بندر اور درجہ چہارم۔۔۔جواد بشیر

جنگل میں آگ لگی اور بندر نے اُسے بجھانے کے لیے ایک سے دوسرے درخت تک بھاگ دوڑ شروع کردی،جس سے ماسوائے تھکن کے کچھ حاصل نہ ہُوا۔۔۔
یہ کہانی ہم نے بہت بار سُنی ہے۔۔

نقطہ نمبر ۱۔اس کہانی کو یاد رکھیے گا۔

دوسرے نمبر پر،جو سوچ میں آپ تک پہنچانا چاہ رہا ہوں،اُسے میں درجہ چہارم کی سوچ کہتا ہوں۔

درجہ چہارم گورنمنٹ کے کسی بھی ادارے میں کام کرنے والا سب سے کم درجے کا ملازم ہوتا ہے۔جو اس ادارے کی ساریodd jobs کرتا ہے۔۔مثلاً کمروں کی صفائی،جھاڑ پونچھ،چائے بنانا،خط پہنچانا،مالی کا کام وغیرہ۔۔

درجہ چہارم کا ملازم ہونا کوئی بُری بات نہیں،لیکن جس بات سے مجھے پریشانی ہے،وہ درجہ چہارم والی “سوچ” ہے۔۔۔

درجہ چہارم والی سوچ کو سمجھانا بڑا آسان سا کام ہے۔

میں نے کلاس کے بچوں سے کہا کہ ابھی جو بچہ اس کمرے میں داخل ہونے والا ہے،وہ چور ہے۔۔
کلاس میں بیٹھنے سے پہلے میں نے بچوں کے دماغ میں ایک سوچ ڈال دی، توباقی بچوں نے اُس بچے کو اُسی نظر سے دیکھنا شروع کردیا،اُن کی نظر میں وہ بچہ چور بن چکا تھا۔۔
بِناکوئی اور بات کہے، اُس کو سُنے، میں نے بچوں کی سوچ کو پہلے ہیHijack(اغواء) کرلیاتھا۔۔اب اُن کا نظریہ بدلنے میں بہت وقت لگنے والا تھا،وہ بھی اُسی صورت ممکن تھا اگر وہ بچے ضروری سمجھیں،جو کہ ہم عام حالات میں ضروری نہیں سمجھتے۔

عام آدمی کی سوچ کو میڈیا نے ایسے ہی اغواء کرلیا ہے۔اب اُس کی اپنی صلاحیت باقی ہی نہیں رہی،کہ وہ کسی پہلو کو اپنی سوچ سے پرکھ سکے،اس سوچ کو میں درجہ چہارم والی سوچ کہتا ہوں۔۔
میں نے بچوں سے کہا کہ آپ ایک سو دکانوں پر جاکر جو کچھ ٹی وی پر چل رہا ہے،اپنے موبائل سے اُس کی تصویر لیں،کون سا ٹی وی چینل چل رہا ہے؟۔۔۔یقیناً خبروں کا چینل ہے۔۔۔میڈیا لوگوں کی سوچ کو اغواء کرکے، اپنی سوچوں کے ذریعے،درجہ چہارم والی سوچ کے بندوں سے بندروں والی حرکات کروارہا ہے۔جس کا نتیجہ کچھ بھی نہیں۔
لیکن لوگوں کے ذہنوں میں سنسنی اور ہیجا ن ضرور بپا ہوجاتاہے۔۔لوگ ملک میں لگی اور میڈیا کی سلگائی آگ پر بندروں کی طرح چھلانگیں لگا کر ایک دوسرے کے دشمن بنتے جارہے ہیں،اور نتیجہ۔۔۔وہی،ڈھاک کے تین پات!

Advertisements
julia rana solicitors

کلاس ختم ہونے سے پہلے میں نے بچوں پر اپنی سوچ کا پردہ فاش کردیا کہ میں نے ایسا (اُس بچے کو چور کہنا)صر ف آپ کو سمجھانے کے لیے کیا تھا۔درجہ چہارم کا ملازم ہونا بُری بات نہیں،درجہ چہارم کی سوچ کو جِسے کوئی اغواء کرچکا ہے،مجھے اُس سے پریشانی ہے،کہ کتابیں، لوگ،دوست وغیرہ،کچھ جانتے ہوئے،اور کچھ نہ جانتے ہوئے آپ کی سوچ کواغواء کرکے اپنی طرح سے آپ کو بندروں والا ناچ نچاتے ہیں۔

Facebook Comments

جواد بشیر
تحریر بارے اپنی رائے سے کمنٹ میں آگاہ کیجیے!

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply