داستانِ زیست۔۔۔۔محمد خان چوہدری/قسط31

پیش لفظ۔
ہم اپنے قارئین اور مکالمہ ٹیم کے تعاون ، ہمت افزائی، اور پذیرائی کے ممنون ہیں۔
گزشتہ تیس اقساط ہمارے الہڑپن، نوجوانی ، ملازمت، عشق و  عاشقی، کے زمانے بارے تھیں۔
پنجابی فلم کے پہلے ہاف کی طرح ان میں پیار کی بے وقوفی، دوستی کی نادانیاں، بے عقلی کی حرکتیں،جُگتیں ، حماقتیں ، جو ہم سب اوائل عمر میں کرتے ہیں قلمبند کی گئیں۔
یہاں تک آپ یہ سمجھیں کہ کرنل محمدخان کی بجنگ آمد، بسلامت روی اور بزم آرائیوں کا سلسلہ جاری رہا۔۔
پھر ہم چالیس سال کے ہو گئے۔ عقل داڑھ نکل آئی، سمجھدار ہونے لگے۔
اسلام آباد میں اپنا گھر،ڈیرہ اور دفتر بنانے کی عقل آئی۔ مکان کا سودا کیا، بیعانہ دیا، قبضہ لیا، پارٹ ادائیگی کر دی ۔
مکان کو گھر ، دفتر بنانے کے لئے اس کی مرمت، رینوویشن، پینٹ پالش ہو رہی تھی۔
انٹرول تو پہلے ہو چکا ، دوسرا ہاف ہے، فلم میں پنجابی مار دھاڑ ،دھینگا مشتی، کے سین بھی ہونے ہیں۔
تھوڑا سا رنگ ملک محمدخان ڈھرنال کا بھی ہونا چاہیے ناں۔
یہ قارئین کو جو مسکا لگایا ہے وہ اس لئے کہ آپ ہماری معصوم اور بھولی بھالی حرکتوں اور نہ ہم پہ ہنسیں گے۔ نہ غصہ کریں گے۔ بھائی ہم نو عقل تھے، نئی نئی عقل آنے لگی تھی ۔

تو اب پڑھیے  اگلی قسط ۔
ابھی قاضی صاحب والے گھر میں تھے۔ مکان میں کام ہو رہا تھا ۔ ایک مزدور ہانپتا کانپتا پہنچا ۔ اس نے یہ بد خبر دی کہ وہاں کوئی صاحب آئے ہوئے ہیں  جنہوں نے کام بند کرانے اور گھر خالی کرنے کا شور مچا رکھا ہے کہ یہ کوٹھی ان کی ہے ،ہم نے حاجی کو کال کی، اور بھائی کے شو روم پہ  فون کرکے وہاں ملازم چکوال کے تین چار
مُسلی فوری طور پہ بھیجنے کا حکم صادر کیا۔
خوش قسمتی سے ہم نے چکوالی بانکا جوڑا، کلف والی شلوار قمیض پہنی تھی، سڑک کی ڈھلان پہ بھائی کی ببانڑ ٹویوٹا ڈیزل جیپ کھڑی تھی۔ دھکے سے سٹارٹ ہوئی، ہم سڑک پہ اس کا دھواں چھوڑتے مکان پر پہنچے،دیکھا ایک جثیم الجثہ ، باریش ٹوپی پوش حضرت نے سب کام والوں کو ڈرائیو وے پہ فالن کر رکھا تھا۔۔انکے ساتھ شاید نوعمر بیٹا تھا۔
جیپ مکان کے سامنے سڑک پر روکی، دبا کے ایکسیلیٹر دیا، انجن چنگھاڑا، کچے دھوئیں سے فضا بھر گئی ۔
حضرت صاحب اس ناگہانی حملے سے گھبرا کر سائیڈ پہ  ہٹ گئے، جیپ بند کی، نیچے اترے ،مستریوں کو جھاڑ پلا کے گھر کے اندر کام کرنے کو بھیج کے ، مونچھوں کو تاؤ دیتے حضرت سے مخاطب ہوئے
“ اوئے کون ہو تم ؟ یہاں کیا لینے آئے ہو ؟
اس نے نرم لہجے میں کہا ۔ “ یہ میری کوٹھی ہے، میرے بھائی نے فراڈ سے بیچی ہے “
ہم نے آنکھیں نکال کے گرج دار آواز میں کہا، تم یہاں کیوں آئے ہو ؟ بھائی کے  پاس جاؤ۔۔
جانتے ہو میں کون ہوں ؟ اوئے میں محمدخان ہوں ، چکوال گھر ہے میرا۔ تیرہ لاکھ روپے دیئے ہیں ، قبضہ لیا ہے ۔
اتنی دیر میں مُسلی  ملازم پہنچ گئے، حاجی بھی موڑ پہ آتا نظر آیا،ہمارے چکوال کے مُسلی تو لڑائی میں مہارت اور وفا کے لئے مشہور ہیں، انہوں نے باپ بیٹے کو گھیرا ڈال لیا۔
حاجی قریب پہنچا تو اسے بھی جھڑک دیا، اوئے حاجی یہ کون ہے ؟ اسے یہاں آنے کی جرآت کیسے ہوئی ۔
پوچھو اس سے۔۔

حاجی بولا ، “ آغا یار تم میرے پاس آتے، تمہارا گھر کا جھگڑا اپنے بہن بھائیوں سے ہے۔
آغا کے کاندھے پر ہاتھ رکھ کے میں نے کہا، “ تم اپنے اس بیٹے کی خیر مانگو،ہم دیوانی نہیں فوجداری مقدمے لڑتے ہیں۔ اب تم اس گلی سے بھی گزرے تو یاد رکھنا زندہ نہیں جاؤ گے۔
حاجی نے مجھے جپھی ڈال کے ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی ،
آغا بھی سمجھ گیا کہ اس نے غلطی کی ہے، اس نے معذرت کی، یہ بھی کہا کہ وہ آئندہ یہاں نہیں آئے گا۔

نوکر نے ایک گلاس پانی پلایا، محفل برخواست ہوتے، آغا سے معذرت کی، کہ ہمارا میٹر گھوم گیا تھا ویسے ہم بہت
ملنسار ہیں، اگر اسے تصفیہ کرنے میں ہماری مدد درکار ہوئی تو ہم ہر طرح سے تعاون کریں گے۔

اسلام آباد کا یہ مخصوص کلچر ہے کہ کہیں ایسا جھگڑا ہو جائے تو ہمارے علاقے کی طرح پورا گاؤں جمع ہو کے اس میں شریک ہونے کی بجائے اڑوس پڑوس والے اپنے گھروں کے دروازے بند کر لیتے ہیں اور سڑک کی جانب کھلنے والی کھڑکی کے پردے ہٹا کے ، اس کی اوٹ سے تماشا دیکھتے ہیں ۔
دوسرے شاید ہمارے ہم نام ملک محمدخان ڈھرنال کی شہرت سے لوگ واقف تھے، کسی نے بھی وقوعہ کی تفصیل جاننے کی کوشش نہیں  کی تھی، ہاں ہماری دھاک پوری سٹریٹ میں ایسی بیٹھی جسے ہم ابھی تک بھگت رہے ہیں۔
کوئی بھی ڈس آرڈر ہو تو سب مطمئن رہتے ہیں کہ ہم ہی نکلیں گے بھی اور مسئلہ بھی حل کرائیں گے۔
مکان کی ملکیت بارے ہمیں جو کچھ پہلے معلوم کرنا تھا اس کی عقل تو نہیں تھی، خیر اگر یہ پھوہاڑا پتہ چل جاتا تو شاید ہم یہ سودا ہی نہ خریدتے۔ جھگڑا یہ تھا کہ سی ڈی اے کے قبرستان کے انچارج آفیسر آغا صاحب نے آبپارہ مارکیٹ میں بیٹوں کےآغا برادرز،نام پہ دکان الاٹ کرائی، اب ماشااللّہ وہ کثیر الاولاد تھے چار پانچ بیٹے اور پانچ چھ بیٹیاں تھیں، ایک بیٹا فوج میں کرنل بھی تھا،سی ڈی اے نے آبپارہ مارکیٹ کے دکانداروں کو رہاش کے لئے ، کیپٹل ہسپتال والی سٹریٹ میں پلاٹ الاٹ کر دیئے۔یوں آغا برادرز کو بھی دوسرے دکانداروں کے ساتھ 266 مربع گز کا پلاٹ بارہ ہزار روپے میں مل گیا۔
جی اس زمانے میں سی ڈی اے ریوڑیوں کی طرح پلاٹ بنا کے بانٹتی تھی۔
کرنل صاحب ریٹائر ہوئے تو انہوں نے اس پلاٹ پر گھر بنایا، اب پنڈی کالج والے آبائی گھر میں بڑے بھائی اپنی فیملی کے ساتھ رہتے، دکان بھی وہ ہی چلاتے، باقی سب اس گھر میں تھے، ایک بہن نے اپنا گھر جی ٹین میں بنا لیا۔
کرنل صاحب یہ گھر بیچ کے امریکہ چلے گئے، تین لاکھ بقایا چھوڑ کے بہن کے حوالے کاغذی کاروائی کر گئے، باقی بہن بھائی کچھ فارن میں تھے بہنیں اپنے گھروں میں، والد فوت ہو چکے، والدہ کرنل کے پاس امریکہ،بڑے بھائی نے میدان خالی دیکھ کے اس مکان اور دکان پر اپنی ملکیت جتلانی شروع کی، تو باقی سب کرنل کے ساتھ ہو گئے، اس سارے فساد کے ساتھ ہم نے گھر ٹھیک کرا کے یہاں شفٹنگ کر لی ۔۔
وہی پینڈو تڑی کہ جب کوئی آئے گا تو دیکھ لیں گے۔
بڑے بھائی کو اس روز کی بے عزتی دل میں کھُب گئی، وہ کھوج میں لگا رہا کہ کہیں داؤ لگے تو وہ گھر پہ قبضہ کرے۔
اُس نے سال بھر میں کہیں سے ایف آئی اے میں اپنا دور پرے کا رشتہ دار انسپکٹر ڈھونڈ ہی لیا۔
سی ڈی اے کو پارٹی بنا کے جیورسڈکشن فاعل کرائی اور میرے سمیت سب بہن بھائیوں کو شامل کر تے درخواست ٹھوک دی کہ ہم سب نے مل کے سی ڈی اے کے ناجائز تعاون سے اس سے گھر فراڈ سے چھینا ہے۔
انسپکٹر نے روبکار بنوا کے سی ڈی آفس سے ریکارڈ ضبط کر کے قبضے میں لیا، ہمیں پنڈی آفس میں حاضری کا سمن ملا۔
ہمارے بچپن کے کلاس فیلو اسی دفتر میں اسسٹنٹ ڈائریکٹر انچارج تھے،ہم زعم باطل میں بغیر دوست کو فون کیے کشاں کشاں وہاں پہنچ گئے، وہاں پتہ چلا کہ دوست صاحب تو اسلام آباد اکیڈمی ٹرانسفر ہو کے چارج چھوڑ کے تین دن پہلے جا چکے ۔ انسپکٹر کے سامنے پیشی تو لازم تھی، حاضر ہو گئے۔۔
انسپکٹر نے اپنے جاہ و جلال سے ہماری خوب گت بنائی، تو تُکار کرتے ہمیں قبضہ مافیا کہا، دھمکی دی کہ وہ مجھ ایسوں کو جانتا ہے سیدھا کر دے گا، ہم نے سب دھونس سنی۔ اس نے بولنے کا موقع  بھی نہ دیا آخر لجاجت سے عرض کی کہ کل تک مہلت دی جائے کہ میں اپنے کاغذات ساتھ لا کے پیش کروں، اس نے جلالی لہجے میں ارشاد فرمایا،کل بارہ بجے تک تم نہ آئے تو میں تمہیں اسی گھر سے اٹھا لوں گا اور کوٹھی اس کے اصل مالک کے حوالے ہو گی۔
ہم وہاں سے سیدھے اکیڈمی پہنچے، دوست کو روداد سنائی وہ حسب عادت مراقبے میں چلے گئے، پھر زور سے ہنسے
کہنے لگے، چنگا ہویا،تم کبھی کوئی کام پہلے سوچ کے نہیں کرتے، چلو کل دوپہر ساتھ چلیں گے۔
اگلے روز انسپکٹر پہ بساط الُٹ گئی، اس نے گلہ کیا کہ کل آپ تعارف کرا دیتے ، ہم نے مسکرا کے کہا تو ہم آپکی  محکمانہ تفتیش سے محروم رہتے، دوست صاحب نے اہم سوال کیا کہ اب آگے اس مسئلے کا حل کیا ہے ؟
انسپکٹر نے مشورہ دیا کہ چوہدری صاحب عدالت میں کیس دائر کر دیں، سی ڈی اے کو بھی پارٹی بنائیں مدعا الیہان میں ساری آغا فیملی اور حاجی کو شامل کریں ۔ ریکارڈ سی ڈی اے  کو واپس مل جائے گا، گھر کا سٹے مل جائے گا۔
دو چار سال میں فیصلہ یا تصفیہ ہو جائے گا، باقی یہ خود وکیل ہیں ، ان کے مقابل شاید کوئی وکیل ہی نہ آئے۔
تو جناب یہ تھی مکان پہ  آغا صاحب کے دو حملوں کی کاروائی کا احوال ۔ عدالت میں ہوئی کاروائی کی کہانی،اگلی قسط میں ۔۔۔۔

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply