ادب نامہ    ( صفحہ نمبر 120 )

نصف صدی کا قصہ۔۔۔رابعہ الرّ باء

قصہ سا ہوں کوئی  نصف صدی کا میں چاندنی جب بالوں میں جگمگاتی ہے آنکھ تاروں کے گرد جب بادل آ سے جاتے ہیں حادثے اپنا مفہوم بدل لیتے ہیں جب سانحے نیا لبادہ اوڑھ لیتے ہیں پل پل جب←  مزید پڑھیے

بادبان!ٹمٹماتے چراغوں کی داستان(قسط2)۔۔۔۔محمد خان چوہدری

“ باپ بیٹا ملتان روانہ ہو گئے “ ہم نے لکھ دیا آپ نے پڑھ لیا ، لیکن اُس زمانے میں سفر کے ذرائع آج کی طرح نہیں تھے،  وسیلہ سفر ریل گاڑی تھی۔ ہم بھلے انگریزوں کو لاکھ بُرا←  مزید پڑھیے

خامہ بدست غالب(غالب کے فارسی اشعار)۔۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

۰قرب کعبہ چہ حظ ؟ ؎ دگر ز ایمنیٗ راہ و قرب کعبہ چہ حظ ؟ مرا کہ ناقہ ز رفتار ماند و پا خفتست ۔ غالب رات بھر برف گرتی رہی ہر طرف میں کہ بیمار تھا بار بستر←  مزید پڑھیے

بادبان!ٹمٹماتے چراغوں کی داستان(قسط1)۔۔۔۔محمد خان چوہدری

اصغر شاہ باوے وقار شاہ کا چھوٹا بیٹا تھا۔ باوا وقار شاہ ریٹائرڈ فوجی اور گدی نشین تھے۔ ان کے بزرگوں کا دربار ایک بڑے گاؤں میں تھا، جس سے ملحق آبادی محلہ سادات میں سب ان کے خاندان کے لوگ←  مزید پڑھیے

خامہ بدست غالب(مرزا غالب کے ساتھ ایک مکالمہ)۔۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

دولت بہ غلط نبود از سعی پشیماں شو کافر نہ توانی شد، ناچار مسلماں شو ۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰ مرزا غالب کے ساتھ ایک مکالمہ س پ آ ۔تُو کیا ہے؟ مسلماں ہے؟یا کافر ِ زناّری کچھ بھی ہے، سمجھ خود کو اک←  مزید پڑھیے

جب سرسید نےگھنگھرو باندھے۔۔۔محمد تقی

چند دن ہوئےکہ سر سید احمد خان کی دو صد سالہ سالگرہ کی تقریبات منعقد ہوئیں۔ اسی دوران ہندوستانی رائٹر رعنا صفوی نے دہلی میں سر سید کےآبائی محلے و حویلی کی چند تصاویرٹوئٹر پر پوسٹ کیں۔ میراتعلق پشتون پاکستان←  مزید پڑھیے

خامہ بدست غالب۔۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

غالب کے اشعار پر مبنی نظم کہانیاں بجوکا رسیدن ہائے منقار ہما بر استخواں غالب پس از عمرے بیادم داد کاوش ہائے مژگاں را ———– (1) آدمی شاید رہا ہو گا ، مگر اب ایک دھڑ تھا، ایک سر تھا←  مزید پڑھیے

میں اس پہ گھر بنا دوں گا۔۔۔رابعہ الرَبّاء

تم جا کے بیٹھو تو سہی میں اوپر گھر بنا دوں گا تمہارے سفید کمرے میں ٹیولپ روز لگا دوں گا لان آنگن میں جھمکہ بیل اور رات کی رانی کسی درخت کی شاخ پہ اک جھولا بھی لگوا دوں←  مزید پڑھیے

محبّت کے بغیر۔۔۔فیصل عظیم

محبّت کے بنا کیا کچھ نہیں ہوتا تمہاری سانس رکتی ہے؟ ہمارا دم نکلتا ہے؟ کہیں سورج نہیں اُگتا، کہیں بادل نہیں چلتے، ستارے رات بھر آنکھیں نہیں مَلتے، ستانا چھوڑ دیتی ہے بدن کو بھوک، کہ آنکھیں بند ہوجاتی←  مزید پڑھیے

زندگی دشمن نہیں ہے۔۔۔۔(20)ڈاکٹر ستیہ پال آنند

بُدھ کی تعلیمات کے بارے میں ایک نظم کہانی اور پھر اک شخص آیا سَنگھ کا یا آشرم کا کوئی دروازہ نہیں تھا جو کسی کو روکتا وہ گرتا پڑتا، ٹیڑھا میڑھا جب کھلے آنگن میں پہنچا بے تحاشا رو←  مزید پڑھیے

داستانِ زیست۔۔۔۔محمد خان چوہدری/قسط31

پیش لفظ۔ ہم اپنے قارئین اور مکالمہ ٹیم کے تعاون ، ہمت افزائی، اور پذیرائی کے ممنون ہیں۔ گزشتہ تیس اقساط ہمارے الہڑپن، نوجوانی ، ملازمت، عشق و  عاشقی، کے زمانے بارے تھیں۔ پنجابی فلم کے پہلے ہاف کی طرح←  مزید پڑھیے

پھانسی گھاٹ۔۔۔منور حیات سرگانہ

جبرو، چاچے فضل دین کا سب سے بڑا بیٹا تھا۔ جابر خان نام رکھا تھا،لیکن لاڈ سے جبرو پکارتے تھے ،پہلوٹھی کی اولاد یوں بھی اکثر ماں باپ کی زیادہ لاڈلی ہوتی ہے۔یوں تو چاچے فضل دین کے تین اور←  مزید پڑھیے

پت جھڑ کی آواز۔۔۔قراۃ العین حیدر

صبح میں گلی کے دروازے میں کھڑی سبزی والے سے گوبھی کی قیمت پر جھگڑ رہی تھی۔ اوپر باورچی خانے میں دال چاول ابالنے کے لیے چڑھا دیئے تھے۔ ملازم سودا لینے کے لیے بازار جا چکا تھا۔ غسل خانے←  مزید پڑھیے

لڑکی والے۔۔۔بشریٰ نواز

شازیہ بیگم۔ کافی دیر سے نیلم  باجی کا انتظار کر رہی تھیں، دو بار کال بھی کی ،دونوں بار نیلم  کا ایک ہی  جواب تھا، بس باجی راستے میں ہوں۔۔ نیلم، رشتے کروانے میں کافی اچھی شہرت رکھتی تھی ،یہ←  مزید پڑھیے

سپین کی شاعری کا اسم اعظم گارسیالورکا۔۔۔۔علی تنہا

گارسیالورکا، سپین کی شاعری کا ہی اسم اعظم نہیں بل کہ دنیا بھر میں اس کی تکریم غیر معمولی شاعرانہ استعداد کی وجہ سے کی جاتی ہے۔ گارسیالورکا محض ۳۸ برس کی عمر میں جنرل فرانکو کے ڈکٹیٹر شپ کے←  مزید پڑھیے

ال نوری بیمارستان، مکتب انبار۔۔۔ شام امن سے جنگ تک/سلمیٰ اعوان۔قسط25

سچ تو یہ تھا کہ جونہی ماڈرن کواٹرز کے انتظامی اور کمرشل حصوں سے جدا ہو کر بندہ پرانے دمشق کے اندر داخل ہوتا ہے۔اور چاہے وہ جتنی بار بھی داخل ہو اس پراس طلسمی دنیا کے دروازے ہر بار←  مزید پڑھیے

پتی پتنی اور پتایہ ( تھائی لینڈ کے ایک سفر کی مختصر روداد ) ۔۔۔ تیسری،آخری قسط

گذشتہ سے پیوستہ  شمالی علاقہ جات کے ٹور کے دوران بیس بیس روپے میں ٹین کی دیواروں سے بنے لیٹرین میں ’مُتا لے‘ کا شوق پورا کرنے کی اکیڈمک مشق کو یاد کر کے ہم وطنوں کی استقامت اور مجاہدے←  مزید پڑھیے

دھرتی پُران۔۔۔(19)ڈاکٹر ستیہ پال آنند

چاند کی بُڑھیا دیکھ رہی تھی پہلے اُبھرے کئی سمندر پھر کچھ اونچے اونچے پربت کچھ ایسے بھی، جن کے منہ سے آگ کے شعلے نکل رہے تھے پھر بادل گھر گھِر کر آئے پانی کی بوچھاڑیں برسیں ٹھنڈک سی←  مزید پڑھیے

گونگے سُر کی واپسی۔۔۔(18)ڈاکٹر ستیہ پال آنند

(میری اپنی جیون کتھا ۔ خود نوشت ) کوکھ میں تھا جب میں سُنتا تھا اپنے دل کی دھڑکن ماں کے خون کی گردش کی موسیقی جیسے بانس کے جنگل میں اُڑتی آوازیں سُر سنگیت ۔۔۔ ہوا کے سانسوں کی←  مزید پڑھیے

اومارسکا کی اسٹرابیری۔۔۔۔حبیب شیخ

یوگوسلاویہ میں خانہ جنگی شروع  ہوچکی تھی۔ بہشت نما خوبصورت ہرنچی شہرمیں سرب دوسری نسل کے لوگوں کی مار دھاڑ کر رہے تھے اور ان کو اٹھا اٹھا کر کیمپوں میں لے جا رہے تھے ۔ سلام اور عذرا گھر←  مزید پڑھیے