پا مردی سے کھڑی ہوئی سرکش آبادی اک شطرنج کے مہرے سی پھر ڈٹی ر ہی باغی فوجوں کے رستے میں دیوار اٹھا کر پھر دو طرفہ پسپا ئی میں یہ آبادی (سخت جاں، سرکش آبادی) اس مڈ بھیڑ میں← مزید پڑھیے
1-حیوان ِ ناطق اچھا، طوطے ، یہ کہو یہ لوگ اکثر جھوٹ ہی کیوں بولتے ہیں؟ جھوٹ تو بولیں گے ۔۔۔ مولا نے زباں جو دی ہے ان کو دیکھ، مَینا جانور سچےہیں کیونکہ بے زباں ہیں! ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 2-نسل کش← مزید پڑھیے
میر جملہ ہیں جناب ، آپ ولی نعمت ہیں اور میں آپ کی بندہ ہوں، رعایا ہوں ، فقط باج گذار آپ کے خیل و حشم میں ہوں ، مرے ان داتا دیکھیے میری طرف ، عالی جاہ (جیسا کہ← مزید پڑھیے
پارچہ الوان، ست رنگا، چمکتا بھیگتے رنگوں کی ململ دھوپ اور برسات کا جیسے ملن ہو کھٹا میٹھا، آسمانی، سبز، نیلا، زرد، اُودا پارچہ رنگین، بو قلمون، روشن پارچہ جذبات کے سب رنگ اپنے دل کی دھڑکن میں سمیٹے، شاعرِ← مزید پڑھیے
سمندر نے کروٹ بدل کر کہا: کن گمانوں کی لہروں پہ چلتے،مچلتے ہوئے جارہے تھے یہاں میرے قدموں میں گرنے سے پہلے! نمک چکھ لیا تم نے میرے بدن کا تو کہنے لگے ہو: ’’نہیں ، میں نے ایسا تو← مزید پڑھیے
ہندوستان کے آخری بادشاہ بہادر شاہ ظفر کو میکلین میکنزی بحری جہاز میں بٹھا دیا گیا۔ پینتیس مرد اور خواتین بھی تاجدار ہند کے ساتھ تھے۔یہ جہاز ۱۷ اکتوبر ۱۸۵۸ کورنگون پہنچا۔ کیپٹن نیلسن ڈیوس رنگون کا انچارج تھا۔ وہ← مزید پڑھیے
میری ستیہ پال آنند جی سے اس وقت ملاقات ہوئی، جب وہ کتھا چار جنموں کی لکھ چکے تھے اور یہ کتاب اشاعت کے مرحلے میں تھی۔ اس حساب سے میں ان سے ان کے پانچویں جنم میں ملی اور← مزید پڑھیے
۰قرب کعبہ چہ حظ ؟ ؎ دگر ز ایمنیٗ راہ و قرب کعبہ چہ حظ ؟ مرا کہ ناقہ ز رفتار ماند و پا خفتست ۔ غالب رات بھر برف گرتی رہی ہر طرف میں کہ بیمار تھا بار بستر← مزید پڑھیے
(میری اپنی جیون کتھا ۔ خود نوشت ) کوکھ میں تھا جب میں سُنتا تھا اپنے دل کی دھڑکن ماں کے خون کی گردش کی موسیقی جیسے بانس کے جنگل میں اُڑتی آوازیں سُر سنگیت ۔۔۔ ہوا کے سانسوں کی← مزید پڑھیے
ہندوؤں کی قدیم ترین مقدس کتابوں میں جہاں وید اور شاستر ہیں، جنہیں الہامی کتابیں تسلیم کیا گیا ہے، وہاں پُران بھی ہیں۔ پُران رِشیوں کی تصنیف کردہ من گھڑنت کہانیاں ہیں، جو انہوں نے لوگوں کے جیون سُدھار کے← مزید پڑھیے
(1) ختم ہونا شام کا اک مرحلہ ہے رات کی اندھی چڑیلیں چیختی ہیں آسماں کی گیلی رسّی سےبندھے بے بس اندھیرے کالی قربانی کے بکروں کی طرح گردن بریدہ نزع کے عالم میں گرتے، ہانپتے ہیں ختم ہونا آج← مزید پڑھیے
(چار حصّوں میں ایک نظم کہانی) (۱) تم بہت بے صبر ہو، واقف نہیں ہو ضابطوں سے زندگی کو چائے کے چمچوں میں بھر بھرکر تحمل، قاعدے سے لمحہ ، لمحہ ، مختصر وقفوں سے جینا ضابطہ ہے تم نہیں← مزید پڑھیے
ایکلویہ مہا بھارت کا ایک اچھوت کردار ہے۔اُسے پانڈووں کے راج گرو درون آچارؔیہ نے اچھوت ہونے کی وجہ سے شکھشا دینے سے انکار کیا ، کہا کہ وہ تو صرف شہزادوں کو تیر اندازی کی تربیت دے سکتے ہیں۔← مزید پڑھیے
CUT لینز* پہ کچھ منظر تیزی سے ابھر رہے ہیں پہلا منظر بیل ہانکتے بل کے پھل پر پاؤں رکھے اس دہقان کا ہے، جو اپنا کھیت جوت کر فصل اُگانے کی امید میں خون پسینہ ایک کرتا ہے دوسرا← مزید پڑھیے
الفاظ ۔ ایک استغاثہ رن آن سطور میں لکھی گئی ایک نظم مستغیث ایک میں الفاظ کا بخیہ گر ہوں، مجھے اچھا لگتا ہے حرف و سخن کا توازن مقفیٰ، مسّجع، وہ الفاظ جن سے ترنم کی چشمک ، تغزل← مزید پڑھیے
شہنشاہ اسوهء حسنہ۔۔ آپ بندہ ستیہ پال آنند۔۔ غیر مسلم ضرور ہے لیکن۔۔ یہ اجازت تو دیں مجهے سرکار۔۔ دهیان میں گم زمیں کو بوسہ دوں۔۔ اور باقی کی عمر اے آقا۔۔ یوں ہی ٹھہرا رہوں جهکائے ہوئے۔۔ در ِشاہِ ← مزید پڑھیے
بیاض ِ عمر (یہ نثر نُما نظم باقاعدگی سے بحر ہزج مثمن سالم یعنی ’مفاعیلن، مفاعیلن‘ کی تکرار میں تقطیع کی جا سکتی ہے) بیاضِ عمر کھولی ہے! عجب منظر دکھاتے ہیں یہ صفحے جن پہ برسوں سے ، دھنک← مزید پڑھیے
(گزشتہ قسط میں ہم نے وزیر آغا مرحوم کے گھر میں ہوئی اس بات چیت کا ذکر کیا تھا جو راقم الحروف اور ان کے ما بین دیر رات گئے تک ہوتی رہی تھی اور جس میں ہم دونوں نے← مزید پڑھیے
سلسلہ۔۔۔ وزیر آغا (مرحوم) سے بات چیت کا اور ان کے خطوط کا … دسمبر ۱۹۹۹ ۔۔ لاہور میں ڈاکٹر وزیر آغا کے دولت کدے پر میرا یہ تیسرا دن تھا۔ گذشتہ رات ہم دونوں تقابلی مذہب کے بکھیڑوں میں← مزید پڑھیے
ایڈیٹر نوٹ:یہ اب تک کے غیر مطبوعہ خطوط ہیں جو ڈاکٹر صاحب کی مکالمہ سے محبت کی وجہ سے پہلی بار مکالمہ کے پلیٹ فارم سے پبلش کئے جارہے ہیں ۔ہم ڈاکٹر صاحب کے تہہ دل سے شکر گزار ہیں← مزید پڑھیے