نیلمانہ(قسط3)۔۔ادریس آزاد

شاؤزان یکایک خوش ہوگیا۔

’’ارے کیوں نہیں؟ ایڈونچر اور وہ بھی تمہارے ساتھ؟ افف بہت مزہ آئیگا۔ بتاؤ! کہاں چلیں؟‘‘

’’وہ ہ ہ ہ ہ وہاں‘‘

ماریہ نے دور سے پہاڑ نما عمارت کی دیوہیکل کھڑکیوں کی طرف اشارہ کیا۔شاؤزان ٹھیک سے سمجھ نہ پایا۔ اس نے دوبارہ پوچھا۔

’’کہاں؟ ؟؟‘‘

’’یار! وہ دیکھونا۔ وہ وہاں وہ جو بڑی سی عمارت ہے۔ اس کی کھڑکیوں کے پاس‘‘

شاؤزان کو ابھی بھی سمجھ نہیں آرہی تھی۔ دراصل وہ سوچ ہی نہ سکتا تھا کہ نیلمانہ اُسے کسی دوردراز کے شہر میں یوں بے سازوسامانی کے عالم میں جانے کے لیے کہے گی۔ اس نے بے یقینی سے دہرایا،

’’تم آسمان کے دروازے کی بات کررہی ہو؟ وہ جہاں سے چلنے والے درخت نمودار ہوتے ہیں؟

ماریہ کو یاد آیا کہ ایک تتلی کی حیثیت سے وہ لوگ پروفیسر اور اس کی عمارت کو آسمانوں کا دروازہ کہا کرتے تھے۔ماریہ نے فوراً جواب دیا،

’’ہاں ہاں! وہیں‘‘

’’تم پاگل ہوگئی ہو نیلمانہ! کوئی تتلی آج تک وہاں نہ گئی ہوگی‘‘

’’کیوں نہ گئی ہوگی۔ تمہیں کیا پتہ؟ میں خود پہلے وہاں رہتی تھی۔ ہماری ساری فیملی، تم بھی اور نیلمانہ اور سومانہ اور مالیَم اور پالسینا، ہم سب پورے اسّی ہزاردن وہیں تو سوتےرہے ہیں۔ تمہیں پتہ ہے؟ وہاں ایک پروفیسر رہتے ہیں۔ وہ میرے بابا ہیں۔ وہ تتلیوں سے بہت پیار کرتے ہیں۔انہوں نے ہی ہمیں پیدا کیا ہے۔ یہ جو تمہارے پروں کا ڈیزائن ہے نا؟ یہ میں نے خود اپنے ہاتھوں سے ڈرائنگ کیا تھا۔ میں نے او رمیرے بابا نے ،ہم سب کا ڈیزائن بنایا تھا۔ پہلے کاغذ پر۔ پھر کمپیوٹر میں۔ پھرہم نے سمیارگس تتلیوں کے ڈی این اے میں تبدیلی کی تھی۔ ہم تمہاری عمریں لمبی کرنا چاہتے تھے۔میں یونیورسٹی میں پڑھتی تھی۔ میرا ایک دوست تھا راہیل۔ وہ لٹریچر کا سٹوڈینٹ تھا‘‘

ماریہ بولتی چلی جارہی تھی اور شاؤزان تھا کہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے اسے دیکھے چلا جارہاتھا۔ یہ لڑکی کیسی الٹی سیدھی باتیں کرنے لگ گئی ہے۔شاؤزان دل ہی دل میں بہت ڈر گیا۔ اس کی نیلمانہ صحت یاب نہیں ہوئی تھی۔ نیلمانہ کا دماغی توازن ٹھیک نہیں رہاتھا۔ وہ سوچ میں پڑگیا۔ کیا نیلمانہ کو موروان بابا کے پاس لے جایا جائے؟ موروان بابا جسے ماریہ نے بڈھے گجر کا نام دے رکھا تھا تتلیوں کا وید اور حکیم تھا۔ اس نے کسی خیال کے تحت ماریہ سے کہا،

’’تم یہی رُکو میں ابھی آتاہوں‘‘

وہ موروان بابا کے پاس جارہاتھا۔ شاؤزان ایک سادہ دل نوجوان تتلا تھا۔ اسے اپنی نیلمانہ کو دوبارہ ٹھیک ٹھاک دیکھنے کی تمنّا تھی۔ وہ ایک لمحہ بھی ضائع نہ کرنا چاہتاتھا۔ شاؤزان چلا گیا تو ماریہ دوبارہ اپنے بابا اور اپنی لیبارٹری کے بارے میں سوچنے لگی۔ معاً اُسے محسوس ہوا جیسے سامنے کسی پھول پر کوئی تتلا بیٹھا اُسے چھپ چھپ کر دیکھ رہاتھا۔ ماریہ تیزی سے گھومی تو اُسے لڑکا نظرآگیا۔ ماریہ اُسے پہچانتی تھی۔ یہ ’’ایسٹ ویسٹ فالیَن فائر‘‘ نسل کا ایک نہایت ہی خوبصورت تتلا تھا۔ ماریہ جب ماریہ ہوا کرتی تھی تو اُس کی پسندیدہ ترین تتلیوں میں ’’ایسٹ ویسٹ فالیَن فائر‘‘ شامل تھی۔ اس تتلے کو تو وہ انفرادی طور پر بھی پہچانتی تھی۔ اسے وہ پیار سے پرنس کہا کرتی تھی۔ ماریہ کو یاد آنے لگا، جب وہ باغیچے میں فقط ٹہلنے کےلیے آیا کرتی تو پرنس کو جگہ جگہ ڈھونڈتی پھرتی۔ پرنس اپنی نسل کی دیگر ’’ایسٹ ویسٹ فائر‘‘ تتلیوں سے کہیں زیادہ خوبصورت تھا۔ اس کے پروں پر برفانی جھیلوں جیسے پیٹرن تھےجولال لال دائروں میں کے درمیان دونوں پَروں پر دو آنکھوں کی طرح دکھائی دیتی تھے۔دونوں پروں کے کناروں پر فلوراسینٹ گرین کلر کے حاشیے تھے۔ماریہ پرنس کو پہچانتی تھی اس لیے اسے بے پناہ اپنائیت سے محسوس ہوئی۔ پرنس موتیے کے پھول پر بیٹھا ماریہ کی جانب ہی دیکھ رہاتھا۔ ماریہ کو پرنس سے نہ خوف آیا اور نہ ہی جھجک محسوس ہوئی۔ وہ اپنی جگہ سے اُڑی اور سیدھی پرنس کے پاس جاکر ہوا میں پھڑپھڑانے لگی۔

پرنس بری طرح بوکھلا گیا۔وہ جس لڑکی کو چھپ چھپ کر دیکھ رہاتھا، وہی خود اُڑ کر اس کے پاس آپہنچی تھی۔ ماریہ نے پرنس کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے نہایت اپنائیت سےکہا،

’’پرنس!‘‘

’’کک کیا؟ کون پرنس؟‘‘

پرنس نے دائیں بائیں دیکھا۔ اُسے لگا جیسے ماریہ کسی اور سے مخاطب تھی۔ لیکن ماریہ تو اسی سے مخاطب تھی۔ یہ نوجوان تتلا باغیچے کے ہرپھول اور ہرتتلی سے زیادہ حسین و جمیل تھا۔ شردھان کی ہر نوجوان تتلی پرنس پر جان چھڑکتی تھی ۔ لیکن وہ کبھی کسی کی طرف مائل نہ ہوتا تھا۔ نہ جانے کیوں، ماریہ کو ایک دن پہلے چیختا چلاتا دیکھ کر وہ بھی باقی تتلیوں کی طرح اس کی طرف متوجہ ہوا تھا اور پھر اُس کے بعد سے اب تک وہ ماریہ کو ہی ڈھونڈتا رہ گیا تھا۔ماریہ کے ’’پرنس‘‘ پکارنے پر وہ چونکا۔ اسےکچھ سمجھ نہ آئی کہ اِس حسین و جمیل نیلی تتلی نے اسے کیوں پرنس کہہ کر پکاراتھا۔ابھی وہ حیرت کے جھٹکے سے باہر ہی نہ آیا تھا کہ ماریہ نے دوبارہ کہا،

’’پرنس! تم نے مجھے پہچانا؟ میں ماریہ ہوں۔ یاد ہے میں کیسے تمہیں ڈھونڈتی پھرتی تھی باغیچے میں؟‘‘

اب تو پرنس کی حیرت دیکھنے والی تھی۔ جس لڑکی کو اس نے زندگی میں پسند کیا، وہ کیاکہہ رہی تھی؟ کیا یہ سچ تھا؟ کیا وہ اسے واقعی باغیچے میں ڈھونڈتی پھرتی تھی؟ لیکن کب؟ اُسے تو کچھ یاد نہیں آرہاتھا؟ اس نے بالآخر زبان کھولی،

’’مجھے ڈھونڈتی پھرتی تھیں؟ کب؟ مجھے تو کچھ یاد نہیں‘‘

’’ارے واہ! تمہیں یاد نہیں؟ ایک بار تمہارا بایاں پَر زخمی ہوگیا تھا اورتمہاری سُرخ کلر کی لائنیں خراب ہوگئی تھیں۔ میں نے تمہارا علاج کیا تھا۔ یاد نہیں ہے کیا؟ میں تمہیں اپنی لیبارٹری میں لے گئی تھی۔تمہارے پروں پر زخم ٹھیک کرنے والی دوائی لگائی تھی۔ تم نے کچھ دن ہماری لیبارٹری میں گزارے تھے۔ کیا تم سب کچھ بھول گئے ہوپرنس؟‘‘

قریب تھا کہ پرنس چکرا کر گرپڑتا۔ یہ سب تو سچ تھا۔ یہ سب تو اسے یاد تھا۔ ایک بار واقعی اس کا پر زخمی ہوگیا تھا اور وہ بے ہوش کر گرپڑاتھا۔ تب شاید کسی آسمانی مخلوق نے آکر اُس کا پر ٹھیک کردیا تھا۔ لیکن یہ نیلی تتلی ایسا کیوں کہہ رہی تھی؟ یہ ضرور جھوٹ بول رہی تھی۔ اس نے کسی قدر ناراض لہجے میں کہا،

’’اجنبی لڑکی! تم جھوٹ بول رہی ہو۔میں اُس آسمانی دروازے والی عظیم الشان عمارت میں چند نہیں، چند سال رہاتھا۔تم نے یہ بات کسی سے سن لی ہوگی اور مجھے حیران کرنے کے لیے بتارہی ہو‘‘

’’ارے نہیں نہیں! وہ میں ہی تھی۔ میں اس وقت انسان ہوتی تھی۔ میرا نام ماریہ تھا۔ میں نے ہی تمہارے پروں پر اُس لوشن کا لیپ کیا تھا جس سے ٹوٹے ہوئے پر دوبارہ مرمت ہوجاتے ہیں۔مجھے خود پتہ نہیں کہ میں انسان سے تتلی کیسے بن گئی ہوں۔ کل تم نے دیکھا میں کیسے رورہی تھی؟ اِسی لیے رو رہی تھی کہ میں اچانک انسان سے تتلی بن گئی ہوں۔ کل اُن پھولوں کے پیچھے تم ہی تھے نا؟ جو مجھے چھپ چھپ کر دیکھ رہے تھے؟ میں نے اس وقت تمہاری ایک جھلک دیکھ لی تھی۔لیکن اس وقت میں تمہیں پہچان نہ پائی تھی۔آج تمہیں میں نے پہچان لیا۔ تم تو میرے پرنس تھے۔حیرت ہے تمہیں میری محبت بھی یاد نہیں؟ میں روزباغیچے میں تمہیں دیکھنے کے لیے آیا کرتی تھی۔ تم اُڑ کر میرے ہاتھ پر بیٹھ جاتے تھے۔پھر تم تب تک بیٹھے رہتے تھے جب تک میں تمہیں موتیے کے اِن پھولوں پر دوبارہ خود نہ اُتار دیتی تھی۔ میں نے ہی تمہارا نام پرنس رکھا تھا‘‘

پرنس کی آنکھیں حیرت سے پھٹی ہوئی تھیں۔ وہ ٹکٹکی باندھے اس عجیب و غریب نیلی تتلی کو دیکھے جارہا تھا۔ ایسا کیسے ہوسکتاہے؟ اس کا ننھا سا ذہن اتنے عجیب وغریب معجزے کو سمجھنے سے قاصر تھا۔ لیکن اس کے دل کے کسی گوشے میں سے آواز آتی تھی کہ نیلی تتلی جھوٹ نہیں بول رہی۔ اسے واقعی یاد تھا کہ جس پہاڑ جیسے چلتے پھرتے پیڑ نے اسے اُسے اُٹھالیاتھا۔ اُسی نے اُس کا علاج بھی کیا تھا۔ یہ ساری باتیں اس نے موروان بابا کو بتائی تھیں۔ سب لوگ اس سے آسمانوں کے دروازے کی باتیں پوچھا کرتے تھے۔اُسے یاد تھا کہ وہ چلتاہوا پیڑ روز شردھان آتاتھا اور پرنس کو ڈھونڈتاتھا۔پرنس نے تجسس، حیرت اور خوف سے ایک جھرجھری لی تو اس کے رنگین اور خوشنما پر ہوا میں لہرائے۔

ماریہ اب ایک تتلی تھی اور نوجوان تتلی تھی۔ ایسے حسین تتلے کو دیکھ کر اس کے دل میں جوانی کے کسی ارمان نے جنم لیا۔ اپنی اس کیفیت پر وہ تلملا اُٹھی۔ اس کا دل نوجوان تتلے کی طرف کھنچتا چلاجارہاتھا۔پرنس کے دل میں بھی ماریہ کے لیے ایسے ہی جذبات مچل رہے تھے۔ معاً پرنس نے ہولے سے کہا،

’’میرا نام پرنس نہیں، فائینی ہے‘‘

’’فائینی؟ ارے واہ! یہ تو بڑا خوبصورت نام ہے۔ فائینی! کیا تمہیں یقین آگیا کہ میں واقعی وہی لڑکی ہوں جس نے تمہاری مدد کی تھی؟‘‘

پرنس سوچ میں پڑگیا۔ چند ساعتیں خاموش رہنے کے بعد اس نے نفی میں سرہلاتے ہوئے جواب دیا،

’’نہیں‘‘

ماریہ اداس ہوگئی۔ لیکن وہ جانتی تھی کہ پرنس نے دل سے اس کی بات پر ضرور یقین کرلیا ہے۔وہ ابھی پرنس سے مزید باتیں کرنا چاہتی تھی کہ اسے دور سے شاؤزان آتاہوا دکھائی دیا۔ شاؤزان کو دیکھتے ہی پرنس دوبارہ پھولوں کے پیچھے چھپ گیا۔ماریہ نے شاؤزان کو دیکھا تو وہ بھی واپس مُڑ آئی۔شاؤزان کے ساتھ ’’ موروان بابا‘‘ نہیں تھے۔اُس نے قریب آکر کہا،

’’نیلمانہ! وید بابا خود بیمار ہیں۔ وہ نہیں آسکتے۔ ہمیں اُن کے پاس جاناہوگا‘‘

’’نہیں! ہم کسی وید بابا سے ملنے نہیں جارہے ۔ مجھے آسمان کے دروازے والی بڑی بلڈنگ میں جانا ہے۔ اگر تم میرے ساتھ آسکتے ہو تو ٹھیک ہے۔ ورنہ میں اکیلی چلی جاؤنگی‘‘

 

شاؤزان کے لیے نیلمانہ کا یہ رویّہ نہایت غیر متوقع تھا۔نیلمانہ کی بات سن کر وہ بالکل خاموش ہوگیا۔پورا دن وہ ، شاؤزان کے ساتھ ایسی ہی باتیں کرتی رہی تھی۔ دن کے اختتام پر جب سب لوگ اپنے ٹھکانے پر لوٹے تو شاؤزان نے مورسینا کو سب کچھ بتادیا۔ مورسینا اور باقی سب نیلی تتلیاں نیلمانہ کو ہمدردانہ نظروں سے دیکھنے کے سوا اور کچھ نہ کرسکتی تھیں۔ یونہی اُن کا اگلادن تمام ہوا اور شیشتا شروع ہوگئی۔ شیشتا تتلیوں کی دنیا کی رات ہوتی تھی۔اس میں انسانوں کی رات جیسی تاریکی نہ ہوتی تھی۔ بس روشنی کا رنگ تھوڑا سا بدل جاتاتھا۔ ہردن میں روشنی کا رنگ پچھلے دن سے مختلف ہوتاتھا۔روشنی کے رنگوں کی اسی تبدیلی کی بنا پر تتلیاں اپنے زمانے کا حساب رکھتی تھیں۔

ماریہ سب جانتی تھی۔ ماریہ جانتی تھی کہ تتلیوں کی دنیا میں ہردِن میں روشنی کا رنگ کیوں بدل جاتا ہے۔ سُورج کی حرکت کے ساتھ ساتھ زمین پر آنے والی روشنی کی شعاعوں میں جو معمولی سی تبدیلی بھی واقع ہوتی تھی، تتلیاں اُسے نوٹ کرسکتی تھیں۔ انسانوں کے لیے روشنی بس روشنی تھی ۔ انسان سُورج کی شعاعوں میں سات رنگوں کی ہلکی ہلکی جھلک کو محسوس کرنے سے قاصر تھے۔

وہ خود جب سے تتلی بنی تھی ہرپل رنگ بدلتی سُورج کی روشنی دیکھتی تو حیران رہ جاتی۔ وہ جانتی تھی کہ تتلیوں کی آنکھوں میں باریک ویو لینتھ کی شعاعوں کو محسوس کرنے کی صلاحیت تھی۔اب تو ماریہ الٹراوائیلٹ شعاعوں کو بھی دیکھ سکتی تھی۔اس کے لیے سب کچھ بدل گیاتھا۔ یہ جہان ہی کچھ اور تھا۔ یہاں کی ہرچھوٹی سے چھوٹی چیز ماریہ کے لیے بڑی بڑی چیزوں جیسی تھی۔ یہاں گزرنے والا ہرلمحہ انسانی زندگی کے لمحات سے یکسر مختلف تھا۔ تتلیوں کا ایک سیکنڈ انسانوں کے ایک سیکنڈ سے کہیں زیادہ طویل تھا۔وہ انسانی علوم کے بارے میں سوچنے لگی۔اُسے کوانٹم فزکس کی باتیں یاد آنے لگیں جہاں اشیأ کو اور بھی باریک سطح پر جاکر دیکھنے کا تجسس موجود تھا۔تتلیوں کے وِژن سے بھی کروڑوں گنا باریک سطح۔

شیشتا شروع ہوئی تو ساری نیلی تتلیاں سوگئیں لیکن ماریہ کو نیند نہیں آرہی تھی ۔ اُسے اپنا انسانی گھر یاد آرہاتھا۔اُسے اپنے بابا یاد آرہے تھے۔خداجانے اُس کے انسانی رُوپ کے ساتھ کیا بیتی ہوگی؟ خدا جانے اس کے بابا کا کیا حال ہوگا اُس کے بغیر۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ حقیقی دنیا میں وہ مرچکی ہو؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ ہندوؤں کا آواگوَن درست ہو؟ انسان مرنے کے بعد کسی اور مخلوق میں بدل جاتاہو؟

طرح طرح کے خیالات تھے جو اس کے دل میں آتے رہے۔ماریہ دیر تک جاگتی رہی اور اپنے ماں باپ، بہن بھائیوں، دوستوں اور انسانی زندگی کے سارے واقعات کو یاد کرتی رہی۔ شیشتا گزرتی جارہی تھی۔ سب تتلیاں سورہی تھیں اور ماریہ اکیلی جاگ رہی تھی۔ وہ بے حدا داس تھی۔ اتنی اداس کہ آخر اس کی آنکھوں سے آنسوؤں کی لڑیاں جاری ہوگئیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply