈال دیتا تھا، استاد کی والدہ دمے کی مریضہ تھی گھر میں کوئی تیسری عورت نہیں تھی جو کھانے پکانے اور دھونے دھلانے کا کام کرتی شادی کے چھ ماہ بعد ہی گھر اصطبل کا منظر پیش کرنے لگا دونوں میں لڑائی جھگڑے شروع ہوگئے، استاد کو باہر کام کاج تو کرنا پڑتا ہی تھا لیکن شادی کے بعد گھر میں کھانا پکانے اور کپڑے دھونے کا کام بھی اس کے گلے پڑ گیا نا پائے رفتن نہ جائے ماندن کے مصداق وہ کیا کرے اس کو کچھ سمجھ نہ آتی اوپر سے شہر بانو الگ جھگڑتی کہ تم میرا خیال نہیں رکھتے میں تمھارے بوڑھے ماں باپ کو سنبھالتی ہوں اور الٹا تم مجھے کاٹ کھانے کو دوڑتے ہو، گھر میں ہر وقت کی چخ چخ بک بک نے اس کا ذہنی سکون غارت کردیا ہر وقت کا غصہ اس کی جان کو دیمک کی طرح لگ گیا بہرام پورے کہ لوگ دیکھ رہے تھے کہ استاد بہادر بدل گیا ہے پہلے جیسا ہس مکھ نہیں رہا بات بات پر لڑائی جھگڑے پر اتر آتا ہے کام بھی دل سے نہیں کرتا اکثر جگہوں پر تو کام ادھورے چھوڑ رکھے تھے، گھر اور باہر کے دو پاٹوں کے درمیان پسنے لگا تھا اپنے معاملات میں کسی کی وہ سنتا مانتا تو تھا نہیں اور گھر میں بوڑھے ماں باپ اس کی ازدواجی زندگی میں دخل نہ دیتے کہ آہستہ آہستہ جب ذمہ داریاں بڑھیں گی تو دونوں گھر داری کے معاملات سمجھ اور سنبھال لیں گے شہر بانو یہاں اپنا بابل کا انگنا ڈھونڈتی پھرتی تھی اور استاد کا خیال تھا جس طرح اس نے اپنی ماں کو دن رات چولہے کے آگے جھلستے دیکھا ہے اسی طرح شہر بانو بھی اسی ڈگر پر چلے، جھگڑے کی ابتداء اسی نقطے سے ہوئی تھی اس کے بعد جھگڑوں نے گھر میں مستقل بسیرا کر لیا، بہادرے تھکا ہارا گھر آتا تو ماں کو دیکھتا وہ بیماری کے باوجود مشکل سے کھانے کا انتظام کررہی ہوتی اور شہر بانو ریڈیو پر نغمے سننے میں مصروف ہوتی، گھر میں جھگڑوں کے ساتھ گندے میلے کچیلے کپڑے بھی بڑھتے گئے، دیواروں پر جالوں اور دروازوں پر گرد نے ڈیرا جما رکھا تھا، پہلے وہ باقاعدگی سے نہا دھوکر سفید کیٹی کے بے داغ کپڑے پہنتا عطر لگاتا اور جمعہ کی نماز کیلئے مسجد جاتا تھا لیکن اب نوبت یہ تھی اسے گھر میں کوئی سفید شے ہی نظر نہ آتی، استاد ابھی شباب کی ابتدائی منزلوں پر تھا چند عورتوں سے اس کے مراسم رہے بھی تھے لیکن شادی کے بعد اس نے اپنی توجہ گھر گرہستی پر مرکوز کرنے کی بھرپور کوشش کی جس میں آئے روز ناکامی ہورہی تھی اکثر وہ ناشتہ کیے بغیر کام پر جانے لگا، ایسے ہی ایک روز وہ بغیر ناشتہ کیے کام پر گیا وہاں بھی ڈھنگ سے کام نہ کرنے پر لڑ جھگڑ کر کام چھوڑ کر گھر آگیا گھر آکر اس نے دیکھا کہ اس کی بوڑھی ماں چولہے میں لکڑیوں کو جلانے کی ناکام کوشش کررہی ہے پوچھنے پر پتا چلا کہ شہر بانو پڑوسیوں کے گھر ٹی وی دیکھنے گئی ہے استاد تو جیسے پہلے ہی غصے سے بھرا بیٹھا تھا مزید بھڑک گیا اور شہر بانو کی واپسی کا انتظار کرنے لگا تھوڑی دیر بعد جیسے ہی شہر بانو نے گھر میں قدم رکھا بہادرے نے جھٹ چولہے سے ادھ جلی لکڑی اٹھائی اور آؤ دیکھا نہ تاؤ ڈیوڑھی میں ہی اس پر پل پڑا وحشی کی وحشت کو رستہ مل گیا نازک سے بدن میں مزاحمت کی سکت نہ تھی بہادرے کی اندھی مار سے شہر بانو لہولہان ہوکر بے ہوش ہوگئی بوڑھے ماں باپ میں اتنی ہمت نہ ہوئی کہ بہادرے کو روک سکتے چیخ و پکار سن کر اڑوس پڑوس والے اکٹھے ہوگئے شہر بانو کو کسی طرح ہوش میں لایا گیا بڑے حکیم صاحب کو کسی نے بلالیا تھا انہوں نے دوا دارو کی ساتھ بہادرے کو لعن طعن بھی کیا غصہ اترنے پر وہ کچھ شرمندہ تو تھا لیکن مارنے پیٹنے کو غلطی تسلیم نہیں کررہا تھا، کسی طرح شہر بانو کے میکے والوں کو اطلاع مل گئی شام کو وہ بھی آگئے اور زخمی شہر بانو کو اپنے ساتھ لے گئے ، چند دن بعد قادر شاہ کی منت سماجت کے باوجود جب انہوں نے اپنی بیٹی کو واپس نہ بھیجا تو آس پاس کے جاننے والے بزرگوں نے معاملے کو سلجھانے کی کوشش کی دونوں طرف والوں کو سمجھایا گیا لیکن اب وہ شہر بانو کو واپس بھیجنے پر ہرگز راضی نہ تھے، وہ جو لوگوں کی زندگیوں میں رنگ بکھیرتا تھا اس کی اپنی زندگی بے رنگ بے کیف ہوگئی، لڑائی جھگڑے کی داستان بہادرے کے گھر سے نکل کر مضافات میں پھیل گئی استاد لوگوں کا سامنا کرنے سے کترانے لگا تھا بات بات پر کاٹ کھانے کو دوڑتا تھا اس وجہ سے لوگ بھی کنارہ کشی کرنے لگے تھے کام دھندا ماند پڑ گیا بے چینی بے یقینی اور ناامیدی کے حصار نے اس کو جکڑ لیا تھا اب وہ اپنا زیادہ وقت گھر میں بے روزگار پڑے پڑے بِتا رہا تھا آخر ایک دن اس کو باپ کے توسط سے کام مل گیا بڑی عید سے پہلے خوشی دوکاندار جو اس کے باپ کا دوست تھا اس کے ہاں رنگ و روغن کا کام تھا اس نے اگلے دن برش اور دیگر سامان لیا اور کام شروع کردیا پہلے اس نے دوکان میں سفیدی کی پھر گھر میں رنگ و روغن شروع کر دیا، کام کاج میں مصروفیت سے وہ زندگی کی رنگینیوں کی طرف پھر سے لوٹنے لگا تھا ایک دن دوپہر کا وقت تھا گھر میں سفیدی کرتے ہوئے کسی نے اس کا نام لے کر آواز دی کہا استاد بہادرے آجاؤ کھانا کھا لو باہر برآمدے میں کھانا رکھ دیا یے، استاد جو اپنی زیست کی گنجلک سوچوں میں غلطاں تھا بے اختیار بول اٹھا بہادر شاہ کی اب ایسی قسمت کہاں کہ کسی عورت کے ہاتھ کا پکا کھانا کھائے، اس کی یہ تیز خود کلامی پردے کے پار تک سنی گئی، بلانے والی خوشی دوکاندار کی بڑی بیٹی روبینہ تھی جو استاد کے حال سے اچھی طرح واقف تھی اس لمحے بہادر شاہ کے لہجے میں فراق کا دکھ تھا یا اداسی کا نوحہ جو بھی تھا اس نے روبینہ کے دل میں ایک گرہ لگا دی . استاد نے حسب معمول کھانا کھایا بعد میں کام ختم کیا اور گھر چلا گیا وہ اس بات سے بے خبر تھا کہ کسی کے دل میں اس کی بات نے اک جلتا بجھتا دیپ رکھ دیا تھا ایک امید کا جگنو بسیرا کر گیا تھا، استاد بہادرے کی زندگی ایک بار پھر معمول کی ڈگر پر رواں ہوگئ تھی اس دوران خبر آئی شہر بانو کے ہاں اس کے بیٹے کی ولادت ہوئی تھی باپ بننے کی خوشی میں وہ اپنے جھگڑے اور رویے کو بھول کر ماں باپ کے ساتھ اپنا لخت جگر دیکھنے چلا گیا ایک آس امید تھی شاید اب پھر سے گھر بس جائے لیکن ایسا نہ ہوسکا شہر بانو کے ماں باپ نے ان کو وہاں سے بے عزت کرکے نکال دیا اور کہہ دیا اب ہم اپنی بیٹی کو اس جہنم میں کسی صورت نہ بھیجیں گے
جاری ہے….
Facebook Comments