’’زندگی تیری زلفوں کی نرم چھاؤں میں گذر پاتی تو شاداب ہو بھی سکتی تھی‘‘۔
سحر لدھیانوی کا یہ مصرعہ صرف محبوبہ کے لئے ہے۔اورمیری تو شادی ہو چکی ہے۔محبوبہ ایسا افسانوی وتخیلاتی کردار ہے۔جس کے حصول کی آرزو ۔اور۔ جستجو تو جا سکتی ہے۔لیکن حاصل گفتگو زیرو ہے۔ بیویوں کو سحر لدھیانوی کے مصرعے سے استثنا حاصل ہے ۔میں اگرچے شادی شدہ ہوں۔اس کے باوجود میرے مواخذے کی تحریک جاری رہتی ہے۔بیوی سرچ انجن کی طرح کام کرتی ہے ۔ جیب۔ دراز۔ آفس بیگ۔بٹوہ۔ موبائل پیغام۔ پکچر گیلری ۔کوٹ کے کالر۔ پرفیوم کے فلیور۔ وغیرہ ہر چیز کی تلاشی سارا سال جاری رہتی ہے۔ اور بیوی کا علم ایسا کہ۔ غلط او ر صحیح معلومات ۔فور جی ڈیٹا سروس کی طرح۔ بیک زبان جنبش ۔ فورا نکال باہر کرتی ہے ۔ کم و بیش ہر بیوی گوگل جیسی خصوصیات کی حامل ہوتی ہے۔ ان سے کچھ بھی پوچھیں تووہ کچھ بھی جواب دے دیتی ہے۔اور شوہر کچھ بھی سمجھ سکتے ہیں۔
بیوی اور محبوبہ میں’’اسم ذات‘‘ جتنا فرق ہوتا ہے۔ صرف اتنا کہ بیوی محبوبہ نہیں ہو سکتی البتہ محبوبہ ۔بیوی بن سکتی ہےپھروہ محبوب نہیں رہتی۔میرا دوست شیخ مرید تو کہتا ہے کہ ’’شوہر کے لئےمحبوبہ۔ ایسا خواب ہے۔جس کی تعبیر پتہ چل جائے تو انجام خاصا بھیانک ہوتا ہے‘‘۔اسی لئے شوہر۔بیوی کی ۔زلفوں کی نرم چھاؤں تلے ہی شادابی ڈھونڈتے رہتے ہیں ۔ایک مجبور شادابی۔ مواخذےسے بچنے کی کوشش۔بقول مشتاق یوسفی صاحب ’’مرزا سے کسی نے پوچھا کہ ’’محبت شادی سے پہلے کرنی چاہیے یا بعد میں تو انہوں نے جواب دیا۔ جب بھی ہو۔ بیوی کو اس کا پتہ نہیں چلنا چاہیے‘‘۔اور عطا الحق قاسمی کہتے ہیں کہ ’’بیوی سے محبت کرنا ایسی جگہ پر خارش کرنا ہے جہاں خارش نہ ہو رہی ہو‘‘۔لیکن مرید کہتا ہے کہ’’شوہر کی دو اقسام ہوتی ہیں ۔پہلی خارشی اور دوسری خارجی۔ ۔ خارجی شوہر باہر بھی خارش کرتے رہتے ہیں‘‘۔شادی اجنبی سے ہو یا پھر واقف سے۔شناسائی قبل از ازدواج ہو یا پھر بعد از ۔عقد ۔ اس کا حتمی نتیجہ بچے ہوتے ہیں۔
شادی کے ایک سال بعد خاتون نے ہسپتال میں بچے کو جنم دیا۔ پھر دوسرے سال دوسرے بچے کو۔پھر تیسرا بچہ۔شادی کے بارہویں سال وہ ہسپتال نہیں آئی۔ عملہ خاصا پریشان تھا۔اچانک وہ خاتون مل گئی لیکن حاملہ نہیں تھی۔ نرس نے پوچھا ۔کیا تمہارے شوہر کی ڈیتھ ہو گئی ہے۔تم آئی نہیں۔۔؟
خاتون: نہیں نہیں وہ زندہ سلامت ہیں۔دراصل مجھے ہی ۔پچھلے سال پتہ چلا ہے کہ بچہ پیدا کیوں ہوتا ہے۔؟۔
بچے ہماری ۔ایکسٹینشن ہوتے ہیں۔شادی کے بعد میکے اور سسرال کو سب سے زیادہ فکر۔ ہماری ایکسٹینشن کی ہو تی ہے۔ذرا سی دیر ہو
جائے تو مریض کے بلڈ پریشر کی طرح۔بار بار ۔میاں۔ بیوی کوچیک کرنے لگتے ہیں۔ دبے لفظوں میں ۔وہ سب کچھ سمجھانے کی کوشش کی جاتی ہے جس کا نتیجہ اوپن ہوتا ہے۔ مرید کہتا ہے کہ’’ pregnant عورت کی زندگی کاسب سے برا لمحہ وہ ہوتا ہے ۔ جب لوگ اسے مبارک دینے کے بجائے جم جانے کا مشورہ دینے لگتے ہیں‘‘۔شوہر عاشق ہو یا’’نا مراد‘‘ اکثر’pregnant ‘خواب دیکھتا ہے۔ بیوی شوہر کے خوابوں کی تعبیر ڈلیور کرتی ہے ۔ ہمارے ہاں تفریح کے مواقعے انتہائی کم ہیں۔ اسی لئےpregnant خواب ہماری سب سے بڑی تفریح ہیں۔ ۔ ازدواجی کشیدگی ہمیشہ صلح پر ختم ہوتی ہے۔صلح کے بعد ہم ہوٹلنگ اور آؤٹنگ پر نہیں جاتے۔’’خوا ب‘‘ دیکھتے ہیں۔ صلح اگلے کئی مہینوں کے لئے ’’سیز فائر ‘‘کو جنم دیتی ہے۔اور۔میاں بیوی جتنے زیادہ لڑاکے ہوں گےان میں صلح کے امکانات اتنے ہی زیادہ ہو ں گے اور ایکسٹینشن بھی اتنی ہی زیادہ ہو گی ۔
بابا جی ایک گاؤں پہنچے اور لوگوں کے مسائل سنے۔
عورت:بابا جی۔ شادی کو کئی سال ہو گئے ہیں اولاد نہیں ہوئی۔
بابا:کاکی۔!میں دعا کروں گااور بڑے سرکار کے دربار پر تیرے کانام دیا جلاؤں گا۔
دس سال کے بعد بابا جی ۔دوبارہ ۔اسی گاؤں آئے اور خاتون سے پوچھا: کاکی ۔ کتنے بچے ہیں تیرے ۔؟
عورت:۔ بابا جی 10 بچے ۔۔!
بابا:تمہارا شوہر کہاں ہے۔ ؟
عورت:وہ دربار ڈھونڈ کر دیا بھجانے گیا ہے۔
دعائیں ۔ آن ۔آف بٹن کی طرح جب جی چاہے اندر سے بند کی جا سکتی ہیں۔اور چراغوں کا بٹن بھی ہوائی سا ہوتا ہے۔ لیکن پچھلے دنوں بھارتی ریاست گجرات کی ایسی عجب خبر زیرِ نگاہ رہی ۔ جس کا عنوان تھا۔’’بچے پیدا کرنا۔ بس کرو‘‘۔ گجرات کے رہائشی ایک جوڑے نے17بچے پیداکرڈالے۔17ویں بچےکی پیدائش کے بعدپوراگاؤں اکٹھے ہوکران کے گھرپہنچااورمطالبہ کیا کہ اب ”بس کرو‘‘۔اس فوج ظفر موج کے مالک 44سال رام اور اس کی 40 سالہ بیوی کانو سنگوٹ ہیں۔ اس سے پہلے کہ 18واں بچہ دنیا میں آ تا تو گاﺅں والے آگئے۔ طویل سرکھپائی کےبعد جوڑے کو۔ منصوبہ بندی پر رضامند کر لیا گیا۔انہیں گاؤں والے خود ہسپتال لے کر گئے اور نس بندی کروائی‘‘۔
رام کی یہ لو میرج نہیں تھی۔ لیکن وہ پورا خارشی نکلا۔اور۔ گاؤں والے اس کے دشمن نکلے ۔جنہوں نے ’’سپاہِ رام‘‘ کی تیاری میں رکاوٹ ڈال دی۔ رام معاشی طور پر اتنا خوشحال نہ تھا کہ مغل عاشق شاہ جہان کی طرح محبت کی یاد گار۔ تاج محل بنوا سکتا۔ مرید کہتا ہے کہ ’’محبت کی دو آزمائشیں ہوتی ہیں۔ پہلی تاج محل اور دوسری’’ موقع محل ‘‘۔تاج محل شاہ جہاں کےپاس ہے اور۔موقع محل رام کے پاس‘‘۔ تاج محل ۔وقت کے گال پر لُڑھکتا آنسو ہے ۔شاہ جہان کا آنسو۔۔جو ظلِ سبحانی۔ظلِ الہی نے اپنی پیاری ملکہ ۔ممتاز محل کی یاد میں بہایا۔ملکہ سےشاہ جہان کو شدید محبت تھی۔ رام جیسی محبت ۔ موقع محل والی۔وہ ۔ شاہ جہاں کی تیسری بیوی تھی۔جو 14ویں بچے کی ڈلیوری کے دوران مر گئی۔اس سے تو رام اچھا نکلا۔ جس نے حالات کے بجائے گاؤں کے سامنے ہار مانی۔ لیکن قدرت نے اسے تاج محل بنانے کاموقع نہیں دیا۔
’’زندگی صرف بچے پیدا کرنے کا نام نہیں۔ بلکہ ان بچوں کو بہتر انسانی ماحول دینے کا بھی نام ہے۔ تمہاری شادی بھی ہو گی۔ بچے بھی پیدا ہو ں گے۔پھر بڑھاپا ۔ اور آخرچل چلاؤ۔ زندگی کتنی مختصر ہے۔ اس سانس برابر زندگی کو کار ، بنگلے اور دولت کے بوجھ تلے دبا کر ختم کر دینا ۔ یہ بھی کوئی بات ہوئی ۔؟ بچے تو بھینس بھی پیدا کر لیتی ہیں۔ تم عورت ہو ، کسی دن میری بات پر غور کرنا‘‘ ۔جھوٹے روپ کے درشن سے اقتباس ۔
جھوٹے روپ کے درشن ۔پنجاب یونیورسٹی کے ایک پرانے انقلابی ۔نوجوان۔راجہ انور کی کتاب کا نام ہے۔ناکام محبت کے خطوط پر مبنی کتاب ۔ ایسے عاشق کےخطوط جس نے کسی اور کی محبوبہ سے محبت کی ہے۔۔اور تھوڑی بہت شامیں ۔ زلفوں کی نرم چھاؤں تلے شاداب بھی کیں اور پھر وہ محبت سماجی بندشوں کے بوجھ تلے دب گئی۔ہم آج بھی سماجی اور اخلاقی بندشوں کے معاشرے میں زندہ ہیں۔ زندگی کی شادابی بیوی کی زلفوں تلےڈھونڈنا پڑتی ہے۔ شوہروں کو خارشی ہونا پڑتا ہے۔بچے تو بھینس بھی پیدا کر لیتی ہے۔ انہیں بہتر انسانی ماحول بھی دینا ہے۔گانے تو گنگنانے کے لئے ہوتے ہیں۔
’’زندگی تیری زلفوں کی نرم چھاؤں میں گذر پاتی تو شاداب ہو بھی سکتی تھی‘‘۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں