• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • اب یہ اتنا آسان نہیں رہا کہ اسٹیبلشمنٹ سویلین سپریمیسی قبول کرلے ۔۔۔ غیور شاہ ترمذی

اب یہ اتنا آسان نہیں رہا کہ اسٹیبلشمنٹ سویلین سپریمیسی قبول کرلے ۔۔۔ غیور شاہ ترمذی

الف لیلی کی کہانیوں میں تیسری رات شہرزاد نے بادشاہ کو کہانی سناتے ہوئے بتایا تھا کہ کسی سمندر کے کنارے ایک ماہی گیر تھا جو بہت بوڑھا ہو چکا تھا- اس کی ایک بیوی اور تین اولادیں تھیں۔ اور وہ بہت غریب تھا- اس کا دستور تھا کہ ہر روز صرف چار بار جال ڈالتا تھا، اِس سے زیادہ نہیں۔ایک روز تیسرے پہر کو وہ گھر سے نکلا اور سمندر کے کنارے پہنچا، اور اپنا ٹوکرا زمین پر رکھ دیا- اپنا کرتہ اوپر چڑھایا , سمندر میں گھسا اور اپنا جال پھینک  کر انتظار کرتا رہا کہ وہ پانی میں بیٹھ جائے۔ جب اس نے تار جمع کیے تو اسے ایسا معلوم ہوا کہ جال بھاری ہے۔

اس نے اسے کھینچنے کی کوشش کی لیکن وہ ٹس سے مَس نہ ہوا- تب وہ خشکی کے کنارے آیا اور وہاں ایک کھونٹا گاڑا اور جال کو اس سے مضبوط باندھ دیا۔ پھر اس نے اپنے کپڑے اتارے اور پانی میں غوطہ مارا اور جال کے آس پاس چکر لگایا اور اس کو نکال کو چھوڑا اور خوش ہوا اور پانی سے باہر آیا اور اپنے کپڑے پہنے لیکن جب جال کے پاس پہنچا تو کیا دیکھتا ہے کہ اس میں ایک مرا ہوا گدھا پھنسا ہوا ہے جس کی وجہ سے جال پھٹ گیا ہے۔یہ دیکھ کر وہ بہت غمگین ہوا اور لاحول پڑھی اور اس نے گدھے کو جال سے نکالا – جب اسے نچوڑ چکا تو اسے پھر پھیلایا , سمندر میں غوطہ مارا- بسم اللہ کہہ کر جال پھینکا اور انتظار کیا ،یہاں تک کہ وہ پانی میں بیٹھ گیا اور بھاری پڑ گیا اور پہلے سے زیادہ پھنس گیا۔ وہ سمجھا کہ مچھلی ہے۔ اس نے جال کو باندھ دیا اور کپڑے اتارے اور پانی میں اترا اور غوطہ لگایا یہاں تک کہ اس کو خشکی پر لا کر چھوڑا۔ اس نے دیکھا کہ اس میں ایک بڑا مٹکا آیا ہے اور اس میں ریت اور مٹی بھری ہوئی ہے۔ یہ دیکھ کر وہ بہت غمگین ہوا – اس نے مٹکا تو پھینک دیا اور جال کو نچوڑا, اسے صاف کیا – خدا سے مدد چاہی اور تیسری بار سمندر کی طرف گیا – جال پھینکا اور انتظار میں بیٹھ رہا۔ جب جال بیٹھ گیا تو اس نے کھینچا اور دیکھا کہ اس میں ٹھیکریاں اور شیشے کے ٹکڑے اور ہڈیاں آئی ہیں۔

اس نے آسمان کی طرف دیکھا اور کہا کہ خداوند‘ تو جانتا ہے کہ میں اپنا جال کسی روز چار بار سے زیادہ نہیں ڈالتا۔ آج تین بار ڈال چکا ہوں اور کچھ ہاتھ نہیں آیا۔ اب اس بار تو میرے لیے روزی بھیج۔ اس نے خدا کا نام لے کر سمندر میں جال پھینکا اور بیٹھا انتظار کرتا رہا یہاں تک کہ وہ پانی میں بیٹھ گیا۔ اس نے اسے کھینچنا چاہا تو نہ کھینچا کیونکہ وہ  تھاہ  میں پھنس گیا تھا۔ اس نے لاحول پڑھی اور اب اس نے اپنے کپڑے اتارے, غوطہ مارا اور کوشش کرتے کرتے اسے خشکی پر لے آیا۔ اب جب اس نے جال کھولا تو اس میں سے ایک بھری ہوئی پیتل کی پیلی بوتل نکلی۔ اس پر حضرت سلیمان بن داؤد علیہ السلام کی مہر سیسے سے لگی ہوئی تھی۔ ماہی گیر اسے دیکھ کر بہت خوش ہوا اور کہنے لگا کہ اسے پیتل والوں کے بازار میں لے جا کر بیچوں گا تو اس کے اچھے دام ملیں گے۔ جب اس نے لٹیا کو ہلایا تو بھاری معلوم ہوئی اور چاروں طرف سے بند۔ اس نے اپنے دل میں کہا کہ دیکھوں تو سہی کہ اس میں ہے کیا۔اس کے بعد اسے بیچنے لے جاؤں گا۔ اس نے چھری نکالی اور سیسے پر مارنے لگا تاکہ جو کچھ اس کے اندر ہو, نکل آئے لیکن جب اس میں سے کچھ نہ نکلا تو اسے تعجب ہوا۔ اب اس میں سے دھواں سا نکلتا نظر آیا جو آسمان کی طرف اٹھتا اور زمین پر چلتا جاتا تھا۔ جب سب کا سب دھواں نکل چکا اور یکجا ہوا تو اس میں حرکت پیدا ہوئی اور وہ ایک دیو بن گیا۔ اس کا سر بادلوں میں تھا اور پاؤں زمین میں دھنسے ہوئے تھے۔ اس کا سر گنبد کا سا تھا اور ہاتھ سینگوں کی کنگھیوں کے سے۔ پاؤں مسطول کے سے, منہ غار جیسا, دانت پتھروں جیسے, نتھنے لوٹوں جیسے- آنکھیں ایسی جیسے دو کالے چراغ, چہرہ تاریک اور تیوری چڑھی ہوئی تھی۔

جب ماہی گیر نے اس دیو کو دیکھا تو اس کے پٹھے تھرتھرانے اور دانت بجنے لگے اور تھوک خشک ہو گیا اور اسے اپنے آگے کچھ نہ سوجھتا تھا۔

جب دیو نے اسے دیکھا تو کہنے لگا کہ لا الہ الا اللہ اے ماہی گیر میں تجھے ایک خبر سناتا ہوں۔ماہی گیر نے کہا کہ وہ کیا خبر ہے۔ اس نے جواب دیا کہ میں تجھے ابھی بُری سے بُری موت ماروں گا۔ ماہی گیر نے کہا کہ اے دیوؤں کے سردار, اے مردود, اس خبر کے بدلے خدا تجھے ذلیل کرے! میں نے کون سی ایسی بات کی ہے کہ تو مجھے قتل کرنا چاہتا ہے۔ میں نے تو تجھے بوتل سے نکالا ہے اور تجھے سمندر کی تھاہ سے چھٹکارا دیا ہے اور تجھے لے کر خشکی میں آیا ہوں۔

دیو نے کہا‘ کہ بس! اگر کچھ تجھے کہنا ہے تو یہ کہہ کہ تو کون سی موت مرنا اور جس طرح قتل ہونا چاہتا ہے؟ ماہی گیر نے کہا کہ آخر تو مجھے کس گناہ کی سزا دیتا ہے؟ دیو نے جواب دیا کہ اچھا میرا قصہ سن۔ ماہی گیر نے کہا کہ اچھا کہہ، مگر اختصار کے ساتھ! کیونکہ میری جان منہ کو آ رہی ہے۔

اس نے کہا کہ اچھا ماہی گیر سن! میرا شمار نافرنبردار جنات میں ہوتا  ہے۔میں نے اور صخرا الجنی نے حضرت سلیمان بن داؤد علیہ السلام کی نافرمانی کی تھی۔ اس پر انہوں نے اپنے وزیر آصف بن برخیا کو میرے پاس بھیجا اور وہ مجھے زبردستی پکڑ کر لے گئے اور مجھے باوجود میرے غرور کے ذلیل کیا- مجھے اپنے سامنے کھڑا رکھا۔ جب حضرت سلیمان علیہ السلام نے مجھے دیکھا تو انہوں نے مجھ سے خدا کی پناہ مانگی اور کہا کہ ایمان لا اور میری اطاعت کر۔ جب میں نہ مانا تو انہوں نے ایک بوتل منگوائی اور مجھے اس میں بند کر دیا اور اس کا منہ سیسے سے بند کر کے اس پر اسم اعظم کی مہر لگا دی اور جنات کو حکم دیا کہ مجھے سمندر کے بیچوں بیچ ڈال دیں۔

وہاں ایک سو برس تک میں اپنے دل میں کہتا رہا کہ جو کوئی مجھے نکالے گا اس کو میں ہمیشہ کے لیے امیر بنا دوں گا۔ یہ سو برس گزر گئے اور کسی نے مجھے نکالا نہیں۔ جب دوسری صدی آئی تو میں نے کہا اب جو کوئی مجھے نکالے گا, اس کے لئے میں دنیا کے خزانے کھول دوں گا، لیکن پھر بھی کسی نے مجھے نہیں نکالا۔ اسی طرح اور چار سو سال گزر گئے۔ پھر میں نے کہا کہ جو کوئی اب مجھے نکالے گا اس کی تین حاجتیں پوری کروں گا لیکن پھر بھی کسی نے مجھے نہیں نکالا۔

اس پر میں نہایت غضبناک ہوا اور اپنے دل میں کہنے لگا کہ اگر اب کسی نے مجھے نکالا تو میں اس کو مار ڈالوں گا اور اسے اختیار دوں گا کہ وہ بتائے کہ کون سی موت مرنا چاہتا ہے اور دیکھ اب تو نے مجھے نکالا ہے۔ مانگ کہ تو کون سی موت مرنا چاہتا ہے۔

جب ماہی گیر نے دیو کی باتیں سنیں تو اس نے کہا کہ یہ کیسی عجیب بات ہے کہ میں نے تجھے نکالا بھی تو ان دنوں میں! پھر ماہی گیر نے کہا کہ میرے قتل سے باز آ۔ خدا تیرے قتل سے باز آئے گا اور مجھے نہ مار! کہیں ایسا نہ ہو کہ خدا تجھ پر کوئی قاتل مسلط کر دے۔

اس خبیث نے کہا کہ میں تجھے بے مارے نہ چھوڑوں گا۔ ہاں یہ مانگ کہ تو کون سی موت مرنا چاہتا ہے۔ جب ماہی گیر کو موت کا یقین آگیا تو وہ دیو کی طرف مخاطب ہو کر کہنے لگا کہ اس احسان کی بنا پر مجھے معاف کر دے کہ میں نے تجھے رہائی دی ہے، دیو نے کہا کہ اسی رہائی دینے کی وجہ سے تو میں تجھے قتل کررہا ہوں۔

ماہی گیر نے کہا کہ اے دیوؤں کے سردار یہ اچھی رہی کہ میں تجھ سے بھلائی کروں اور تو اس کا بدلہ برائی سے دے۔ ہاں یہ مثل سچ ہے جو ان اشعار میں بیان ہوئی ہے:
”ہم ان کے ساتھ نیکی کرتے ہیں اور وہ الٹا بدلہ دیتے ہیں۔ اپنے سر کی قسم رنڈیوں کا یہی دستور ہے“-
”جو شخص نااہل کے ساتھ نیکی کرتا ہے تو بدلے میں برائی پاتا ہے“-

جب دیو نے ماہی گیر کی باتیں سنیں تو کہنے لگا کہ بس اب زیادہ بک بک مت کر، موت سے تجھے چھٹکارا نہیں-

ماہی گیر اپنے دل میں سوچنے لگا کہ یہ دیو ہے اور میں انسان۔ خدا نے مجھے پوری سمجھ دی ہے۔ میں بھی ترکیب اور سمجھ سے اس کو  مارنے کی کوشش کرتا ہوں‘ جس طرح کہ وہ مکر اور بدذاتی سے مجھے قتل کرنا چاہتا ہے۔ اس نے دیو سے کہا کہ کیا تو مجھے مار کر ہی چھوڑے گا؟

اس نے کہا کہ ہاں۔

ماہی گیر نے کہا کہ میں تجھے اسم اعظم کی قسم دیتا ہوں جو حضرت سلیمان بن داؤد علیہ السلام کی انگوٹھی پر کنندہ ہے کہ میں تجھ سے ایک سوال کرتا ہوں اور تو مجھے ٹھیک ٹھیک جواب دے۔

اس نے کہا اچھا مگر جوں ہی اس نے اسم اعظم کا ذکر سنا تو وہ پریشان ہو کر کانپنے لگا اور کہا کہ پوچھ مگر اختصار کے ساتھ۔

اس نے کہا کہ کیا تو ہی اس بوتل کے اندر تھا حالانکہ اس کے اندر نہ تیرا ہاتھ سما سکتا ہے اور نہ پاؤں۔
تو سارے کا سارا کیسے اندر آ گیا۔

دیو نے کہا کہ کیا تجھے یقین نہیں آتا کہ میں اس کے اندر تھا؟

ماہی گیر نے کہا کہ جب تک میں تجھے خود اپنی آنکھوں سے اس کے اندر نہ دیکھ لوں, ہرگز مجھے یقین نہیں آ سکتا۔

دیو نے اپنے آپ کو جنبش دی اور دھواں بن کر سمندر کے اوپر پھیل گیا۔ پھر یکجا ہو کر آہستہ آہستہ لٹیا میں داخل ہونے لگا, یہاں تک کہ سارے کا سارا دھواں اس کے اندر سما گیا۔

ماہی گیر فوراً آگے بڑھا اور سیسے کی مہر شدہ ڈاٹ لے کر بوتل کے منہ پر لگا دی اور دیو سے پکار کر کہا کہ مانگ کون سی موت مرنا چاہتا ہے۔ خدا کی قسم میں تجھ کو اس سمندر میں پھینک دوں گا اور یہاں اپنے لئے ایک گھر بناؤں گا اور کسی کو اس جگہ مچھلیاں نہ مارنے دوں گا اور کہوں گا کہ اس میں ایک دیو ہے اور جو کوئی اسے نکالے گا, اس سے وہ کہے گا کہ مانگ کون سی موت مرنا چاہتا ہے اور کس طرح قتل ہونا چاہتا ہے۔

جب دیو نے ماہی گیر کی باتیں سنیں اور اپنے آپ کو اندر پایا اور نکلنا چاہا اور نہ نکل سکا کیونکہ حضرت سلیمان کی مہر اسے نکلنے نہ دیتی تھی اور اسے یقین ہو گیا کہ ماہی گیر نے مجھے دھوکے سے بند کیا ہے تو اس نے کہا کہ اے ماہی گیر میں تو تیرے ساتھ مذاق کرتا تھا۔

ماہی گیر نے کہا کہ اے سب سے زیادہ رذیل اور ناپاک اور کمینے دیو، تو جھوٹا ہے۔اب ماہی گیر بوتل کو لے کر سمندر کی طرف بڑھا تو دیو نے کہا کہ ہائیں! بائیں! تو یہ کیا کرتا ہے؟

ماہی گیر نے کہا کہ ہاں ہاں –

وہ خبیث گڑگڑانے لگا اور خوشامد کرنے لگا اور اس نے کہا, اے ماہی گیر, تو میرے ساتھ کیا کرنا چاہتا ہے؟ –

اس نے کہا کہ میں تجھے سمندر میں پھینک دوں گا اور اگر تو اٹھارہ سو سال اور اس میں رہے تو میں تجھے رہنے دوں گا, یہاں تک کہ قیامت آ جائے۔

کہانی کا اختتام الف لیلی میں پڑھ لیں لیکن کالم کے اختتام کے لئے عرض ہے کہ قیام پاکستان کے بعد بننے والی حکومت کے ابتدائی سالوں میں سویلین حکومتیں ہرگز اسٹیبلشمنٹ کے کنٹرول میں نہیں تھیں لیکن قائد اعظم محمد علی جناح کی رحلت کے بعد سیاستدانوں کی حماقتوں اور اقتدار سے چمٹے رہنے کی ہوس نے نے ہی ملک غلام محمد, چوہدری محمد علی اور سکندر مرزا جیسے سول بیوروکریٹس اور جنرل ایوب خان جیسے فوجی افسروں کو بیرکوں سے نکال کر سرکاری دفتروں , وزارتوں اور حکمرانی کا راستہ دکھایا- اس راستے پر کم و بیش 71 سالوں سے حاکم رہنے اور سپریم پاور ہونے کا عادی ہونے کے بعد یہ کیسے ممکن ہے کہ اسٹیبلشمنٹ آسانی سے سویلین سپریمیسی قبول کرلے گی- اب اسٹیبلشمنٹ وہ دیو بن چکی ہے جو بوتل سے باہر نکل چکا ہے اور اسے بوتل میں واپس قید کرنے کے لئے سیاستدانوں اور سیاسی جماعتوں کو اپنی اعلی ترین کارکردگی, مثالی جمہوری کردار اور ان تھک محنت کی ضرورت ہے جیسا کہ مہاتیر محمد نے ملائیشیا, طیب اردگان نے ترکی اور گولڈا مائیر نے اسرائیل کی تعمیر و ترقی میں دکھائی تھی-

Advertisements
julia rana solicitors

اب یہ ہرگز ممکن نہیں ہے کہ لانگ مارچ, دھرنوں, مظلومیت کی تقریروں سے اسٹیبلشمنٹ کا دیو واپس اپنی بوتل میں قید ہو سکے گا- نہ تو یہ الف لیلی کی “ماہی گیر والی کہانی کا دیو ہے اور نہ ہی سیاستدان وہ ماہی گیر ہیں جو چالاکی سے اس دیو کو واپس بوتل میں بند کر سکیں گے-

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply