میں اس پہ گھر بنا دوں گا۔۔۔رابعہ الرَبّاء

تم جا کے بیٹھو تو سہی
میں اوپر گھر بنا دوں گا
تمہارے سفید کمرے میں ٹیولپ روز لگا دوں گا
لان آنگن میں جھمکہ بیل اور رات کی رانی
کسی درخت کی شاخ پہ اک جھولا بھی لگوا دوں گا
بر آمدے میں دو آرام کرسیاں اور اک میز
میز پہ رکھے چائے کے دو کپ
کیتلی سے اٹھتی گرم سی بھاپ
نومبر کی خنک ہوا کے جھونکے
جب وقت دو مو سموں کے ملاپ کے گیت گاتا ہے
راتوں میں اداس سا سناٹا ہو جاتا ہے
نیم شب
جب کچھ خواب سونے نہیں دیتے
آنسو پتھر کے مرد کو رونے نہیں دیتے
تم اپنے پانی سے پتھر توڑ دینا سب
جیسے پتھروں سے چشمے پھوٹ پڑتے ہیں
اور
دوردور تک ان آنسوؤں سے زمین سراب ہوتی ہے
کچھ چرند پرند پیاس بجھاتے ہیں
کچھ انسان بھی شانت ہو جاتے ہیں
کچھ اس کی آواز سے ہی
خوف کے مارے
واپس لوٹ جاتے ہیں
کہ
چشمے سب کے لئے نہیں ہوتے
کچھ نغمے وقت کے لئےنہیں ہوتے
پر
تم جا کے بیٹھ جانا
میں تم پہ گھر بنا دوں
سفید کمرا میرا ہو گا
ٹیولپ روز تم رکھ لینا
کچھ چیزیں بانٹ لیں گے یوں
جیسے فطرت بانٹ لیتی ہے
کوئی  بادل بن جاتا ہے
کوئی  بارش  کو باہوں میں بھر لیتا ہے
کچھ قطرے پھل بن جاتے ہیں
کچھ پل گزر بھی جاتے ہیں
بس یوں بانٹ کر ہم باقی سانس بتا دیں
تو
کچھ دکھ تم رکھ لینا
کچھ درد ہم اپنا لیں
تو
یوں وقت گزر بھی سکتا تھا
چلو اب واپس آتے ہیں
خواب تو خواب ہی ہوتے ہیں
خواب تو خواب ہی ہوتے ہیں
رات کے سنگ سو جاتے ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply