بادبان!ٹمٹماتے چراغوں کی داستان(قسط1)۔۔۔۔محمد خان چوہدری

اصغر شاہ باوے وقار شاہ کا چھوٹا بیٹا تھا۔ باوا وقار شاہ ریٹائرڈ فوجی اور گدی نشین تھے۔

ان کے بزرگوں کا دربار ایک بڑے گاؤں میں تھا، جس سے ملحق آبادی محلہ سادات میں سب ان کے خاندان کے لوگ آباد تھے، جو متمول تھے ۔اکثریت فوج میں تھی، گاؤں کی ریلوے لائن اور سڑک کے جنوب مغرب میں وسیع اراضی اسی خاندان کی ملکیت تھی، وہاں کھیتی باڑی کرنے والے مزارعین کی ڈھوک آباد تھی۔
باوا وقار شاہ نسب میں بزرگ ترین تھے، وہاں بھی ان کا ڈیرہ تھا،گھوڑے اور ان کا اصطبل تو علاقے میں مشہور تھا۔تین بیٹے تھے، بڑا بیٹا گدی کا جانشین تھا اور گاؤں کی ساری زمین، علاقے کے مرید، مزار سے متعلق امور سب اس کے ہاتھ میں تھے، اس سے چھوٹا فوج میں افسر تھا، ان دونوں کی شادیاں خاندان میں ہوئی تھیں۔ اس وقت باوا جی کی بیگم حیات تھیں ،ان سے چھوٹی دو بہنیں بھی چچا اور ماموں کے گھر بیاہی تھیں، ان شادیوں کے بعد وہ فوت ہو گئیں،اس لئے اصغر جو سب سے چھوٹا تھا اور لاڈلا تھا۔۔اس کے مزاج میں بچپن سے خاندانی رسم و رواج ، بندھن، روایات اور پیری مریدی سے بغاوت عیاں تھی۔

باوا وقار شاہ کو ملتان میں ایک مربعہ زمین بھی الاٹ ہوئی ۔ باوا جی جب بھی ملتان جاتے تو اصغر شاہ کو ساتھ لے جاتے، وہاں ان کا قیام مہینہ بھر رہتا، آم کے باغ لگائے تھے، سیزن میں وہاں زیادہ رہتے ،اصغر کو ملتان رہنا پسند تھا، اسے سرائیکی بولی ، شاعری، اور ذاکری کا بہت شوق تھا ۔
گاؤں سے جیسے تیسے میٹرک کیا تو اس نے ملتان میں کالج میں داخلہ لیا، ساتھ ایک شیعہ مدرسہ میں بھی پڑھنے لگا،اس کی بھی شادی تو خاندان میں طے تھی، خاندان میں ہی رشتے کرنے کی مجبوری کی وجہ سے روایت یہ بھی تھی کہلڑکے اور لڑکی کی عمروں میں تفاوت نظرانداز کی جاتی ۔ حالات اور وقت کے مطابق بزرگ جو رشتہ جوڑ دیتے شادی ہو جاتی، کبھی چودہ سال کی بچی چوبیس سال کے مرد سے بیاہ دی جاتی تو کبھی بیس بائیس سالہ خاتون کی اٹھارہ سال کے لڑکے سے شادی ہو جاتی۔

اصغر شاہ کے گاؤں چھوڑنے کی بڑی وجہ بھی اپنے سے چار پانچ سال بڑی کزن سے شادی سے انکار بنی۔جس بچی سے نسبت غیر اعلانیہ طے تھی وہ باوا وقار شاہ کی ایک رشتے کی بیوہ بھانجی کی اکلوتی اور صاحب جائیداد بیٹی تھی، بھانجی بیوہ ہونے کے بعد شہر شفٹ ہوئی اور گرلز سکول میں استانی لگ گئی۔

باوا جی زمانہ شناس تھے، اصغر کی افتاد طبع سے آگاہ تھے، ان کا خیال تھا کہ یہ رشتہ ہونے سے اصغر مالی طور پر  بھی آسودہ رہے گا، اور ویسے بھی انکی بھانجی زمانے کی اونچ نیچ دیکھ چکی تھی وہ بیٹی کا گھر بسانے میں معاون ہو گی،لیکن اس موضوع پر ابھی تک اصغر سے کبھی کھل کے بات نہ ہو سکی۔
اصغر نے ایف اے کا امتحان ملتان سے دیا، باوا جی نے اسے فوج میں کمشن کے لئے اپلائی کرایا۔
ابتدائی ٹیسٹ اور میڈیکل تو کلیئر ہو گئے، آئی ایس ایس بی کے لئے بڑے بھائی نے تیاری کروائی لیکن  وہاں فائنل انٹرویو میں اصغر شاہ نے وائس پریذیڈنٹ  سے،جو اسے پاس کرنے پر مائل تھا سینگ پھنسا لئے۔
وی پی اصغر کے بھائی کو جو خود اب میجر تھا اچھی طرح جانتا تھا ۔ خاندان تو ویسے بھی فوجی تھا ۔ اصغر کا رویہآڑے آیا اور اسے ریجیکٹ کر دیا گیا۔
کوہاٹ سے اصغر واپس گاؤں آیا، باوا جی کو شدید دھچکا لگا، اور وہ بیمار ہو گئے۔
اصغر شاہ ان کی دیکھ بھال کرتا رہا، اس دوران اس نے اپنے رشتہ    دار مرحوم انکل جن کی زمین ان کی زمین کے ملحق تھی، اور انکی وفات سے دیکھ بھال یہی لوگ کرتے تھے، انکے وارثان سے سودا طے کر لیا۔

باوا جی کی طبیعت سنبھلی تو اس نے گاؤں کی زمین کی تقسیم کا شوشہ چھوڑ دیا۔

باوا وقار شاہ بچپن سے اصغر شاہ کی ہر ضد پوری کرتے آئے تھے، یہ جذباتی مجبوری ہر معمر باپ کی سب سے کمسن بیٹے کے لئے ہوتی ہے، بڑے بیٹے کو شروع سے ذمہ داری دی گئی، اس نے سنبھال لی، گاؤں میں سکنی زمین دس کنال تھی، ود کنال اسے دی ، اس نے گھر بنا لیا، میجر کو بیٹھک والی حویلی دی، اس نے بھی دو بیڈ روم کی انیکسی بنا لی،عید بقرعید ، محرم اور کسی تہوار تقریب پہ وہ آتے تو قیام اسی میں کرتے۔

آبائی بڑا گھر ،اس کے ساتھ ڈنگروں والی پرانی حویلی باوا جی نے اصغر کے لئے اپنے پاس رکھی، گھوڑے اور مویشی توڈھوک پہ تھے لیکن باوا جی کی آنے جانے والی گھوڑی اور ذوالجناح گھوڑا اسی حویلی میں رہتے، باقی جگہ پہ ان کے لئے چارہ لگایا جاتا۔
مربعہ والے رشتہ داریہاں بھی پتی دار تھے، ان کا ڈیرہ اس زمین سے منسلک تھا ، اسی طرح زرعی زمین بھی مشترکہ تھی اسی طرح ملتان کے مربعے مشترکہ ملکیت تھے، لیکن ان کا مربعہ پورا آباد نہیں تھا۔
باوا جی نے ان کو اپنی اور انکی حویلی سے ملحق چار کنال زمین اور باقی نقد پیسے دے کر ملتان والی زمین تبادلہ کر لی،لیکن وہ اصغر کی ان حرکتوں سے پریشان ہو گئے،گاؤں میں برادری، خاندان کے سامنے اور بڑے بیٹوں کے علم میں لانے سے معاملات بگڑنے کا اندیشہ تھا
اصغر کی لااُبالی طبعیت  بچپن کی ضد کرنے سے اب بے ادبی کی حد میں آتی جا رہی تھی،اس نے ضد کر کے ملتان میں جیپ خریدی۔ نیا ٹریکٹر لیا، تو باوا جی نے شفقت میں لے دیئے،اب شادی اور جائیداد کے مسائل پر تو سمجھوتہ مشکل امر تھا۔

باوا جی کے ایک عزیز جو کرنل ریٹائر ہوئے ،عمرہ اور زیارات پر جانے سے پہلے گاؤں میں اپنے لواحقین سے ملنے آئے،وہ ویسے بھی ماہر نفسیات مشہور تھے، باوا جی کا ان کے ساتھ اصغر بارے طویل ون ٹو ون سیشن ہوا،کرنل صاحب کی پوسٹنگ ملتان بھی رہی تھی،جہاں باوا جی اور اصغر شاہ ان کے گھر ملنے جاتے وہ بھی مربعے میں ان کے ڈیرے پر آتے تھے، اصغر سے ان کی کافی انسیت تھی،جو اس وقت بچہ ہی تھا،کرنل صاحب نے باوا جی کو حوصلہ اور مشورہ دیا، ان کے خیال میں کچھ مسئلہ اس وجہ سے تھا کہ جب کوئی نوجوان فوج میں کمشن کے لئے اپلائی کرتا ہے، پہلے انٹرویو، میڈیکل، سے آئی ایس ایس بی تک جاتا ہے تو وہ خود کو لفٹین ہی سمجھنے لگتا ہے، وہاں ریجیکٹ ہونے سے اسے وقتی طور پہ  ڈپریشن ہونا معمول کی بات ہے۔

دوسرا والدہ کی وفات  ایک محرومی بلکہ بہت بڑی محرومی کا سبب تو تھی، بہن بھائیوں سے بھی دوری اس وجہ سے تھی، کچھ احساس محرومی اور کمتری نے اصغر کے مزاج میں حسد، شک، بے یقینی اور ردعمل کی شدت پیدا کر دی۔
کرنل صاحب کی رائے یہ تھی کہ باوا جی مہینہ بھر اس کے ساتھ ملتان رہیں، اس سے مراسم باپ سے زیادہ دوستانہ رکھیں ، شادی پر تو کوئی بات ہی نہیں ہونی چاہیے، انہیں شک تھا کہ اصغر ملتان میں کسی لڑکی کے ساتھ انوالو ہو سکتا ہے۔ ان کا مشورہ یہ بھی تھا کہ اصغر شاہ اگر ذاکر بننا چاہے تو اس کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

باوا وقار شاہ نے اگلے چند روز میں متعلقہ رشتہ داروں سے ملتان والی زمین کے مختار نامے عدالت سے بنوا لئے۔گاؤں کی زمین ان کے حوالے کر دی، اصغر شاہ کو ساری کاروائی میں ساتھ رکھا،پنڈی بھی اسے ساتھ لائے اور اپنا میڈیکل چیک اپ کرایا، ضروری ادویات لیں ، ایک ماہ کے ملتان قیام کی تیاری مکمل ہوئی، تو باپ بیٹا ملتان روانہ ہو گئے۔
جاری ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply