ڈاکٹر حمیرا اشفاق آج کل اسلامیہ انٹر نیشنل یونیورسٹی ، اسلام آباد کے شعبہ اردو کی سربراہ کے طور پر فرائض ادا کر رہی ہیں ۔ میں انہیں تب سے جانتی ہوں جب ہائی سکول کی کلاس ششم میں میرا← مزید پڑھیے
قفس میں ہوں گر اچھا بھی نہ جانیں میرے شیون کو مرا ہونا برا کیا ہے نوا سنجان ِ گلشن کو ۔۔۔۔۔ ستیہ پال آنند جو اک تصویر سی بنتی ہے، قبلہ، وہ فقط یہ ہے ۱) کہ مجبوری کا← مزید پڑھیے
موسمی نقادوں اور مبصروں نے عظیم، اہم، رجحان ساز، شاندار اور عمدہ ناول جیسی اصطلاحات کو ان کے بے موقع و بے محل کثرتِ استعمال سے بے وقعت اور حقیر کر دیا ہے۔ قارئین ان صاحبان کے جھوٹے تبصروں اور← مزید پڑھیے
آمد ِ سیلاب ِ طوفان ِ ِ صدائے آب ہے نقش ِ ِ پا جو کان میں رکھتا ہےانگلی جادہ ہے ستیہ پال آنند بندہ پرور، یہ کرم فرمائیں اس ناچیز پر عندیہ اس شعر کاکیا ہے ، کوئی لب← مزید پڑھیے
نور نے اپنی ماں کو ایک خط لکھا پھر اسے پھاڑ دیا۔ اگلی رات اپنی ماں کو دوسرا خط لکھا پھر اسے بھی پھاڑ دیا۔ نور نے تیسری رات اپنی ماں کو پھر ایک خط لکھا اور اسے بھی پرزے← مزید پڑھیے
دل و جگر میں پُر افشاں جو ایک موجہ ء خوں ہے ہم اپنے زعم میں سمجھے ہوئے تھے اس کو دم آگے ستیہ پال آنند حضور، اس شعر کی تصویر یہ بنتی ہے ذہنوں میں کہ متموج ہے اک← مزید پڑھیے
ہوا میں خوشبو کس سفرکی ہے ہوامیں خوشبو کس سفر کی ہے ہواکا ڈھنگ بدلابدلا سا ہے ہوا کے سنگ حالات کے رقص قہقہے لگاتے ہیں جب پیڑوں کی زنجیریں در و دیوار سےہمکلام ہوتی ہیں درو دیوار اونچے محلوں← مزید پڑھیے
یہ جو بوجھ مجھ سے اٹھوائے جاتے ہیں کیا یہ سب میرے ہیں؟ کیایہ سب انسانوں کی کہانیاں جو عبرت کا نشان تھیں میری ہیں؟ یا وہ سب اصلاحی کہانیاں، وہ میری تھیں؟ وہ سب قصے میرے حوالے کیوں کیے← مزید پڑھیے
تغافل دوست ہوں میرا دماغ ِ عجز عالی ہے اگر پہلو تہی کیجے تو جا میری بھی خالی ہے ستیہ پال آنند حضور، اب کیا کہوں میں آپ کے اس ’’عجز‘‘ کے حق میں کہ ’’فارس‘‘ کی زباں میں آپ← مزید پڑھیے
آمد ِ خط سے ہو ا ہے سر د جو بازار ِ دوست دود ِ شمع کشتہ تھا شاید خط ِ رخسار ِ دوست ستیہ پال آنند بندہ پرور، آپ سے پوچھوں ، بصد عجز و نیاز کیا نہیں اس← مزید پڑھیے
ماں کوئی گھنٹہ بھر سے وقفے وقفے سے اُسے آوازیں دئیے جا رہی تھی۔ ”اُٹھ نا پُتر۔ تیرے انتظار میں کب سے بیٹھی ہوں تو ناشتہ کرے تو کسی اور کام میں لگوں۔ ابھی مجھے ہانڈی لینے بازار بھی جانا← مزید پڑھیے
کف ِ سیلاب باقی ہے برنگ ِپنبہ روزن میں ٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌ ستیہ پال آنند یقیناً کچھ سبب تو ہے ،حضور اس گریہ زاری کا کہ یہ مضمون، یعنی خانہ ویرانی پہ جزع فزع کئی اشعار میں ملتی ہے گویا اک حقیقت← مزید پڑھیے
ہاتھوں کی کٹوری بہتے پانی کے نیچے رکھی تو قسمت والی زندگی کی سبھی لکیریں مٹیالی لگنے لگیں ۔ ایسے لگا جیسے پانی چہرہ چھوئے بناپلٹ گیا ہو ۔ بس آنکھیں ہی تو بھیگی ہیں ۔۔ ہسپتال سے چارسال بعد← مزید پڑھیے
فنا تعلیمِ درسِ ِ بےخودی ہوں اس زمانے سے کہ مجنوں لام الِف لکھتا تھا دیوار ِ دبستاں پر ۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ستیہ پال آنند ’’فنا تعلیم ، درس ِ بے خودی‘‘ کو غور سے دیکھیں توسمجھیں گے کہ یہ پہلی← مزید پڑھیے
دوپہر اِس قدر ہنگامہ خیز ہوگی۔ اُس کے گمان میں بھی ایسا ہونے کا کوئی امکان دُور دُور تک نہ تھا۔ اُس کا طوفانی انداز اُسے اندر باہر سے ہلاکر رکھ دے گا۔ یہ تو اُس کے تصّورمیں بھی نہ← مزید پڑھیے
نیلے شلوار قمیض میں ملبوس درمیانے قد اور موٹے خد و خال کا حامل امجد کافی عرصے سے موقع کی تلاش میں عتیق صدیقی کی طرف دیکھ رہا تھا لیکن وہ اخبار پڑھنے میں گم تھا۔ ’کیا بات ہے امجد؟ ← مزید پڑھیے
”عورت ہونا، کہانیاں لکھنا، اختلاف کرنا , یہ ہمارے معاشرے کی تین خرابیاں ہیں۔ اور میں ان کا مجموعہ ہوں۔“ (زاہدہ حنا) افسانہ نگار، ناول نگار، مضمون نگار اور کالم نگار زاہدہ حنا کی نگارشات عصری حسیت کی آئینہ دار← مزید پڑھیے
کسی خشک لکڑی کےکیڑے نےکرمِ کتابی سے پوچھا تمہاری نظر میں یہ سارے شجر کتنے عرصے میں سوُکھیں گے؟ کتنی بہاریں ابھی میرے رستے کو روکھے کھڑی ہیں؟ وہ رستے جہاں سے جہنم کا ساقی مجھے آملے گا؟ وہ کرمِ← مزید پڑھیے
عرض نازِ شوخی ِِدنداں برائے خندہ ہے دعوی ٗ جمعیت ِ احباب جائے خندہ ہے ستیہ پال آ نند یہ اضافت کی توالی؟ اور مطلع میں؟ حضور گویا اس خامی کی غایت پیشگی مطلوب ہو کیا کہیں گے،بندہ پر ور،← مزید پڑھیے
نہ جانوں کیوں کہ مٹے داغ طعن ِ بد عہدی تجھے کہ آئینہ بھی ورطہ ٗ ملامت ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ستیہ پال آنند حضور، مجھ کو تو جو کچھ سمجھ میں آیا ہے اگر کہیں تو میں منجملہ اس کو پیش← مزید پڑھیے