سپین کی شاعری کا اسم اعظم گارسیالورکا۔۔۔۔علی تنہا

گارسیالورکا، سپین کی شاعری کا ہی اسم اعظم نہیں بل کہ دنیا بھر میں اس کی تکریم غیر معمولی شاعرانہ استعداد کی وجہ سے کی جاتی ہے۔ گارسیالورکا محض ۳۸ برس کی عمر میں جنرل فرانکو کے ڈکٹیٹر شپ کے عہد میں مارا گیا۔ اس کا جرم یہ تھا کہ اس نے سپین کی خانہ جنگی کے زمانے میں حریت فکر کا پرچم سرنگوں نہ ہونے دیا اور جواں مرگ ہو کر ۱۹۳۶ء میں پوری دنیا کو آمریت سے نفرت کا سبق دیا۔
لورکا ایک متمول گھرانے میں سپین کے مضافات میں ۱۸۹۸ء کو پیدا ہوا تھا۔ اس کی شاعری نے سپین کی زبان اور محاورے کا منہاج ہی بدل کے رکھ دیا اور شاعری کے پرانے، فرسودہ اور گھسے پٹے انداز کو تبدیل ہی نہیں کیا بل کہ جڑ سے اکھاڑ کے رکھ دیا۔ یہی نہیں لورکا نے ڈراموں کی دنیا میں بھی انقلاب برپا کیا۔ اس کے ڈراموں میں انسان کی روح اور معاشرے کی اصل حقیقت، ایک تخلیقی قوت کی صورت میں سامنے آئی۔ وہ انسانی تقدیر، قدروں کی شکست، جنسیت اور موت، جیسے بے شمار موضوعات کو بالکل جداگانہ فراست کے ساتھ بیان پر قادر تھا۔ اس نے عیسوی دنیا کے بارے میں بھی زبردست تنقید کی ہے اور کیتھولک چرچ کی مختلف بہیمانہ صورتوں کو بے نقاب کیا ہے۔
لورکا کہتا تھا کہ پندرھویں صدی میں مسلمانوں کے شان دار ثقافتی اور تہذیبی ورثے کو چرچ نے جس صورت میں برباد کیا، وہ سپین کی روح پر ایک خطرناک وار تھا۔ جس سے سپین کی تہذیبی زندگی انحطاط پذیر ہوئی۔ جس کا دُکھ اس کی نظموں میں سریلسٹ تکنیک میں ظاہر ہوا۔ ہرچند لورکا، ترقی پسند نظریات کا مالک بے باک شخص تھا، وہ مذاہب سے برگشتہ تھا اور آرٹ کی بے پایاں تاثیر پر یقین رکھتا تھا۔ سپین میں مسلمانوں کے شان دار ماضی کے بعد، ایک تاریک دور کا آغاز ہوا اور باالخصوص آزادی نسواں کو سلب کر دیا گیا۔ لوگوں کو بربریت اور مذہبی تنگ نظری کا اسیر ہونا پڑا۔ اس کا انتہائی گہرا اثر پڑا اور سماج میں فکری انجماد تباہی کے دہانے پر پہنچ گیا۔
فیڈرکوگارسیالورکا، کی نفسیات پر لڑکپن ہی میں، اس کے اثرات مرتسم ہونا شروع ہوئے، اگرچہ طبعاً و ہ آزاد منش اور باغی روح لے کر پیدا ہو ا تھا۔ مگر لورکا نے کہا ہے کہ اس نے اپنی ماں جو مدرس تھی، اس سے انتہائی اثر قبول کیا۔ اس کی ماں ایک ذہین خاتون تھی اور لورکا کے طبعی، ادبی رجحان سے واقف تھی۔
اس کا خاندان ۱۹۰۹ء میں سپین کے شہر گرینڈا منتقل ہوا، جہاں لورکا نے تعلیم حاصل کی۔ پھر میڈرڈ میں قانون کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد اس کی ملاقات نام ور مصور سلویڈرڈالی سے ہوئی۔ ڈالی اور لورکا کی رفاقت نے پینٹنگ اور ادب کے باب میں بے شمار مباحث کو جنم دیا۔ ڈالی نے لورکا کے حسن تکلم، شائستگی اور خوب روئی کا بار بار اظہار کیا۔ لیکن ان کی رفاقت ۱۹۲۹ء میں اس وقت اختتام پذیر ہوئی جب لورکا نے سپین کو الوداع کہا اور امریکا چلا گیا۔
اسی دوران، اس کی شخصیت میں فکری تلاطم جنم لے رہا تھا۔ اپنی زمین سے ہجرت، رفاقتوں سے محرومی، جنسی ناآسودگی، تنہائی، موت کا خوف، ان سب عوامل نے لورکا کو ہلا کر رکھ دیا، مگر اس کی تخلیقی اپج نے علامات کا ایک نیا جہان اپنی مشہور عالم شعری کتاب Gypsy Ballads کے ذریعے ہویدا کیا۔ اس شعری کتاب نے اسے بے کنار عالمی شہرت دی۔
یہ نظمیں انسانی رشتوں کو جس شاعرانہ اسالیب میں ڈھالتی ہیں، اس کے لیے لورکا نے شعر میں اتنا ارتکاز پیدا کیا کہ لفظوں نے عمومی مطالب سے بغاوت کی اور انسانی تجربے کا ایسا پینو راما پیش کیا، جس میں بیسویں صدی کی ایک نئی بوطیقا سامنے آئی۔گویا لورکا نے خارجی اشیا کو باطن کے آئینے میں ہمہ جہت کر دیا۔
لورکا نے امریکا آ کر کولمبیا میں اپنی دوسری عالمگیر شعری کتاب Poet in New York تخلیق کی۔ یہ نظمیں موضوع، اسلوب اور تکنیک کے نقطۂ نظر سے اس درجہ ترفع کی حامل ہیں ۔ یہ اپنے مواد کے نرالے پن اور لحن کے باغیانہ آفاق کی وجہ سے خود لورکا کے لیے حیرت کا باعث تھیں۔ کیوں کہ بعض اوقات فن کار اپنے آرٹ کی گمبھیرتا کی اولین آواز سے گھبرا بھی جاتا ہے۔ اس لیے کہ لفظ کے معینہ راستوں سے ہٹنے کی جرأت کوئی معمولی بات نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ لورکا نے اپنی مختصر زندگی کے دوران میں کتاب شائع کرنے سے گریز کیا۔ ان نظموں کا سحر امیجری اور علامتوں کا پراسرار نظام، آج تک نئی شاعری کی عظمت کا شارح ہے۔
انجام کار لورکا دوبارہ سپین لوٹ آیا اور ۱۹۳۰ء میں ڈراما نگاری کی طرف ہمہ تن سرگرم ہو رہا۔ یہ دور، فی الواقع، لورکا کی خلاقانہ فراوانی کا ہے، پھر سب سے بڑھ کر یہ کہ سپین کی حکومت نے، اس کی قدر منزلت کی اور وہ ڈرامے کی ترویج کے لیے La-Barraca کا ڈائریکٹر بنایا گیا۔ یہ گشتی ڈرامے پیش کرنے کا ادارہ ٹھہرا۔ اس دور میں اس نے اپنا شہرہ آفاق ڈراما Blood Wedding لکھا۔ جس کی شہرت سے پورا مغرب گونج اٹھا۔ یہ زبردست منظوم ڈراما تھا۔ اس کے بعد اس کا دوسرا قابل رشک ڈراما سامنے آیا۔ جس کا نام Yerma تھا۔ میڈرڈ میں، اس ڈرامے کی مقبولیت نے لورکا کو ذہنی آسودگی دی۔
۱۹۳۶ء میں اس کا ناقابل فراموش ڈراما The House of Bernadaialba منظر عام پر آیا۔ یہ ڈرامے سپین کی ادبی تاریخ میں امر ہیں اور دنیا کی تمام بڑی زبانوں میں اس کے تراجم ہوئے اور عالم گیر شہرت پائی۔
کہا جاتا ہے کہ ۱۹۳۰ء سے اس کے قتل تک، لورکا، نے ڈرامے کی صنف اور سپینی زبان کو ایک نئی قوت ایجاد سے آباد کیا۔ مگر اس دوران میں وہ، شاعری پر پوری توجہ نہ دے سکا۔ کیوں کہ، اس کے ذہن پر ڈرامے کا بھوت سوار تھا۔ البتہ اس دور میں لورکا نے اپنی طویل نظم “Lament for the death of bull fighter” ضرور لکھی ۔ یہ عظیم الشان نظم اس کی موت کے بعد شائع ہوئی۔ اور تو اور لورکا کی کتابوں پر فرانکو کے ڈکٹیٹر شپ کے عہد میں چالیس برس تک پابندی رہی۔ مگر اس کے باوجود دنیا بھر میں لورکا کی کتب کے تراجم ہوئے۔ اور سپین میں زبردست قدغن کے باوجود لورکا، کی کتابیں مختلف ادارے چوری چھپے شائع کرتے رہے۔ اس کی شاعری کا لسانی شیوہ، لفظ کے عمومی دائرے سے نکل کر، اظہار کا لامحدود منطقہ وضع کرتا ہے۔ اس کے شاعرانہ اصوات میں جو طلسم ہے وہ ہمارے اندر وہی تجربہ اور امکانات پیدا کرتا ہے جس سے لورکا گزرا، مگر اس کی ہزار ہا پرتیں ہیں۔ لورکا کی کئی نظموں کے تراجم اردو میں بھی ہوئے۔ لورکا کی نظموں میں غنائیت کے اندر سے المیہ پھوٹتا ہے۔ اس کے مصروں کی بافت میں صوت و آہنگ کی فراوانی ہے اس لیے کہ اس نے ابتداً موسیقی سیکھی۔ فی الواقع لڑکپن میں وہ موسیقار بننا چاہتا تھا۔
۱۹۲۶ء میں جب لورکا نے اپنی مشہور تخلیق The shoe maker’s prodigious wife مکمل کی تو اسے پہلی بار، ادبی حلقوں نے اس لیے بھی سراہا کہ وہ سپاٹ نظموں کی حدود توڑ کر ایک نیا شعری وژن لانے میں کام ران ہوا تھا جس کی مثال ہسپانوی زبان میں نہ تھی۔
گارسیا لورکا، نے اپنے ڈراموں اور نظموں میں کھلے حواس کے ساتھ، زندگی کی بدلتی صورت حال کا ادعا کیا ہے۔کیوں کہ اس نے مروجہ لغاتی معانی کی جبریت سے شاعری کو نکال کر خالص سونا بنایا۔ پھر اس کا کمال یہ ہے کہ اس نے اکہرے شعری امکانات کو کلیتاً رد کیا اور انسانی تجربے کو ایک ہمہ گیر صداقت میں بدل دیا۔
لورکا کی نظموں کا ایک مرکزی اشارہ جنسی ناآسودگی اورا مردپرستی بھی رہا۔ وہ ایک غیر معمولی شاعر تھا۔ اس لیے اس نے شجر ممنوعہ کو، سپین کی شعری تاریخ میں پہلی بار، سب پر واشگاف کیا۔ اس نے اپنے شعری قالب میں تجربے کے بے پناہ حجم کی وجہ سے انسانی رشتوں کی نئی توجیح کی ہے۔ اس کے لیے اس کی یہ نظمیں یادگار رہیں۔
1. The Gypsy and the wind.
2. Ditty of the first desire.
3. Sonnet of the sweet complain.
4. The faithless wife.
5. The bulterfly’s, evil trick
لورکا کی موت کو اب ستر برس سے زائد کا عرصہ بیت چکا ہے۔ مگر دنیا بھر کے اہل قلم اس جواں مرگ شاعر کے لیے اس لیے اب بھی آنسو بہاتے ہیں کہ جنرل فرانکو کی فاشسٹ حکومت نے بے شمار فن کاروں کے ساتھ، اسے اپنے آبائی شہر ترینڈا میں قتل کر کے اجتماعی قبر میں دفنا دیا۔ سپین کے عوام، آرٹسٹوں اور ترقی پسند حلقوں نے اب بھی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ انہیں لورکا کا مقام قتل بتایا جائے تاکہ اس عظیم شاعر کی یادگار بنا سکیں جس نے ہسپانوی ادب کو عالم گیر شہرت دی اور خود بے دردی سے قتل ہوا۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply