ادب نامہ    ( صفحہ نمبر 94 )

روبرو مرزا غالب اور ستیہ پال آنند

میں عدم سے بھی پرے ہوں ورنہ غافل بارہا میری آہ ِ آتشیں سے بال ِ عنقا جل گیا ستیہ پال آنند بندہ پرور، مجھ سے گر شاکی نہ ہو ں تو یہ کہوں کیا ضر ورت تھی غلو کی←  مزید پڑھیے

راحت اندوری: مزاحمتی لہجے کا شاعر۔۔ڈاکٹر اشرف لون

اقبال ہو ، فیض ، فراز یا جالب سبھی نے اپنی انقلابی اور مزاحمتی شاعری سے عوام و خواص کے دلوں کو گرمایا اور ان میں جوش پیدا کیا۔ قوم کو خواب غفلت سے جگانے میں ان شعرا کی خدمات←  مزید پڑھیے

حقیقت۔۔رؤف الحسن

یونیورسٹی میں اکتوبر کے دوسرے ہفتے کی ایک خاموش شام اتر رہی تھی۔ سڑک کنارے بکھرے خشک پتے خزاں کی نوید سنا رہے تھے۔ اور ہم دونوں قدم سے قدم ملائے, خاموشی سے چلتے جا رہے تھے۔ یہ یونیورسٹی میں←  مزید پڑھیے

گھروندا ریت کا(قسط26)۔۔۔سلمیٰ اعوان

رحمان کے دونوں بچے چھٹیاں گذارنے گھر آرہے تھے۔رات کو کھانا کھاتے ہوئے اُس نے کہا۔ ”بی ہومز کی پرنسپل کا خط آج آفس آیا تھا۔بچے درگا پُوجا کی چھٹیاں گذارنے کل دو بجے آرہے ہیں۔لیکن ایک مسئلہ درمیان میں←  مزید پڑھیے

روبرو مرزا غالب اور ستیہ پال آنند

لیتا ہوں مکتب ِ غم ِدل سے سبق ہنوز لیکن یہی کہ ’رفت‘ گیا ، اور ’بود‘ تھا ۔۔۔۔۔ ستیہ پال آنند لیتے ہیں ـ’’مکتب غم ِ دل‘‘ سے، حضور ، آپ کیا کیا سبق جو نکبت و ادبار دے←  مزید پڑھیے

فیصل عرفان پوٹھوہاری زبان کا محسن۔۔۔ڈاکٹرزاہدحسن چغتائی

خود رو پودے اور درخت انسانی زندگی کی بقا اور شفا کی علامت بن کر عرف عام میں جڑی بوٹیوں کا درجہ حاصل کر لیتے ہیں،ان کے مقابلے میں کاشت کاری کے اصولوں کے مطابق اگائے گئے پودے و درخت←  مزید پڑھیے

روبرو مرزا غالب اور ستیہ پال آنند

آتش و آب و باد و خاک نے لی وضع ِ سوز و نم و رم و آرام ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (اس نظم کو رن آن لائنز کے طریق کار سے پڑھا جائے) ستیہ پال آنند ٓگیارہ الفاظ میں ، جناب، یہاں←  مزید پڑھیے

بلوچستان۔۔محسن علی

میں پہاڑوں و دریاؤں  پر مشتمل خوبصورت انسانوں کی سرزمین قدرتی دولت سے مالا مال کیا جاتا ہے ستر سال میرا استحصال میرے مٹی کے نئے خواب آنکھ کُھلنے سے پہلے مرجاتے ہیں زندگی مل جائے تو مشقت ہی تو←  مزید پڑھیے

اب تم میری بیٹی نہیں رہی۔۔ حبیب شیخ

’میں تمہیں کافی دیر سے دیکھ رہی ہوں۔ تم تہہ خانے میں رات گئے اندھیرے میں گڑگڑا کر کیا دعا مانگ رہے ہو؟ تم تو نماز ہی شاذ و نادر پڑھتے ہو۔‘ خالدہ سے رہا نہ گیا۔ مبارک نے اپنی←  مزید پڑھیے

دہلی سے آئی اک اجنبی چٹھی کا جواب۔۔۔رابعہ الرَبّاء

“پیاری دشمن” سچ ہی کہتے ہو “پیاری دشمن”، دشمن بہت پیارے ہو تے ہیں۔ اور ہم انہیں دشمن کہتے ہی اس لئے ہیں کہ ہم انہیں بھو لنا نہیں چاہتے۔ تو میرے پیارے دشمن میرا سلام قبول کرو۔۔۔ تم کہتے←  مزید پڑھیے

روبرو مرزا غالب اور ستیہ پال آنند

ربط یک شیرازہ ء و حشت ہیں اجزائے بہار سبزہ بیگانہ، صبا آوارہ، گل نا آشنا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ستیہ پال آنند کیسی ہے شیرازہ بندی اس کتاب ِ زیست کی چَندی چِندی سب ورق اس کے ہیں بُراں، آختہ ہیں اگر←  مزید پڑھیے

گھروندا ریت کا(قسط25)۔۔۔سلمیٰ اعوان

چیزوں میں جاذبیت اور کشش شایداس وقت تک رہتی ہے۔جب تک کہ اُنکا حصول دسترس سے باہر ہوتا ہے۔پر جونہی وہ مل جائیں۔روزمرہ زندگی میں اُنکا عمل دخل شروع ہوجائے۔توپھر اُن کی کشش ختم ہوجاتی ہے۔اہمیت کم ہو جاتی ہے۔سب←  مزید پڑھیے

پیاری دشمن (لاہور کی اس دوشیزا کے نام ایک خط)۔۔شعیب شاہد

پیاری دشمن! برسوں ہوئے تمہیں بچھڑے ہوئے۔ اتنے برسوں میں کبھی تمہیں خط نہ لکھ سکا۔ کیا لکھتا؟ قلم کو جب بھی سیاہی میں ڈبوتا ہوں، تو اس کو لہو میں ڈوبا ہوا ہی پاتا ہوں۔ آج ہمت کر کے←  مزید پڑھیے

روبرو مرزا غالب اور ستیہ پال آنند

قطرے میں دجلہ دکھائی نہ دے اور جزو میں کُل کھیل لڑکوں کا ہوا، دیدہ ٔ بینا نہ ہو ا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ستیہ پال آنند میں نے دجلہ تو نہیں دیکھا، حضور ِ انور وسط مشرق میں کہیں ایک ندی ہے←  مزید پڑھیے

روبرو مرزا غالب اور ستیہ پال آنند

جہاں میں ہوں غم و شادی بہم ہمیں کیا کام دیا ہے ہم کو خدا نے وہ دل کہ شاد نہیں ۔۔۔۔۔۔ ستیہ پال آنند نہ جانے آج تک میں کیوں سمجھ نہیں پایا یہ اک روایتی تفصیل اس حوالے←  مزید پڑھیے

دھندے والی( تیسری,آخری قسط) ۔۔عامر حسینی

تمہارے گھر کے سامنے گاڑی میں۔۔۔ میں نے جلدی جلدی کپڑے بدلے اور نیچے پہنچا تو سلیٹی کلر کی نئی ہنڈا گاڑی میں سلیم اوڈھ بیٹھا ہوا تھا۔وہ مجھے دیکھ کر گاڑی سے اتر آیا۔بہت دبلا پتلا نظر آرہا تھا۔میں←  مزید پڑھیے

روبرو مرزا غالب اور ستیہ پال آنند

وضاحتی نوٹ! “روبرو غالب” کے تیس سے کچھ اوپر تعداد میں مکالماتی “نظم نا مے” لکھنے کے بعد خدا جانے کیوں یہ شوق چرایا، کہ اپنے استاد محترم کو دو صدیوں کے زمان کی اور امریکہ  /ہندوستان کے مکان کی←  مزید پڑھیے

دھندے والی(قسط 2)۔۔عامر حسینی

ایک نہایت ہی دلکش آواز کے ساتھ اندر سے جواب آیا میں نے دروازے کو آہستہ سے دھکا دیا تو دروازہ کھل گیا یہ سجا سجایا کمرہ تھا – دروازے کے دائیں جانب سامنے ایک بڑی سی مسہری پڑی تھی←  مزید پڑھیے

روبرو مرزا غالب اور ستیہ پال آنند

ہیں زوال آمادہ اجزا آفرینش کے تمام مہر گردوں ہے چراغ ِ رہگذر ِ باد یاں ۰۰۰۰۰۰۰۰ ستیہ پال آنند پیشتر اس کےکہ مَیں تشریح میں کچھ بھی کہوں استعارہ اور پیکر کے لیے بھرپور داد مہر گردوں اور چراغ←  مزید پڑھیے

گیٹ نمبر نو کے چوکیدار اشرف نذیر کا اپنی بیٹی ثریا کے نام خط ۔

میری جان ، 1993 میں ڈبل میتھس فزکس میں بی ایس سی کرنے کے باوجود مجھے کوئی ڈھنگ کی نوکری نہ ملی تو یہاں سکیورٹی اسسٹنٹ کے طور پر ملازمت شروع کر دی کیونکہ تمھاری ماں رقیہ کی چھاتیوں میں←  مزید پڑھیے