کشمیر, تحریک آزادی اور سیب۔ ۔ ۔بلال شوکت آزاد

خبر اور تصاویر گردش میں ہیں کہ مقبوضہ کشمیر کے شہر کٹھوعہ میں بھارتی ریاستی جبر کیخلاف کشمیریوں نے سیبوں پر نعرے لکھ کر بھارت بھیج دیے۔

تفصیلات کچھ یہ ہیں کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی ظلم و جبر، مہینوں پر محیط جاری لاک ڈاؤن اور مکمل تاریکی کے ماحول میں مظلوم کشمیریوں نے مزاحمت کے اظہار کا نیا راستہ اختیار کرتے ہوئے سیبوں پر بھارت مخالف اور پاکستان کے حق میں نعرے لکھ کر بھارت بھیج دیئے۔

وقوعہ کے مطابق تاجروں کو حالیہ موصول ہونیوالے سیبوں پر جو نعرے لکھے گئے تھے ان میں

“ہم کیا چاہتے آزادی”،

“میری جان عمران خان”،

“پاکستان زندہ باد”،

“میں برہان وانی سے محبت کرتا ہوں”،

“موسیٰ واپس آجاؤ شامل ہیں”،

“جس نے ہلچل مچا دی ہے”۔

ایک مقامی تاجر کے مطابق جب وہ صبح فروٹ منڈی گئے اور وہاں سے سیب لے کر آئے اور لڑکوں کو دکان پر سیب لگانے کو کہا تو جب انہوں نے سیبوں کے کریٹ کھولے تو ان پر نعرے لکھے ہوئے تھے، جس کی وجہ سے فروٹ منڈی اور پورے بازار میں دہشت اور خوف کا ماحول بنا ہوا ہے، جس سے خریداروں کا رش کم ہو گیا ہے۔

یہ تو تھی خبر اور اس کی تفصیل جس کو ہم نے من حیث القوم بلکل لائٹ موڈ پر لیا جیسے ستر سالوں سے ہم کشمیر کو لائٹ موڈ پر لے رہے ہیں پر صاحبان ذرا تصور کیجیئے کہ آپ کا مکمل سماجی, سیاسی اور سفارتی ناطقہ بند ہو اور آپ کو اپنی آواز دنیا کی سماعتوں تک پہنچانی ہو تو کیسے کیسے جتن کرنے پڑتے ہیں اور کتنی بے بسی اور معذوری دیکھنی پڑتی ہے۔

کشمیری ہمارے بغیر ایک شاندار زندگی کے مزے لینا چاہیں تو ان کے لیئے یہ بات چنداں مشکل نہیں کہ وہ بھارت کو بخوشی تسلیم کرکے اس کا حصہ بن جائیں اور خصوصی مراعات سے کم از کم ان کی ایک سے دو نسلیں دنیا میں فیضیاب ہوجائیں پر ایسا نہ تو ہوا ہے اور نہ ہورہا ہے باوجود بھارت اور اسکے تمام دیدہ و نادیدہ ہمنواؤں کی محنت سے۔ ۔ ۔

کیوں؟

کیونکہ اسلام اور پاکستان کے رشتے سے وہ خود کو کشمیری بعد میں جبکہ مسلمان اور پاکستانی پہلے تسلیم کرتے, کرواتے اور کہلواتے ہیں۔

کشمیری پاکستان کے نام پر جیتے اور پاکستان کے نام پر مرتے ہیں,

ان کے کفن سبز ہلالی پرچم میں ڈھکے جاتے ہیں اور ان کی قبروں پر وہی پرچم لہرائے جاتے ہیں,

ان کی عید شبرات رمضان نیا سال سب ہمارے فیصلوں اور اعلانات سے مشروط ہے,

ان کی ہر نظر پاکستان کی معاشی, اقتصادی, دفاعی اور سفارتی اڑان پر ہے,

ان کے لبوں پر آزادی کے نعرے اور دعائیں بعد میں لیکن پاکستان کے استحکام اور اس کی مضبوطی کے نعرے اور دعائیں اول ہیں,

کشمیری ہماری خوشیوں میں خوش اور ہمارے غموں میں غمگین ہوتے ہیں,

جتنا پاکستان ہمارا ہے اتنا ہی پاکستان کشمیریوں کا ہے جو اس کا اظہار جموں و کشمیر کی گلی گلی میں اپنے لہو کی قربانی دے کر کرتے ہیں۔

کتنا دل دکھا اور آپ پژمردہ ہوئے اس خبر کو پڑھ سن کر کہ کشمیری اپنی بے بسی کے باوجود ہم سے محبت, بھائی چارے, امید, یقین اور یکجہتی کا اظہار کے لیئے سیبوں کا استعمال کررہے اور دنیا کو واضح پیغام دے رہے کہ کشمیر کل بھی پاکستان تھا, آج بھی پاکستان ہے اور کل بھی پاکستان ہی رہے گا ان شاء ﷲ بیشک ہندو غاصب فوج جتنا مرضی دبالے اور منہ بند کردے۔

سیبوں پر لکھے نعرے اور محبت نامے تو بھارت اور دنیا کو بتانے اور سنانے کے لیئے تھے کہ بھارت اور دنیا جان لے کہ

“کسی غلط فہمی میں مت پڑنا ہم مرتے دم تک پاکستان اور آزادی کی کوہار بلند کرتے رہیں گے”۔

جبکہ سیب۔ ۔ ۔

مجسم سیب کشمیریوں کا پاکستان اور امت مسلمہ کے پڑھے لکھے, انٹلیکچوئیل اور ٹیلنٹڈ نوجوانوں بالخصوص ہم سوشل میڈیا ایکٹیوسٹس کو واضح اور صاف صاف پیغام ہے کہ

“بھائیو ہم تو اپنے حصے کی محنت اور مشقت کر رہے ہیں, ہم تو ایسی سخت صورتحال میں بھی اپنی آواز بلند کررہے ہیں خواہ ایپل (سیب) کا آئی فون نہیں ہاتھ میں پر اللہ کی نعمت سیب (ایپل) کو اپنا ذریعہ مواصلات بنا کر آزادی آزادی, پاکستان پاکستان اور عمران عمران کررہے ہیں تاکہ دنیا جان لے کہ ہمارے مقصد میں ایک انچ بھی کمی واقع نہیں ہوئی بلکہ ہم پہلے سے زیادہ پر عزم اور پرجوش ہیں۔

دوستو تمہارے لیئے تو ہماری آواز بننا اور دنیا کو جگانا مشکل نہیں کہ تمہارے پاس آزادی اور ایپل آئی فونز وغیرہ ہیں کہ ہم تو سیبوں تک محدود ہوکر بھی بھارت اور دنیا کو حریت کی آواز سنا رہے اور بھارتیوں کا سینہ جلا رہے اور ان کو خوف ذدہ کررہے ہیں تو تم بھی مایوس مت ہونا اور ہمیں بھولنا مت کہ ہم تو ہاتھ, منہ, کان اور زبان بندی کے باوجود تمہیں نہیں بھولے اور ہمارا یہ نعرہ سر بلند ہے کہ ہم کیا چاہتے آزادی اور پاکستان زندہ آباد لہذا اپنے اپنے ہاتھوں میں موجود ایپلز کا وہی استعمال کرو جو ہم یہاں اپنے باغات کے ایپلز کا کررہے۔”

واللہ مجھے تو سیبوں پر لکھے نعرے پڑھ کر کشمیریوں کی اس ادا پر پیار اور ترس آیا لیکن سیب دیکھ کو شرمندگی ہوئی کہ دیکھو وہ بیچارے کس طرح ہماری خاطر کیسے کیسے حربے اختیار کررہے اور ہم یہاں اپنی سیاسی و مسلکی اور عصبی بحثوں میں الجھ کر انہیں فراموش کیے  جارہے ہیں۔

کشمیر کے سیب پاکستانی نوجوانوں کو سیکھ اور سبق دے رہے وہ بالکل واضح ہے کہ حق اور حریت کی آواز بلند کرنی ہو تو وسائل کوئی مسئلہ نہیں جن کا رونا رویا جائے بلکہ حق اور حریت تو سیبوں کے ذریعے بھی بیان کیے جاسکتے ہیں۔

صاحبان کشمیری حریت پسند پاکستانیوں نے تو اپنے باغات کے سیبوں (ایپلز) کا استعمال کرلیا اور دنیا کو پیغام دے دیا, اب ہمارے باری ہے کہ ہم اپنے ہاتھوں میں موجود ایپلز (سیب) کا جارحانہ استعمال کریں کشمیریوں کی آواز بننے کے لیے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

یاد رہے کہ ستر سالوں کی کسک ہے یہ کوئی دو چار مہینےکی بات نہیں, کشمیری پاکستان کے نام پر جیتے ہیں اور پاکستان کے نام پر مرتے ہیں, وہ سبز ہلالی پرچم کی حرمت ہم سے زیادہ جانتے ہیں تو اے پاکستانیوں اب تم بھی ان کے خون کی حرمت سمجھو اور خدارا تیرے میرے کی سیاست سے نکل کر کشمیریوں کی آواز بنو۔

Facebook Comments

بلال شوکت آزاد
بلال شوکت آزاد نام ہے۔ آزاد تخلص اور آزادیات قلمی عنوان ہے۔ شاعری, نثر, مزاحیات, تحقیق, کالم نگاری اور بلاگنگ کی اصناف پر عبور حاصل ہے ۔ ایک فوجی, تعلیمی اور سلجھے ہوئے خاندان سے تعلق ہے۔ مطالعہ کتب اور دوست بنانے کا شوق ہے۔ سیاحت سے بہت شغف ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply