کشمیر کتھا” کا تیسرا افسانہ “آخری خط”۔۔۔۔رمشا تبسم

ماں مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے۔کیا بھائی کو واقعی آج بھارتی فوج پھانسی دیدے گی؟ماں ہم سب بھائی کے لئے کچھ نہیں کریں گے کیا؟ اریشہ نے ماں کی گود میں سر رکھے لیٹے ہوئے بجھی آواز میں کہا.
سکینہ نے لرزتے ہونٹوں سے بیٹی کا ماتھا چوما ۔سکینہ کی آنکھوں سے آنسو اریشہ کے گال پر گر رہے تھے۔
“اریشہ تم بس دعا کرو اللہ ہمارے حال پر رحم کرے میری بچی ۔ اور تمہارے بھائی کے لئے آسانی ہو “۔آنسو قطار در قطار سکینہ کی آنکھوں کا مسکن چھوڑ کر راہِ فرار اختیار کر رہے تھے۔
برہان آٹھ مہینوں سے کشمیری مجاہدین کے ساتھ تھا۔آٹھ مہینے سے سکینہ نے اسکی شکل صرف ٹی۔وی میں خبروں میں دیکھی۔جہاں بھارت کی جانب سے اسکو زندہ یا مردہ پکڑنے پر انعام کا اعلان ہوتا یا اسکی جانب سے بھارتی فوجیوں پر حملے کی خبریں ٹی وی کی زینت بنتی۔سکینہ کا دل دن بدن پریشان ہو رہا تھا۔کشمیر میں آزادی کی جدوجہد ایک بار پھر زور پکڑ چکی تھی۔سکینہ کے لئے ہر لمحہ لی جانے والی سانس انتہائی کٹھن تھی۔ایک طرف تو اکثر اوقات کرفیو کی وجہ سے کئی کئی دن گھر میں بھوکے پیاسے قید رہنا اور دوسرا جوان بچے کو بھارتی فوجی جنگلی بھیڑیوں کی طرح ڈھونڈ رہے تھے جو برہان کو دیکھ کر فوراً اسکی زندگی کا خاتمہ کرنے پر بضد تھے۔یہ لمحات سکینہ کے لئے انتہائی تکلیف دہ تھے۔کرے تو کیا کرے، جائے تو کہاں  جائے۔ماں تھی ،بچے کو کلیجے سے لگانا چاہتی تھی۔مگر یہ بات اب وہ جانتی تھی کہ کسی بھی وقت برہان کے بارے میں کوئی بُری خبر آ سکتی تھی۔
اور ایسا ہی ہوا بالآخر برہان کو کچھ دن پہلے اپنے چند ساتھیوں سمیت بھارتی فوج نے گرفتار کر لیا۔اور آج صبح پورے سات بجے اس کو پھانسی دی جانی تھی۔کرفیو نافذ تھا تاکہ برہان کے لئے کوئی جلوس یا احتجاج نہ ہوسکے۔ برہان کی گرفتاری اور پھانسی بھارت کی جیت تھی جس کا جشن بھارتی چینل پر منایا جا رہا تھا۔اور بھارتی میڈیا پر کشمیری مجاہد برہان کو دہشت گرد لڑکا ثابت کیا جا رہا تھا۔اب پھانسی کا وقت قریب تھا۔صبح کے پانچ بج رہے تھے۔گھڑی جیسے جیسے سوئیاں بھگا رہی تھی سکینہ اور اریشہ کے دل کی دھڑکن تیز ہو رہی تھی۔شاید وقت دنیا میں سب سے بے رحم چیز ہے اسکو حب تیز چلنا ہو تو سست روی اختیار کرتا ہے اور جب تھم جانا ہو تو تیز رفتاری سےآگے  بڑھنے لگتا ہے۔اس لمحے وقت کی بے رحمی بھارتی فوج کے ظلم سے زیادہ زور پکڑتی محسوس ہو رہی تھی۔

“چلو اٹھو نماز پڑھیں ۔آذان ہو گئی ہے اور ہم یونہی بیٹھے ہیں میری بچی اللہ کے سوا کوئی نہیں ہے بس اس سے مدد مانگتے ہیں یا تو وہ یہ وقت بدل دے یا ہمیں تیسرا جنازہ دیکھنے اور برداشت کرنے کا حوصلہ دید ے۔”۔سکینہ نے روتے ہوئے اریشہ کا سر گود سے اٹھایا اور اٹھنے کی کوشش کی مگر سکینہ کے قدم لڑکھڑا گئے اریشہ نے آگے بڑھ کر ماں کو تھام لیا اور گلے لگ کہ زارو قطار رونے لگے۔
“ماں۔میرا بھائی کیا کبھی واپس نہیں آئے گا؟ پھانسی سے پہلے یا بعد میں ہم اسے دیکھ سکیں گے کہ نہیں؟ باہر کرفیو ہے ۔ہم سب کیوں نہیں یہ زنجیریں توڑ کر بھائی کی طرف بھاگتے۔ماں وہ اکیلا ہو گا۔اسکو ڈر لگ رہا ہو گا،کتنی لاشیں ماں کتنی۔۔یہ تیسری لاش نہیں ہے یہ لاکھوں لاشوں میں سے ایک اور لاش ہو گی جس کو   کشمیرکی زمین ڈھانپ لے گی۔اور کتنی قربانی ماں کتنی؟ اور کتنی بہنوں کے بھائی چاہئیں  اس ظالم و جابر فوج کو ؟”۔اریشہ روتے روتے ماں کے قدموں میں بیٹھ گئی۔۔اور ہتھیلیوں میں منہ چھپا کر رونے لگی ۔
سکینہ نے بچی کو کانپتے ہاتھوں سے اٹھایا۔منہ صاف کیا۔”چلو وضو کرتے ہیں،میری بچی ۔۔بس حوصلہ رکھو”
نماز پڑھتی اریشہ اور سکینہ کی آنکھوں سے مسلسل آنسو جاری رہے۔طویل سجدوں میں جھکے کانپتے لرزتے جسم کافی دیر خاموشی سے خدا کے حضور التجا میں مصروف رہے۔
یکدم اریشہ کو کچھ یاد آیا۔سجدے سے سر اٹھا کر وہ چیخی
ماں بھیا نے کچھ دیا تھا۔
کیا دیا تھا؟سکینہ نے حیرت سے پوچھا
اریشہ نے ہاتھوں سے چہرہ صاف کیا اور بھاگ کر کمرے کی طرف گئی۔ الماری سے کچھ نکال کر ماں کے برابر آ کر بیٹھ گئی۔اور بولی
“ماں کچھ دن پہلے آپ سو رہی تھیں برہان بھیا گھر آئے تھے۔انہوں نے آپ کو جگانے سے منع کیا یہاں آپ کے قدموں میں خاموشی سے بیٹھے رہے اور آنسو بہاتے رہے۔انہوں نے کئی بار آپ کے قدموں کو بوسہ دینا چاہا مگر آپ کے اٹھنے کے ڈر سے بس چپ چاپ بیٹھے رہے اور جاتے وقت مجھے کہا کسی دن جب اچانک کچھ ایسا ہو جائے کہ میرے واپس آنے کی ہر امید دم توڑ دے یا میری واپسی ممکن نہ رہے اس لمحے یہ خط ماں کو دے دینا میری لاڈلی اور اپنا اور ماں کا خیال رکھنا۔اور ایسے کسی بھی وقت سے پہلے یہ خط نہ خود کھولنا نہ ماں کو اسکا بتانا” اریشہ کی آنکھوں سے آنسو  مسلسل بہہ رہے تھے۔سکینہ حیرت سے جائے نماز پر بیٹھی تمام باتیں خاموشی سے سن رہی تھی۔اریشہ نے خط ماں کی طرف بڑھایا۔
سکینہ نے خط تھام کر بے تحاشا لبوں سے لگایا۔ماں اپنی اولاد کا لمس ہواؤں میں بھی محسوس کر سکتی ہے۔بہتے دریاؤں میں بھی دیکھ سکتی ہے۔سکینہ نے خط کی تہیں کھولیں اور ہر تہہ کو کئی بار چوما سونگھا اور بالآخر خط پر لکھی تحریر اسکی آنکھوں کے سامنے تھی۔
میری پیاری ماں!
“ہاں میرے بچے” سکینہ نے زارو قطار روتے ہوئے تحریر کو بار بار چوما ۔اریشہ ماں کے برابر بیٹھی مسلسل رو رہی تھی۔
سکینہ نے آنسو پونچھ کر خط پڑھنا شروع کیا

میری پیاری ماں!
میں جانتا ہوں میں آپ کی امیدوں پر پورا نہیں اتر سکا۔آپ کو شوق تھا کہ میں پڑھ لکھ کر کشمیر کی آزادی میں اپنا کردار نبھاؤں۔آپ کو شوق تھا میں قلم کے ذریعے اور علم کے ذریعے جہاد کروں۔آپ کو شوق تھا کہ میں اپنے ہاتھوں میں پتھر نہ اٹھاؤں بلکہ تعلیم کے زیور سے مالا مال ہو کر آزادی کی راہ میں اپنا کردار نبھاؤں۔بابا جانی اور پیارے بھائی حسن کی شہادت کے بعد آپ مکمل ٹوٹ چکی ہیں۔آپ مجھے انکی طرح اس ظالم بھارتی فوجیوں کے ہاتھوں تشدد سہتے شہید ہوتا نہیں دیکھنا چاہتی تھیں۔میری پیاری ماں میں نے کوشش کی۔میں نے آزادی کی تحریکوں میں حصہ لینا کم کر دیا۔میں نے تعلیم پر توجہ دینی شروع کر دی۔مگر ماں قدرت پہلے ہی سب طے کر چکی تھی۔اگر قدرت لوح محفوظ کشمیر کی ماؤں کے ہاتھ میں دیتی اور کہتی کہ لکھو تو ماں آپ کی طرح ہر کشمیری ماں اپنے بچوں کے لئے آسانی لکھتی اور آزادی لکھتی اور اپنے بچوں کی ہر تکلیف اپنے حصے میں لکھ لیتی۔
ماں تم نے کہا تھا
“قلم سے آگ بجھاؤ کہ جل رہا ہے چمن”

Advertisements
julia rana solicitors london

مگر ماں کونسا چمن؟یہ چمن جس کو غلامی کی زنجیروں میں جکڑ لیا گیا ہے؟یہ چمن جہاں درختوں کے لہلہانے پر غلامی کی زنجیریں ہیں۔جہاں اب شبنم کے قطرے ماتم کناں ہیں۔پرندے زنجیر زنی کر رہے ہیں۔سورج کی کرنیں قید میں چیخ رہی ہیں۔درختوں کے پتے جھڑ کر سبزے پر بیوگی اوڑھا چکے ہیں ۔فضائیں دیوانی ہو کر راستے بھٹک چکی ہیں ۔اور زمین مٹی نگل کر خون کی چادر بچھا چکی ہے.اندھیرا اجالوں کو نگلتا جا رہا ہے۔
ماں اب اس چمن کی تقدیر کیسے قلم سے بدلی جا سکتی ہے ؟ کیسے قلم سے عزت لٹا کر لوٹتی بہنوں کے سروں پر چادر دی جا سکتی ہے؟کیسے قلم سے بیوہ عورتوں کے سہاگ واپس کیے جا سکتے ہیں؟ کیسے خون میں لت پت زخمی جسموں کو قلم سے سکون پہنچایا جا سکتا ہے؟کیسے قلم اس آزادی کی لڑائی میں آنکھیں کھو دینے والوں کو بینائی عطا کر سکتی ہے؟ماں کیسے کرتا میں یہ سب قلم تھام کر؟
میں جانتا ہوں ہتھیار اٹھا کر بھی میں یہ نہیں کر سکتا مگر کم سے کم اس ظلم کو روکنے کی سعی تو کر سکتا تھا۔ظلم سہنے کی بجائے ظلم کے خلاف تو جا سکتا تھا۔ڈر کر سہمنے کی بجائے ڈر کی آنکھوں میں دیکھ کر اس کو خوفزدہ تو کر سکتا تھا۔شاید کسی ایک بہن کی عزت ہی بچا لوں یا کسی ایک کا سہاگ ہی بچا لوں۔
کشمیر میں آزادی کے سورج کی کرنیں پڑنے تک یہاں ہر شخص کو جہاد کرنا ہے۔ظالم فوج کا مقابلہ کرنا ہے۔اپنوں کی لاشیں اٹھا کر بھی اپنی ہمت کو باندھ کر مقابلہ کرنا ہے۔یہاں ڈاکٹر, انجینئر استاد اور سائنسدان پیدا ہو کر کشمیر کی خدمت ابھی نہیں کر سکتے ابھی یہاں آزاد فضا میں سانس لینے کی راہ ہموار کرنی ہے۔ابھی یہاں کے نوجوانوں کو خون کا قطرہ قطرہ اس دھرتی کو پلا کر اس کو آزاد چمن بنانا ہے۔پھر اس چمن میں پیدا ہونے والے بچے ڈاکٹر بھی بنیں گے انجینئر بھی اور سائنسدان بھی۔
مگر اس وقت کے لئے آج مجھے اور مجھ جیسے نوجوانوں کو اپنی جنگ خود لڑنی ہے۔ہماری آزادی کی جنگ ہمیں ہی لڑنی ہے ماں ۔کوئی باہر سے آ کر ہماری اس جنگ میں خون نہیں بہائے گا۔ اور ہم قلم میں سیاہی بھرتے رہے تو بھارتی ظالم اور جابر فوجی اپنی ہوس کی پیاس کو ہماری عزتوں سے بجھاتے رہیں گے ۔اپنی درندگی کو ہمارے لہو کا قطرہ قطرہ پلاتے رہیں گے۔یوں بھی تو ہم نے مر جانا ہے ماں ۔کیوں نہ موت سے بھاگ کر نہیں بلکہ موت کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر اور موت کے وجود میں لرزہ طاری کرتے ہوئے ہم مر جائیں کہ کم سے کم کچھ نہ کرنے کا غم تو نہ ہو۔
ماں اُس دن آٹھ مہینے پہلےمیں کالج سے رزلٹ لے کر گھر ہی آ رہا تھا۔میرے ساتھ احمد, حاشر,عبداللہ اور فرحان بھی تھے۔جب ہمیں فوجیوں نے گھیر لیا۔ماں میں نے پتھر نہیں اٹھایا ہم نے ان پر نہ حملہ کیا نہ ان سے جھگڑا کیا ۔انہوں نے ہمیں کھینچتے ہوئے گالیاں دیتے ہوئے گاڑیوں میں ڈالا اور قید کر لیا۔وہ رات ماں بہت بھیانک تھی اس تاریک کمرے میں پوری رات ہم پانچوں کو مارا گیا۔ذلیل کیا گیا ہمیں ہر طرح سے چوٹ پہنچائی گئی۔ماں اتنی ذلت سہنا آسان نہ تھا ہمارے جسموں پر لگی ضرب برداشت ہو بھی جاتی مگر ماں جو روح کی تذلیل تھی جو انسانیت کی تذلیل تھی جو انسانیت کی حرمت پامال کی گئی  وہ سہنا آسان نہ تھا۔۔وہاں قلم کام نہ آئی ماں , نہ ہی تعلیم , نہ صبر , نہ ہی حوصلہ وہاں ہتھیار کام آئے جب مجاہدین نے اس جگہ حملہ کیا اپنے ساتھیوں کو چھڑوانے آئے تو ہمیں زخمی اور برہنہ حالت میں دیکھ کر ہمیں بھی اپنے ساتھ مجاہدین وہاں سے لے کر اپنے کیمپ میں چلے گئے ۔ماں احمد اس ذلت کو سہہ نہ سکا اس نے ہمارے سامنے پہاڑ سے چھلانگ لگا دی اور میں نے حاشر , عبداللہ اور فرحان نے طے کر لیا کہ ہم ہتھیار اٹھائیں گے۔ہم آج ہتھیار اٹھائیں گے تو کشمیر کی آنے والی نسلیں قلم اٹھا نے کے قابل رہ سکیں  گی۔ہم آج ہتھیار اٹھائیں گے تو کشمیر کا مستقبل یہاں ڈاکٹر, سائنسدان, انجینئر بنتے دیکھے گا۔
ماں میں اس رات جسم پر لگے زخم تمہارے دامن میں چھپ کر بھول بھی جاتا مگر ماں روح کے زخم تمہارا دامن بھی نہ چھپا سکتا نہ سکون پہنچا سکتا۔
کچھ دن پہلے جو کشمیریوں کے احتجاج میں بھارتی فوجیوں نے حملہ کیا اسکے بعد یہ خبر آئی تھی کہ اس میں پچیس بھارتی فوجی بھی مار دیئے گئے وہ ہم نے ہی مارے تھے۔اسی وجہ سے میرے سر کی قیمت پچاس لاکھ لگائی گئی۔میں جانتا ہوں ماں جب تم یہ خط پڑھ رہی ہو گی اس وقت تک یا تو میں بھارتی فوجیوں کی گولی کا نشانہ بن کر مر چکا ہوں گا یا پھانسی چڑھنے جا رہا ہو گا۔کیونکہ ہمارے حوصلے جتنے بھی بلند کیوں نہ ہو مگر ہتھیاروں کی کمی اور بھارتی جارحیت کے آگے ابھی رفتہ رفتہ ہم مرتے جائیں گے۔ابھی مزید قربانی دینی پڑے گی۔ابھی مزید لہو دینا ہو گا۔
مگر آزادی کا سورج دور ضرور ہے مگر جلد اسکی کرنیں اس دھرتی پر پڑیں گی اور اس وقت کہیں آسمان سے ستارا بنا دیکھتا ہوا میرا وجود اپنی اس ایک رات کی اذیت اور ذلت کو بھول جائے گا۔کشمیری بہنوں بیٹوں کے سر سے اتاری گئی چادروں کا غم بھول جاؤں گا۔بابا جانی اور حسن کا خون میں لت پت وجود بھول جاؤں گا۔اس وقت صرف کشمیر کی سر زمین پر ہاتھوں میں قلم اٹھائے دوڑتے بھاگتے بچوں کو دیکھ کر مجھے سکون ہو گا۔
مگر میری پیاری ماں ! اس وقت کے لئے آج کئی نوجوانوں کو جان کی بازی لگانی ہو گی ماں۔یہ غلامی کی زنجیریں, یہ خوف کی فضا, یہ روتی, سسکتی مائیں, بہنیں, بیٹیاں , یہ اجڑے سہاگ, بلکتے بچے ہر لمحہ سانس لینے کو دشوار کرتے جا رہے ہیں۔ماں میں تیرے دامن میں چھپ گیا تو قیامت کے روز یہ کشمیر کی آزادی کے لئے جدو جہد کرتے نوجوان جان اور عزت گنواتے لوگ میرا گریبان پکڑیں گے۔میں بابا سے سر اٹھا کر ملنا چاہتا ہوں ماں ۔میں روز حشر سر بلند کر کہ کہنا چاہتا ہوں کہ میں نے آزادی کے لئے کوشش کی تھی۔میں نے غلامی کی زنجیریں توڑنے کی کوشش کی تھی میں نے ظالموں کو چند لمحوں کے لئے ہی سہی خوف میں مبتلا کیا تھا۔
ماں میں جانتا ہوں تیرے لئے ایک اور جوان موت کا بوجھ سہنا آسان نہیں ہو گا مگر میرے لئے کشمیر کی دھرتی کا قرض چکائے بغیر مرنا تیری اذیت سے ذیادہ اذیت ناک ہے۔ماں مجھے معاف کر دینا میں تیری بات کا مان نہ رکھ سکا۔میں قلم سے نہ لڑ سکا مجھے بندوق سے لڑنا پڑا۔
اپنا خیال رکھنا ماں۔جب یہ لمحہ آئے کہ تم اس خط کو پڑھ رہی ہو اس لمحے یا تو میں دنیا سے رخصت ہو چکا ہونگا یا ہونے جا رہا ہو گا اس وقت بس اتنا کہ دینا کہ تم نے مجھے معاف کیا ماں۔تم نے کشمیر کی دھرتی ماں کی گود میں مجھے سونپ دیا۔
فقط
تیرا نافرمان بچہ ماں۔
برہان حیدر
گھڑی سات بج کر پانچ منٹ بجا چکی تھی ۔خط کی تحریر کی سیاہی سکینہ کے ہاتھوں کو آنسوؤں کے ساتھ بہہ کر رنگ چکی تھی۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply