جپھی۔۔ربیعہ سلیم مرزا

ہوش آتے ہی قلقاریوں بھری نرماہٹ کا احساس ہوا۔آنکھ کھو لی تو دو نرم، سفید، روئی جیسے ہاتھ میرا چہرہ چھو رہے تھے۔بےساختہ اسکے ننھے ہاتھوں کو پکڑ کر چوم لیا۔ پیارآیا تو دونوں ہاتھوں میں اٹھا کر گال بھی چومے۔مزید لاڈ آنے پر اسے گد گدایا بھی۔
یہ عائشہ تھی ۔۔
میں پہروں بیٹھے اسے تکتی رہتی۔ لمبی لمبی پلکیں ، گال کا ڈمپل، چہرے پہ بےتحاشا  معصومیت اور جادوئی کشش تو مجھے پسند تھی ۔۔
بے اختیار اللہ کا شکر ادا کیا۔۔

تین بڑے بچوں اور عائشہ کی پیدائش کے درمیان بارہ سال تھے، ڈاکٹر تو کب کا جواب دے چکی تھی کہ اب یہاں کوئی نہیں کوئی نہیں آئے گا ۔
“شکر کریں  آپ کی فیملی مکمل ہو چکی ہے۔مزید اولاد کی خواہش تو نہیں ؟۔۔ میں بے اختیار ہاں میں سر ہلاتی رہی ۔
ہم میاں بیوی اکثر اسکی محبت میں سرشار ہو کے سوچتے،”پھر یہ کہاں سے آگئی “؟۔ واری واری جاتے، مگر وجہ سمجھ نہ آتی۔ پورا خاندان ہی عائشہ پہ فریفتہ تھا۔
میری امی اکثر کہتیں۔۔اس کا خیال رکھنا، یہ پروردگار کا تحفہ ہے۔
اسکی نوازشیں وہی جا نتا ہے۔

تین سال بعد ،آج کے دن ،جب امی مجھے ہمیشہ کیلئے چھوڑ کر جارہی تھیں، تب مجھے اس نوازش کی رمز سمجھ آئی ۔
اس دن میں نے روتے ہوئے بارہا عائشہ کی پکار سنی۔
وہ ماما ، ماما پکارتی مجھ سے لپٹتی رہی ۔
میں سمجھ گئی کہ مجھے پھنسایا گیا ہے میں جو اپنی ماں کے جانے کا دکھ سہہ نہیں پاتی اگر عائشہ نہ ہوتی۔

میری جان اٹک رہی تھی، جانے والی کودیکھوں  کہ پکارنے والی کو۔ بےبسی اور دکھ الجھ کر رہ گئے تب میرے دل پہ عائشہ کے ہونے کی وجہ الہام کی طرح اتری۔

آج میری ماں کی چوتھی برسی ہے۔نظروں کے سامنے چار سال پہلے کا منظر ہے ۔میں رو رہی ہوں ،اچانک ایک چھوٹی سی جپھی آتی ہے، مجھ سے لپٹ جاتی ہے۔
ماما جی،ماما جی۔۔۔

رُکی ہوئی سانس دو لمحوں کے لیے چل پڑتی ہے۔
اس دن سے اب تک میری روح وہاں ہے میری ماں کے ساتھ اور میرا دل یہاں ہے، میری عائشہ کے ساتھ، جو میری ماں کی طرح دھڑکتا ہے ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

میں آج بھی عائشہ کو جپھی لگا کر اپنی ماں کی دھڑکنیں سن لیتی ہوں ۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply