نصف صدی کا قصہ۔۔۔رابعہ الرّ باء

قصہ سا ہوں کوئی  نصف صدی کا میں
چاندنی جب بالوں میں جگمگاتی ہے
آنکھ تاروں کے گرد جب بادل آ سے جاتے ہیں
حادثے اپنا مفہوم بدل لیتے ہیں جب
سانحے نیا لبادہ اوڑھ لیتے ہیں
پل پل جب دو پل ہو جاتا ہے
ہواؤں کا رخ بد ل سا جاتا ہے
منزلیں رستہ موڑ لیتی ہیں
آرزوئیں خود کو آزاد چھوڑ دیتی ہیں
ہاتھوں کی لکریں مٹ سی جاتی ہیں
پیروں پہ لکیریں سفر کی آتی ہیں
ہونٹوں پہ جب دعائیں خیر عالم رقص کر تی ہے
سوچوں کی پٹڑی پہ اک نئی  مال گاڑی دھیرے سے جو چلتی ہے
پتا تب یہ چلتا ہے
قصہ ہوں میں ایک نصف صدی کا سا
چہرے پہ، گردن پہ ،جب نئی کہانی لکھی جاتی ہے
دنیا داری جب بچکانہ مسکراتی ہے
زمین کی حقیقت کھل سی جاتی ہے
موت سے بھی آشنائی  کا درد سانس لے لیتا ہے
نئی  زندگی نئے رنگ میں ابھر کے آتی ہے
اک نئی  سی سرشاری امنگ کی صورت
کسی نئے اجنبی کو پہچان سی لیتی ہے
لب گلنار ہو سے جاتے
بوجھ کاندھوں سے اتر بھی جاتے ہیں
پتا تب یہ چلتا ہے
قصہ ہوں میں اک نصف صدی کا سا
اس صدی کے پار
اس صدی سے پہلے
کچھ نیا نہیں ہوتا
نئے مسافر کے سب سفر پرانے ہوتے ہیں
درد آشنا دل کے درد شریں بن جب جاتے ہیں
تب ہی ہم سمجھ یہ پاتے ہیں
قصہ ہوں میں اک نصف صدی کا سا
جو صدی تیری نہ میری تھی
جو صدی تیری نہ میری ہے!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply