لاہور بمقابلہ کراچی۔۔۔۔۔۔ ذیشان محمود

سرکاری کاغذات کے مطابق تو ہماری پیدائش کراچی کی ہے مگر لاہور کی بابت یہ شنید تھی  کہ ’’ جنے لہور نئیں ویکھیا او جمیا نئیں ‘‘۔ خیر سنا ہے کہ ہم بچپن میں لاہور دیکھ چکے ہیں مگر ہمیں نہیں یاد پڑتا کہ لاہور کی کوئی یاد ہماری یاداشت کا حصہ ہو۔
پس ہم نے اپنا مصمم ارادہ کر کے لاہور کی جانب رختِ سفر باندھ لیا۔ پاک ریلوے کی مہربانی سے اللہ اللہ کر کے لاہور اسٹیشن پر پہنچے اور سرزمینِ لاہور پر قدم رنجہ ہوتے ہوئے اپنے پاکستان میں پیدا ہونے کے حق بجانب ہوئے۔لاہور میں مختصر قیام کو بھر پور انداز میں گزارا۔ کراچی کے ہیں تو اپنے شہر سے ہر لحاظ میں تقابلی جائزہ لیتے رہے۔ بے شک بد امنی سے کراچی کی فضا آلودہ رہی مگر سکون کا سانس پھر بھی کراچی آ کے ہی نصیب ہوا کیوں کہ یہ نہ صرف اپنا کوچہ یہاں ہے بلکہ کوئے جاناں بھی تو یہاں ہی ہے۔ دیارِ غیر کے مقابل اپنا دیس ہی پیارا ہوتا ہے۔ کراچی ریلوے اسٹیشن کی طرح لاہور کا ریلوے اسٹیشن بھی انگریزوں کی اسیری کے دن  کی یاد تازہ کرتا ہے۔ ہم نے پنجاب کے چند دیگر شہر بھی دیکھے ہیں مگر سرسری نگاہ سے جائزہ لیا تو یہ نتیجہ اخذ کیا کہ خادم ِ اعلیٰ کی ساری توجہ لاہور پر ہی مرکوزنظر آتی ہے۔
لاہور ایک پیارا اور تاریخی شہر ہونے کے  لحاظ سے اہمیت کا تو حامل ہے مگر کراچی بھی کراچی ہی ہے۔تاریخی عمارات کی گو مکمل نگرانی نہیں مگر کچھ کچھ نظر آتی ہے۔ اور اس رہی سہی کسر کی قلعی ہمارے میڈیا اور تجزیہ کاروں نے اورنج ٹرین کے روٹ کے بخیے  ادھیڑ ادھیڑ کر رکھ دیئے۔ مینارِ پاکستان کے سنگ مر مر کا چِٹّا سفید چہرہ ٹریفک کا دھواں سیاہ کرتا جا رہا ہے۔ انڈیا کے محکمہ آثار قدیمہ نے تاج محل جیسے قدیمی ورثہ اوردیگر ثقافت کی باقیات کو محفوظ کرنے کے لئے ان کے گرد و نواح میں بیٹری سے چلنے والی بسیں اور رکشے چلائے ہیں۔ مگر یہاں تو خود شہنشاہِ لاہور نے اپنی میٹرو بس کی دریافت کی ایک نشانی مینارِ  پاکستان کے بالمقابل لگا دی شائد کہ مینار پاکستان اور شاہی قلعہ کی ہمسائیگی اسے بھی کوئی تاریخی حیثیت دلانے میں کامیاب ہوجائے۔ میٹرو بس سے بھی اسی قسم کے دھویں کا اخراج ہوتا ہے اس بات کا بخوبی اندازہ ہمیں راوی پل پر میٹرو بس کیساتھ موٹر سائیکل ریس میں اس وقت ہواجب یہ امپورٹڈ بس پل کی آخری حد میں ہمیں ٹریفک میں پھنسا دیکھ کر چپکے سے فتح کا تمغہ لئے اپنے پنجرے میں داخل ہو گئی تھی۔ مینارِ پاکستان کے مقابل مزارِ قائد اپنی سفیدی بچانے میں ابھی تک کامیاب نظر آتا ہے۔ اور ویسے بھی دسمبر کے مہینے میں گلابی روشنی میں نہایا مینارِپاکستان پاکستان میں بریسٹ کینسر کی زیادتی یا انتظامیہ کی نااہلی اور سستی کا اظہار کر رہا تھا۔
شاہی قلعہ کی بیرونی دیواریں ایک بار پھر pollution سے پسپاہونے کو تیار ہیں اور اگر اسی طرح کمزوری کا شکار رہیں تو عین ممکن ہے کہ آئندہ کوئی بر سر اقتدارخادمِ اعلیٰ اس سے قلعہ کے درجہ سے ہی واپس لے لیں کہ میاں اب تم اس عہدے کے اہل نہیں۔
خشک راوی دیکھ کر کراچی کا ٹھاٹھیں  مارتا ہوا سمندر یاد آگیا ۔ کم از کم کراچی میں ہوتے تو کھلے پانی سے پاؤں ہی دھو لیتے۔واہگہ بارڈر پر پریڈ دیکھ کر بہت اچھا لگا۔
کھانے کا (صرف ناشتہ کہنا بہتر ہے)معیار تو اعلیٰ ہے مگر بریانی، حلیم ، نہاری میں کراچی کا کوئی مقابلہ نہیں( بلکہ ہمارے خیال میں ان چیزوں میں لاہور تو مقابلہ میں شامل ہی نہیں ہو سکا)۔البتہ جھنگ میں ایک مرتبہ لاری اڈے کے ٹھیلے پر ہی ’’ کورنگی کی بریانی‘‘ کھائی تھی اور پنجاب میں رہتے ہوئے کراچی کا ذائقہ مل گیاتھا۔اور ویسے بھی جملہ معترضہ کے طور پر بتاتا جاؤں کہ کسی نے لاہور جاتے سمے یہ بات کانوں سے نکال دی تھی کہ میاں بڑے گوشت سے پرہیز رکھنا اور حتیٰ الوسع گوشت سے ہی۔ اس لئے ہم نے لاہور میں ویجیٹیرین ہی بنے رہنے میں اپنی عافیت جانی۔
پارکس کی فراوانی سے خوشی ہوئی اور اس بات سے بھی کہ ان پارکس میں لاہوریوں کے ان دیسی لاہوری کھابوں کو ہضم کرنے کے سامان کئے گئے ہیں۔ اور لاہوریوں کی بڑی تعداد ان پارکس میں آزادانہ گھومتی نظر آئی۔ اس لفظ آزادانہ کی تصریح یہ ہے کہ کانوں کی ٹوٹیوں سے منسلک ہونیوالے تمام آلات ہاتھ میں لے کر گھوم رہے تھے۔ جبکہ کراچی میں پارک سڑک یا کسی بھی جگہ اس آزادی سے کانوں کی تفریح کے سامان میسر نہیں ہوسکتے۔ہمارے شہر میں اس طرح اپنی امارت کے اظہار سے یا تو آپ سلامت گھر واپس نہیں پہنچ سکتے یا آپ کا سامان۔
ٹریفک کا اژدہام کراچی کی طرح  ہی   ہے۔لیکن خادمِ اعلیٰ کی سڑکوں سے محبت میں یہ تفاوت نظر آیا کہ بڑی اور پوش شاہراؤ ں کی وسعت اور سجاوٹ دیکھ کر اس بات کا شدید احساس ہوا کہ دیگر چھوٹی سڑکوںکا کیا قصور؟؟؟ پھر اچانک یہ خیال آیا کہ بڑی شاہراؤں کے مسافر ’’بڑے لوگ‘‘ ہیں اور یہ بڑے لوگ ہر پانچ سال بعد ایک دفعہ ہی ان چھوٹی شاہراؤں پر تشریف لے جاکر وہ دھکے کھاتے ہیں جو عوام کی قسمت میں اگلے پانچ سال بھی لکھے جاتے ہیں۔
وقت کی کمی کے باعث پنجاب یونیورسٹی ، قائد اعظم لائبریری ،لبرٹی اور انار کلی کو سرسری طور پر دیکھ سکے ۔ایک ضمنی انتخابات کی تیاری سے اس بات کا اندازا ہوا کہ PTIنے واقعی PMLN کو ٹف ٹائم دیا ہے۔کراچی اور لاہور میں سیاسی ہلچل برابر نظر آئی۔ پجارو، سوزوکی اور دیگر اقسام کی گاڑیوں کی چھتوں پر بڑے اسپیکرز نہایت احتیاط سے لگے ہوئے تھے مگر ان میں سے ملی نغموں کے بجائے نصیبو لال کی آواز میں وہ گانے پھوٹ رہے تھے جو ان مختصر ریلی میں شامل نوجوانوں کے ہر طرح کے جذبوں کی تسکین کے سامان مہیا کر رہے تھے۔ (ہاں سیاسی جذبے شاید  نعروں سے تسکین پا رہے ہوں)۔
دو دن کے اس مختصر قیام کے دوران اتنی ہی آبزرویشن ہو سکی ۔ اگر کوئی امر باعثِ تکلیف لگا ہو تو زندہ دلانِ لاہور ایسی باتوں پر توجہ نہیں دیتے۔ اور ویسے بھی بڑے بڑے شہروں میں چھوٹی چھوٹی باتیں ہوتی رہتی ہیں۔
P.S :کراچی سے لاہور آکر شاپنگ کرنے والوں کو یہ فائدہ کی بات پہنچاناضروری ہے کہ خریداری کے لئے واپس کراچی ہی چلے جائیں تو بہتر اور ان کے لیے بھی اور ان کے بجٹ کے لیے بھی۔

Facebook Comments

ذیشان محمود
طالب علم اور ایک عام قاری

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply