اومارسکا کی اسٹرابیری۔۔۔۔حبیب شیخ

یوگوسلاویہ میں خانہ جنگی شروع  ہوچکی تھی۔ بہشت نما خوبصورت ہرنچی شہرمیں سرب دوسری نسل کے لوگوں کی مار دھاڑ کر رہے تھے اور ان کو اٹھا اٹھا کر کیمپوں میں لے جا رہے تھے ۔ سلام اور عذرا گھر چھوڑ کر شہر سے باہر ایک رشتے دار کے فارم میں چھپ گئے لیکن ایک رات سرب دونوں کو وہاں سے اٹھا کر اومارسکا کے کیمپ میں لے گئے اور انہیں الگ الگ حصوں میں ڈال دیا ۔ اس کیمپ میں بھوک، اذیت ، بیماری اور موت کے سوا کچھ نہیں تھا ۔ سب قیدی بوسنیائی تھے اور ہڈیوں کا ڈھانچہ بن چکے تھے ۔ زیادہ تر کے جسموں پر شدید تشدد کے نشانات تھے ۔ سلام کو اپنا مستقبل سامنے صاف نظر آ رہا تھا لیکن وہ بالکل بے بس تھا ۔

ان قیدیوں میں سے کچھ اس کے دوست اور رشتہ دار بھی تھے ۔ ان کی حالت دیکھ کر سلام کے رونگٹے کھڑے ہو گئے ۔ کچھ قیدی سلام کے پاس آ ۓ اور اپنے دوستوں اور رشتہ داروں کا حال پوچھنے لگے ۔ وہ تو خود کافی دنوں سے روپوش تھا، اس لئے کسی کو کچھ زیادہ نہیں بتا سکا ۔

تھوڑی دیر بعد سلام کو کمرہ ء  تفتیش  میں لے جایا گیا ۔ دو سرب  میں داخل ہوئے ۔ ایک تو کافی بھاری بھرکم تھا۔ انہوں نے سلام کو کرسی سے فرش پر گرایا اور پے درپے اپنے وزنی جوتے اس کی پسلیوں میں مارنے شروع کر دیے ۔ سلام کو یاد نہیں کہ وہ کب تکلیف کی شدت سے بےہوش ہوا ۔ جب اسے ہوش آیا تو وہ برآمدے میں سردی سے ٹھٹھر رہا تھا اور اس کے جسم کا ایک ایک عضو اور ایک ایک ہڈّی درد سے چور چور تھی ۔ اس کا دل چاہتا تھا کہ وہ زور سے چیخ کر اپنی تکلیف کا اظہار کرے اور روۓلیکن اس کی نظر کیمپ کے محافظ پر پڑی جو قریب کھڑا اسے گھور رہا تھا ۔ خوف سے اس کی چیخ وہیں ضبط ہو گئی اورآنسو بہنے سے پہلے ہی خشک ہو گئے ۔ محافظ نے ایک دروازے کی طرف اشارہ کیا ۔ سلام رینگتاہوا دروازہ کھول کر اندر چلا گیا جہاں کئی اور لوگ بھی تکلیف سے کراہ رہے تھے ۔ اس کیمپ میں سب قیدیوں کی نگاہوں میں ہمدردی تھی لیکن کسی کے پاس زبان نہیں تھی ۔ کوئی اسے جھوٹا دلاسا  تک نہیں دے رہا تھا ۔ سب ناقابل برداشت حالات سے گزر رہے تھے اور کوئی امید نہیں تھی کہ اس کیمپ سے زندہ باہر نکل سکیں گے۔

یہ کئی  سو قیدی خاموش رہتے تھے، حالانکہ ان کے پاس کرنے کے لئے کچھ نہیں تھا ۔ یہ سارا وقت بات چیت کر کے گزار سکتے تھے لیکن سلام نے محسوس کیا کہ یہ سب خطّہ ارض سے نکل کر کسی اور سیّارے پر منتقل ہو چکے تھے جس  میں سورج سے امید کی کوئی کرن نہیں آتی۔ سلام کو عذرا کے بارے میں بہت پریشانی تھی ۔ اس نے سنا تھا کہ اس کیمپ میں قیدی عورتوں کو افسروں کی ہوس کا نشانہ بنایا جاتا ہے ۔ اس مایوسی کے علم میں اس نے اپنے لئے اور عذرا کے لئے موت کی دعا مانگنا شروع کر دی ۔

سلام کو ایک قیدی نے آہستہ سے بتایا کہ یہاں بیمار کا علاج صرف بندوق کی گولی سے کیا جاتا ہے ۔ اس کیمپ میں قیدیوں کے لئے کوئی طبّی سہولیات نہیں ہیں ۔ لہذا اس نے سلام کو تاکید کی کہ وہ اپنی پوری دماغی توانائی کو بیماری سے بچنے کے لئے لگا دے اور اگر بیمار ہو جائے تو بیماری کو چھپائے ۔ یہ سن کر سلام کی آنکھوں میں کچھ روشنی آئی ۔ اگر وہ خود کو بیمار ظاہر کرے یا سچ مچ بیمار ہو جائے تو موت اس کو اس اذیت ناک زندگی سے چھٹکارا دلا دے گی ، پھر اسے عذرا کا خیال آیا کہ اس پر کیا بیت رہی ہو گی ۔ اسے عذرا کے لئے زندہ رہنا تھا۔

شام کے وقت ایک قیدی جس کے سارے جسم پر اذیّت کے شدید نشانات تھے اور پسلیاں اندر دھنس چکی تھیں ایک دم کھڑا ہو گیا اور زور سے بوسنیا زندہ باد کا نعرہ لگایا ۔ دو محافظ اس کی طرف آۓاور گھسیٹ کر باہر لے گئے ۔ ایک یا دو منٹ کے بعد گولی کی آواز آئی اورکیمپ میں پہلے سے بھی زیادہ بھیانک سنّاٹا چھا گیا ۔ سب کی آنکھیں بتا رہی تھیں کہ انہیں پتہ ہے کہ یہ آواز کیا ہے لیکن کسی نے کوئی تبصرہ نہیں کیا ۔ شام سات بجے ایک ایک روٹی کا ٹکڑا ہر قیدی کو دیا گیا جسے سارے قیدی بھوک کے مارے بغیرچباۓہی نگل گئے ۔ سلام کے ساتھ بیٹھے ہوئے قیدی نے بتایا کہ یہ روٹی کا ٹکڑا پورے دن اور رات کی غذا ہے ۔

رات بھر کیمپ خوفناک چیخوں سے گونجتا رہا ۔ گاہے بگاہے کچھ لوگوں پر تشدّد ہو رہا تھا ۔ کچھ قیدی خواب کی حالت میں بھیانک آوازیں نکال رہے تھے ۔ سلام کو رہ رہ کر عذرا کا خیال آرہا تھا ۔ شاید وہ بھی کسی سرب کی ہوس کا نشانہ بن رہی ہو گی ۔ یہاں کی رات تو دن سے بھی بدتر تھی ۔

صبح ہوئی تو سلام کو پھر دو محافظ کمرہ تفتیش میں لے گئے ۔ دو افسر کمرے میں داخل ہوئے اور انہوں نے سلام کی شناخت کے بارے میں کچھ سوالات پوچھے ۔ اس کے بعد   نہوں نے سلام سے پوچھنا شروع کیا کہ ہرنچی میں کتنے بوسنیائی فوجی ہیں ، وہ کتنوں کو جانتا ہے، اور ان کی کون مدد کرتا ہے ۔ جب سلام ان سوالوں کا جواب نہ دے سکا تو انہوں نے مکّوں اور گھونسوں کی بارش شروع کر دی ۔ پھرکسی نے زور سے اس کو دھکّادیا اور وہ زمین پر آ رہا ۔ ایک وزنی افسر نے اس کے پیٹ پر جا بجا جوتوں سے وار کیے ۔ یہاں تک کہ سلام کے منہ سے خون بہنے لگا ۔ وہ دونوں سلام کو اس حالت میں چھوڑ کر چلے گئے ۔ اور ان کے جانے کے بعد دو محافظ اندر آۓ اور سلام کو دیکھ کر قہقہے لگانے لگے ۔

” بچّے نے اسٹرابیری کھا کر منہ لال کر لیا ہے ۔”
تکلیف کی شدّت سے ہار کر سلام نے سوچا کہ وہ اب کھڑا ہو کر بوسنیا کی حمایت میں نعرہ لگائے تاکہ سرب اسے موت کے گھاٹ اتار دیں اور وہ اس اذیّت سے نجات حاصل کرلے۔ مگر نہ ہی وہ کھڑا ہو سکا اور نہ کی اس کے منہ سے کوئی آواز نکل سکی ۔

محافظ سلام کی خون میں لت پت  حالت دیکھ کر آپس میں یہ کہتے ہوئے واپس چلے گئے کہ کچھ دیر بعد واپس آئیں گے تاکہ اس قیدی کو اچھی طرح ہوش آجاۓ ۔ دروازہ ایک زور دار آواز کے ساتھ بند ہو ا ۔ سلام رینگتے ہوئے اس گلاس کی طرف گیا جس میں سے وزنی افسر نے وسکی پی تھی ۔ اس میں ابھی ایک آدھ گھونٹ باقی تھا ۔ اس نے وسکی کا گھونٹ اندر انڈیلا اور آہستہ آہستہ اٹھ کر بیٹھ گیا ۔ سلام کی طبیعت کچھ سنبھل گئی  تھی۔ اب وہ مرنا نہیں چاہتا تھا ۔ اس نے عذرا کے لئے زندہ رہنا تھا ۔ وہ یہ سوچ کر کانپ گیا کہ عذرا کی کس طرح عصمت دری ہوتی ہو گی ۔

اس شدید اذیت کے بعد سلام کی کبھی تفتیش نہیں ہوئی ۔ شاید سرب افسر کو پتہ لگ گیا تھا کہ اس کے پاس بتانے کے لئے کچھ نہیں ہے ۔ ہلکے ہلکے بخار سے اس کا جسم ٹوٹتا رہتا ۔ سارے ہی قیدی بیمار تھے لیکن اپنی بیماری کو چھپا رہے تھے ۔ کئی  قیدی یہاں سالوں سے بند تھے اور محض ہڈّیوں کے پنجرے بن گئےتھے ۔ سلام کو تو ابھی کچھ ہی دن ہوئے تھے اور اس کی حالت قدرے بہتر تھی ۔ لیکن بھوک کی شدّت اور قیدیوں کی چیخ و پکار اس کی برداشت سے باہر تھی ۔

سلام عذرا کے بارے میں سوچتا رہتا۔ اسے ہر صورت میں عذرا کے لئے زندہ رہنا تھا۔ شاید کسی طرح وہ اور عذرا رہا ہو جائیں ۔ کسی طرح دوبارہ مل جائیں ۔ ایک دوسرے کو سہارا دے کر اپنی ٹوٹی ہوئی زندگیوں کو دوبارہ جوڑیں۔

کچھ عرصہ بعد سربوں اور بوسنیاؤں میں معاہدہ ہو گیا ۔ قیدیوں کی رہائی شروع ہو گئی ۔ ریڈ کراس کے لوگ آکر قیدیوں کو ایک کیمپ میں لے گئے جہاں خوراک اور طبّی سہولتوں کا بندوبست کیا گیا تھا ۔ لیکن سلام کو کسی چیز سے دلچسپی نہیں تھی۔ اس کی آنکھیں  ہر طرف عذرا کو ڈھونڈ رہی تھیں ۔ اورآخرکار اگلی صبح اس نے عذرا کو پہچان لیا۔ لیکن وہ عذرا نہیں تھی۔ وہ ایک سانس لیتا ہوا ڈھانچہ تھی جیسے ڈراؤنی فلموں میں قبر سے نکلی ہوئی زندہ لاش۔ بالکل پیلی رنگت، آنکھوں کے گرد گہرے حلقے، گالوں پر انتہائی بھدّے نشانات۔ سلام کو دیکھ کر عذرا بالکل ساکت تھی جیسے وہ اس کو نہیں جانتی تھی۔ پھر دونوں ایک دوسرے سے لپٹ گئے اور نہ جانے کتنی دیر سسکیوں کے ساتھ آنسوؤں کا سیلاب جاری رہا ۔ دونوں میں سے کسی میں نہ کچھ کہنے کی ہمت  تھی اور نہ کچھ سننے کی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سلام اور عذرا اپنے شہر واپس چلے گئے ۔ کچھ دن دونوں  اپنے دوستوں اور رشتہ داروں کو تلاش کرتے رہے ۔ ان میں سے چند کو جنگ نے نگل لیا تھا ۔ باقی کچھ زخمی تھے یا لاپتہ تھے ۔ یہ دونوں بھی انتہائی اذیّتوں سے گزر کر ذہنی طور پر کافی مفلوج تھے ۔ عذرا کے بڑے بھائی نے جو قدرے مالدار تھا ، یہ فیصلہ کیا کہ ان کو جلد از جلد مصروف کر دیا جائے ۔ اس نے پھلوں اور سبزیوں کا ایک چھوٹا اسٹور انہیں کھول کر دے دیا ۔ عذرا اور سلام دونوں اسٹور چلانے میں مصروف ہو گئے  ،لیکن فرصت کے لمحات میں قیدیوں کی خوفناک چیخیں اور محافظوں کے قہقہے ان کے کانوں میں گونجنے لگتے ۔ اور جسمانی تشدّد کے بھیانک خواب ان کو چین کی نیند نہ سونے دیتے۔

ایک دن جب سلام کیش رجسٹر پر بیٹھا ہوا تھا ،ایک آدمی اسٹرابیری کا ڈبّہ اٹھا کر لایا ۔ یہ آدمی نشے میں تھا۔ اس نے کاونٹر پر ہی اسٹرابیری کھانا شروع کر دیں اس کا چہرا اسٹرابیری کھانے سے گندا ہو گیا تھا ۔ سلام نے اس کو پہچان لیا ، کندھے بے حد چوڑے، آنکھوں میں لال ڈورے، چہرے پر دوزخ کے دروغہ کی سختی۔ یہ تو وہی محافظ تھا جس نے سلام کے منہ سے بہتے ہوئے خون کا مذاق اڑایا تھا ! سلام اپنے حواس کھو بیٹھا ۔
’دیکھو! بچّے نے اسٹرابیری کھا کر منہ لال کر لیا ہے ‘ اور قہقہے لگانے لگ گیا ۔

محافظ نے یہ سنا تو اس نے اسٹور سے باہر نکل کر بھاگنا شروع کر دیا ۔ سلام اس کے پیچھے دوڑ رہا تھا۔ عذرا کو کچھ پتہ نہیں تھا کہ سلام کیوں ایک گاہک کا تعاقب کر رہا تھا۔ اس نے پریشانی اور تجسّس کے عالم میں سلام کو پکارتے ہوۓ اس کا پیچھا شروع کر دیا۔ تھوڑی ہی دور اسٹرابیری کا کھیت تھا ۔ محافظ اس کھیت میں گھس گیا ۔ وہ نشے کی حالت میں تھا اس لئے تیز نہیں بھاگ سکتا تھا ۔ اس کو ٹھوکر لگی اور وہ منہ کے بل اسٹرابیری کے پودوں پر گر گیا ۔ سلام نے قریبی درخت کے پاس پڑا ہوا بیلچہ اٹھا لیا تھا۔ جب محافظ نے سر اٹھایا تو اس کے سامنے سلام بیلچہ لئے ہوئے کھڑا تھا اور قہقہے لگا رہا تھا ۔
’دیکھو! بچّے نے اسٹرابیری کھا کر منہ لال کر لیا ہے۔‘

Advertisements
julia rana solicitors

سلام نے سوچا کہ محافظ کو یوں ہی چھوڑ کر واپس چلا جائے ۔ لیکن پھر اسے عذراکے ساتھ ہونے والے جنسی تشدّد کا خیال آیا ۔ سلام نے پوری قوّت کے ساتھ بیلچے سے محافظ کی گردن پر وار کرناچاہا لیکن عذرا کی اونچی آواز پراس کے ہاتھوں نے ساتھ دینے سے انکار کر دیا۔ اس نے محافظ کی طرف دیکھے بغیر اسٹور کی سمت تیز تیز چلنا شروع کر دیا ۔ عذرا سلام کے ساتھ چل رہی تھی اور ماجرہ جاننا چاہتی تھی ۔ لیکن سلام نے جواب نہیں دیا بلکہ وہ عذرا کے سوالات کو سن ہی نہیں رہا تھا ۔ وہ ہانپتا کانپتا واپس اسٹور پہنچا تو پھر اسے اسٹرابیری کے ڈبّے نظر آۓ۔ اس کا پورا جسم کانپ اٹھا۔
’مجھے یہاں سے دور لے جاؤ ورنہ میں اسٹرابیری کھا کر بچّوں کی طرح منہ لال کر لیتا ہوں ۔‘ یہ کہہ کر سلام قہقہے لگانے لگ گیا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply