چھت کی الماری سے میں نے بڑا سا وہ بیگ نیچے اتارا جو دادا سے مجھے ورثے میں ملا تھا۔یہ اتنا روشن اور رنگیں تھا گویا دھنک کا کوئی دریا اس سےپھوٹ رہا ہو۔میں نے اسے کاندھے پر اٹھایا اور← مزید پڑھیے
مرد تو کون ہے ؟ اے مرد آخر تو کون ہے ؟ ابن صفی مرد مومن بندہ پرور نور خدا پیغمبر و انبیا یا پھر وہ جو دکھتا ہے۔۔ کرّہ عرض پہ چھایا زمیں پہ چلتا پھرتا انسان یا پھر← مزید پڑھیے
“ستیہ پال کی ساٹھ نظمیں “کچھ برس پہلے ڈاکٹر آصف فرخی کے ادارے ( کراچی) سے سے شائع ہوئی تھی۔ یہ نظمیں ڈاکٹر فاطمہ حسن نے منتخب کی تھیں۔اُن کا تحریر کردہ دیباچہ واقعی ایک ایسی اہم تحریر ہے، جسے← مزید پڑھیے
موسم تو ستم ڈھانے پر اُترا ہوا تھا۔ اِس شاندار کالج کے لمبے چوڑ ے سرسبزوشاداب ہرسُو طراوت اور تازگی کافرحت آگیں احساس بخشتے لان و موسم کے حُسن اور رعنائی کو اور قاتل بنارہے تھے۔ پچھمی ہوائیں سرو کے← مزید پڑھیے
آذربائیجان کے مقامی لوگ پاکستانیوں کی بہت عزت کرتے ہیں ۔ اگر آپ یہ بتائیں کہ آپ پاکستان سے آئے ہیں تو ضرور پیار بھرا ایک آدھ فقرہ بولنے کی کوشش کریں گے۔ لیکن دیکھنے کی بات یہ ہے کہ← مزید پڑھیے
عظیم الشان محل میں چاروں طرف رنگینی بکھری ہوئی تھی۔ یوں لگتا تھا جیسے وہاں موجود ہر شخص میری خوشی کے لئے ہی معمور کر دیا گیا تھا۔ میں ایک بڑی میز کے سامنے خوش پوش لباس میں ملبوس بیٹھا← مزید پڑھیے
کبھی آپ نے سوچا ہے کہ چلتے ہوئے ہم کہاں آ گئے ؟ یہ نئے ہندوستان کی کتھا ہے جہاں فرقہ واریت کے زہریلے شعلے نئی تہذیب کو جنم دے رہے ہیں ،آپ سے پڑھنے کی گزارش ہے۔۔ “How many← مزید پڑھیے
یہ 1991 کی بات ہے تھانہ سہجہ میں نے بہت محنت کی جس کی وجہ سے ہر میٹنگ میں SSP رحیم یار خان اور DIG بہاولپور رینج کی طرف سے ہزاروں روپے نقد انعام اور تعریفی اسناد ملا کرتی تھیں۔اس← مزید پڑھیے
فارسی کا ایک خوب صورت شعر بہت مشہور اور مقبول ہے۔ ضرب المَثَل کی حیثیت اختیار کر لینے والا یہ دل نشیں شعر گزشتہ تین چار صدیوں میں کسی نہ کسی مناسبت سے کئی قدیم و جدید صوفیوں، عالموں، شاعروں← مزید پڑھیے
ایک لڑکا سر کے بل ایسے کھڑا ہے نرم گیلی ریت پر جیسے اسے آکاش کی اونچائی میں پانی سمندر کی اتھاہ گہرائی میں آکاش ساحل پر کھڑےلوگوں کے جمگھٹ سب کو اُلٹا دیکھنا ہے۔ آتے جاتے لوگ اس کے← مزید پڑھیے
آج وہ دیوار گرا دی ہاں ! میں نے آخر ، وہ دیوار ہی گرا دی جو حصارتھی میرا اک طویل فصیل اونچی میرے شانوں سے قد آور ۔۔۔مجھے قید کیے جس میں مَیں ازل سے چُنی ہوئی تھی جہاں← مزید پڑھیے
اے حَسَن کوزہ گر کےReductio ad absurdum طریق کار سے ن۔ م راشد کی چار نظموں کے سلسلے کو سمجھنے کی ایک شعری کوشش۔(راشد کی نیک روح سے معذرت کے ساتھ) ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اے’’ حَسن کوزہ گر‘‘ کون ہے تُو؟ بتا← مزید پڑھیے
روزہ خوری کے بھی اصول ہونے چاہئیں۔ چھ سالہ عائشہ میرے سامنے بیٹھی ڈبو بھگو کر بسکٹ کھارہی تھی، میں نے یونہی پوچھ لیا “آج روزہ نہیں رکھا “؟ اس نے مجھے حیرت سے اور ہاتھ میں پکڑے بسکٹ کو← مزید پڑھیے
یہ ایک ایسا معاشرہ ہے جو گنہگار کو ڈھکے چھپے نہیں رہنے دیتا۔ اس معاشرے کے مذہب کا اصول تو یہ ہے کہ دوسرے کے عیوب اور برائیوں کی پردہ پوشی کی جائے لیکن ان لوگوں کی مذہبیت اس رواداری← مزید پڑھیے
”مجھے تو یہ سمجھ نہیں آتی کہ اگر میں پیدا نہ ہوتی تو خدا کی اِ س وسیع کائنات میں کیا کمی رہ جاتی؟“ یہ دُھند اورکُہر میں ڈوبی ہوئی ایک صُبح تھی اور وہ سکول جا رہی تھی۔ اُ← مزید پڑھیے
شاہ جی کو ہر بزرگ کی طرح ایک برخوردار چاہیے تھا جو ان کی بیک گراؤنڈ سے واقف ہو اور ان کی کہانیاں شوق اور دلچسپی سے سنے۔ ہم ان کے سارے کولیگز کو اپنے درجنوں فوجی انکلز کی معرفت ← مزید پڑھیے
وینٹی لیٹر پر مشکل سے سانسوں کا تسلسل برقرار رکھتے ہوئے شخص کی آنکھیں آہستہ سے کھلیں مگر کمزوری کا ایسا حملہ ہوا کہ اس نے زبردستی زور سے آنکھیں بھینچ لیں۔ اکھڑتی سانسوں کے ساتھ سب سے آسان حل← مزید پڑھیے
آذر بائیجان کاکیشیاممالک میں سے ایک ہے جو یورپ اور ایشیا کے سنگم پر واقع ہے ۔ کاکیشیا کے باقی ممالک میں آرمینیا، جیورجیا، اور یوکرین شامل ہیں۔ کاکیشیا در اصل ایشیا اور یورپ کے درمیان پہاڑی سلسلے کا نام← مزید پڑھیے
پائیدار یاری اور دوستی تو طالب علمی کے زمانے کی ہوتی ہے، نہ کوئی غرض نہ مفاد بس ہم آہنگی، یکجا رہنے کی خواہش۔ ہم طالب علمی کا دور گزارنے کے بعد لاہور سے پنڈی آ گئے ۔ ہارلے سٹریٹ← مزید پڑھیے
۱۹۵۶ کے لگ بھگ میں بھی کچھ برسوں کے لیے جدیدیت کے ریلے میں بہہ گیا تھا ، میں نے بھی ایک نظم لکھی تھی ۔ میں نے جب اسے کناٹ پلاس میں کافی ہاؤس میں پڑھا، تو سریندر پرکاش← مزید پڑھیے