گونگے سُر کی واپسی۔۔۔(18)ڈاکٹر ستیہ پال آنند

(میری اپنی جیون کتھا ۔ خود نوشت )
کوکھ میں تھا جب
میں سُنتا تھا
اپنے دل کی دھڑکن
ماں کے خون کی گردش کی موسیقی
جیسے بانس کے جنگل میں اُڑتی آوازیں
سُر سنگیت ۔۔۔
ہوا کے سانسوں کی شہنائی
کوئل کی میٹھی دھُن سے لپٹی پُروائی
راگ کے ٹھاٹ ۱؎
جو اُترے ننھے دِل کے گھاٹ
۔۔۔۔ مدھُر گیتوں کو رچتے تھے
نہ بجنے پر  بجتے تھے

کوکھ میں تھا جب
میں سُنتا تھا
صبح سویرے راگ للِت
مالکونس، سانجھ بیلا کا
آدھی رات کا مہماں ، یعنی درباری
اور بھیروی سدا سہاگن نار
گل و گلزار
بسنتی چولا پہنے راگ بہار
تین تال، سولہہ سنگھار
ایک تال کے بار ہ روپ ۲؎
راگ انوکھے، روپ انوپ
رات دن، موسم بہروپ ۳
سُر سنگیت کی ہلکی دھوپ
(رِدھم بدلتا ہے )
۔۔۔۔ اُترے تھے سب دیو لوک سے
ننھے دل کے گھاٹ
لیے ہاتھوں میں اپنے ٹھاٹ (ٹھاٹ۔ سنگیت ودیا کی ایک اصطلاح)
سبھی ’’ڈگ ڈگ‘‘ ۴ ؎میں شامل تھے
مری تخلیق کا حاصل تھے
(۲)
ننھا سا اک گوشت کا پُتلا
بال سنہرے، رنگ کھِلا سا
مَیں دنیا میں آیا
تو چکرایا
اَنجانا،اَن دیکھا تھا سب
سُر سنگیت نہیں تھا
کوئی مِیت نہیں تھا
لیکن جنم دِوس سے پہلے
دیو لوک میں سیکھی وِدیا
ماں کے خون کی گردِش کا جانا پہچانا
سُر لہری کا گیان ابھی تازہ تھا
راگوں کا وردان ابھی تازہ تھا

رویا پہلی بار تو سُر میں
بولا پہلی بار تو بج اٹھے سازوں کے تار
بڑا ہوا جب
بولنا سیکھا
چلنا سیکھا
کھیلنا سیکھا
لڑنا سیکھا۔۔۔
بڑا ہو جب
بھول گیا سب !*

کس دنیا سے آیا ؟کس دنیا کا باسی؟
دنیا والو، میں پردیسی، میں پرواسی؟
اِس دنیا کا
اُس دُنیا سے رشتہ کیا ہیِ
بھول گیا سب
(Wordsworth”s theory of childhood retaining elements of a previous life existence)*

بڑا ہو ا جب
منطق کی بھاشا میں سیکھا
باتیں کرنا
کرِت کِریا کا حاصل ہو گا ۵ ؎
فعل سے پہلے فاعل ہو گا
سیدھے ہاتھ چلو گے، بھیّا
تو سب رستہ سمتل ہو گا

سب کچھ سیکھا
سیدھا، تیکھا
خون کی گردش ، تین تال بِسرا کر روئی
جو سنگیت کی بھاشا لے کرمیں آیا تھا، وہ بھی کھوئی

(دوہا)
سُدھ بُدھ کھوئی راگ کی، سُر لہری ’متی ہِین‘ ہوئی ؎۷
ایک جیِبھ تھی، وہ کُلٹا بھی جگ بھاشا میں لیِن ہوئی ؎۸ (کُلٹا)

ناچ کی مُدرائیں، سنواد
راگ کے ماپ تول، ڈنڈ ماپ
چکر ، آلاپ
دھڑکتے ٹھاٹ ؎۹
جو اترے تھے کچھ پہلے
ننھے دل کے گھاٹ
کھو گئے سارے
سو گئے سارے
لین دین کی بھاشا میں جب
الجھ گئے سب
کیا ملتا تب؟
کیسا تھا انسانی قالب میں آ جانا
سب کچھ کھونا ،کچھ بھی نہ پانا

(۳)

صدیاں بیتیں
عمریں گذریں
جب میں سب کچھ بھول گیا تو
یاد آیا ۔۔۔۔۔
میں دنیا کا باسی ۔۔۔ اک پرواسی
اپنے دیس کو لوٹوں گا ، تو کیا ہو گا؟
اپنی بھاشا
چِنہہ، چکر، آلاپ۔۔۔( راگ ودیا کی اصطلاحیں)
بھری سُر لہری کے دنڈ ماپ
تیکھے بھاو، گول سنواد
سپیرے نیل کنٹھ کا ڈمرو ۹؎
’’اَن ہد‘‘ ناد ؎۱۰
تو سب کچھ بھول چکا ہوں
لوٹوں گا تو کیا ہو گا؟
کیا بھولے بھٹکے ، گونگے سُر کی لہری کو
مُکھرِت ہو کر بجنے کا وردان ملے گا؟ (مُکھرت۔ منہ سے ادا ہونا)
پھر سے گیان ملے گا؟

(۴)

تب میں نے اپنائے
بچپن کی یادوں کے پردے کے پیچھے
سِرک رہے کچھ سائے
خون کی گردش میں کھوئی آوارہ
سُر کی لہریں
ہِردے کی دھڑکن کے دھول اَٹے سازوں میں
سوئی ہوئی سنگیت کی لہریں

تب اِن سب کو چھو کر دیکھا
جاگرِت تھیں سب ؎۱۲
پھر سے اپنی رکت چاپ میں شامل کر لیں ؎۱۳
دل میں بھر لیں
(دوہڑا)۔۔۔مری کھوئی ہوئی دولت تھی
مرے ہونے کی علامت تھی
(۵)

اب میری رگ رگ میں، نس نس میں
جسم کے ریشوں، رکت کے رس میں
پھر سے سُر سنگیت رواں ہے
اب اونچے پربت سے گرتی یہ جل دھارا
کوئی کنارہ
کیا کھوجے گی؟
پاٹ گھاٹ پر نہیں رُکے گی
طوفانوں سے تیزی لے کر ہی اُمڈے گی
جسم میں بہتی
دل سے گزرتی
خون کی گنگا کو اپنے سب گھاٹ اتر کر
سمتل میدانوں کے سارے پاٹ گذر کر
پھر اُس ساگر کے انتِم درشن کرنے ہیں
اپنے پِتروں کے جنموں کے پِنڈ بھرنے ہیں۔ ؎۱۴
جب ہی سارے
راگ ناگ اپنی پھنیوں سے لہرائیں گے
’’اَن ہد ناد‘‘ کے بہتے تال
حال سے ماضی
ورتمان سے بھوت کال ؎۱۵
پھر بھوت کال سے ورتمان
واپس پھر اک بار حال کی جانب
اور پھر آخر
مستقبل کی طغیانی میں بہہ جائیں گے۔

سب کچھ جو کھویا تھا میں نے پھر سے پایا
میں اس جنم کا ناٹک کھیل کے اپنے گھر واپس آیا۔

(۶)

میں اَن جنما میٹھا گیت تھا
سُر سنگیت تھا
اب تک تو سب کچھ کھو کر مَیں
اک گونگا سُر بن پایا تھا
لیکن پھر سے
سُر ساگر میں مِل جائوں گا
اَن ہد ناد‘‘ کی آوازوں سے
پُشپ کی بھانتی کھِل جاؤں گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱ ؎؎ راگ کے ٹھاٹ ۔ کچھ صدیاں پہلے راگ کے بہتّر (۷۲) ٹھاٹ مانے جاتے تھے۔
بھات کھنڈےؔ نے انہیں دس بڑے ٹھاٹوں میں تقسیم کیا۔
۲ ؎ تین تال میں سولہہ “بِیٹس” ہوتی ہیں۔ ایک تال میں بارہ کا التزام ہے
۳ ؎ راگ، سمے اور موسم کے اعتبار سے گائے جاتے ہیں۔
لفظ ’بہروپ‘ ’بہو روپ‘ کا مخفف ہے، معنی ’’بہت سے‘‘۔
۴؎۔۔۔’’ڈگ ڈگ‘‘بچے کے دل کی دھڑکن۔
استعارہ شِو جی کے ڈمرُو (ڈُگ ڈُگی)کی آواز، جس سے ہندو عقیدے کے مطابق
مختلف اصوات کی ترتیب ہوئی۔

؎ ۵ کام کرنے کا عمل
؎ ۶ سیدھا، صاف
؎ ۷ اس بند میں دوہے کی صنف کے وزن کا التزام ہے۔ متی ہِین، بمعنی : نا سمجھ۔ بے عقل
؎ ؎ ۸ کُلٹا ( کُ ل ٹ ا): بُری، بد کار عورت
؎ ۹ راگ ودیا کی اصطلاحیں
؎۱۰ شِو۔ Lord Shiva
؎ ۱۱ اَن ہد ناد ۔۔۔بانسری پر بجایا جانے والا ایک طویل راگ
؎ ۱۲ ۔ جاگرِت : جاگی ہوئی۔ بیدار
؎ ۱۳ ۔ رکت چاپ : خون کی گردش
؎ ۱۴ ۔ ’’پِتر‘‘ بمعنی پُرکھے
۔ ہندو گنگا میں اپنے مرحوم ُپرکھوں کے پِنڈ بھرتے ہیں،
پوجا پاٹ کے بعد ان کے نام سے دان پُن کرتے ہیں؛ خیرات دیتے ہیں،
جن میں کپڑے، اناج اور نقدی بھی شامل ہوتی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

۱۹۹۱ اپنی ہندی نظم کا آزاد ترجمہ۔۔۔

Facebook Comments

ستیہ پال آنند
شاعر، مصنف اور دھرتی کا سچا بیٹا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply