آتش و آب و باد و خاک نے لی
وضع ِ سوز و نم و رم و آرام
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(اس نظم کو رن آن لائنز کے طریق کار سے پڑھا جائے)
ستیہ پال آنند
ٓگیارہ الفاظ میں ، جناب، یہاں
آپ نے قدرتی عناصر کی
پوری تاریخ جلوہ گر کر دی
آتش و آب و باد و خاک کاکام
سب کو سمجھا دیا سلیقے سے
مرزا غالب
شکر یہ، اے عزیزی ، ستیہ پال
ہے یہ الفاظ کا شمار درست
گیارہ الفاظ کے معانی میں
مستقل، دائمی، معانی ہیں
جن کی تعداد کا شمار نہیں
مجھ کو لگتا نہیں، تمہاری بساط
ان کے میزانیہ کے قابل ہو
ستیہ پا ل آنند
ہو اجازت اگر مجھے، استاد
ایک کوشش تومیرا ذمہ ہے
مرزا غالب
خوب سے خوب تر سے خوب ترین
تم نے طے کی ہیں منزلیں ساری
چلتے جاؤ کہ دشت ِ امکاں میں
ایک نقش ِ قدم تو باقی ہے
ستیہ پال آنند
آتش و آب و باد و خاک ہیں کیا؟
خود سے ملتا ہے صرف ایک جواب
جسمیت، مادیت، خس و خاشاک
عنصری، چار دانگ ِ عالم میں
غیر شخصی زمین و کون و مکاں
ثقل ہو یا سبک ، کثیف و لطیف
اپنی بنیادمیں چہار ہی ہیں
آتش و آب و باد و خاک فقط
ان سے بزم ِ وجود ہے قائم
ان کا دستور، ر سم، طو ر و طریق
لوح ِ محفوظ ہیں ہمارے لیے
مرزا غالب
اور کچھ بھی کہو گے، ستیہ پال؟
ستیہ پال آنند
غیریت کا نہیں کوئی بھی وجود
صرف اجزائے دیمقراطیسی
ممکنات و تجلیات و صفات
آتش و آب و باد و خاک سمیت
اِس جگہ، اُس جگہ، یہاں اور وہاں
سب ہی تو ہیں بہم دگر موجود
مرزا غالب
اب ذرا غور سے سنو۔۔۔۔۔ آنندؔ
آب نم، باد ’رم‘، و آتش ’سوز‘
خاک چسپیدہ ، ٹھس، فقط ’آرام‘
بالمواطات ہیں ، تتبع ہیں
ہاں، مگر غالب حزیں کے لیے
جذبہ و جوش کے ظوا ہر تو
رنج، دکھ کی علامتیں بھی ہیں
آب، آنسو ہیں، جلتے تپتے ہوئے (۱)
آب شبنم ہے، لمحہ بھر کی حیات(۲)
خاک سے کیا ہوا کا رشتہ ہے
’سوز‘ اور ’رم‘ سے بھی ہے یہی مقصود! (۳)
’آب‘، ’آتش‘ ، ’ہوا ‘ سے خاک تلک
ہے سبک گام زندگی ہر دم (۴) (۵)
’’ہے ازل سے روانی ٔ آغاز
ہو ابد تک رسائی ٔ انجام‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۰(۱) آتش پرست کہتے ہیں اہل، ِ جہاں مجھے : سر گرم ِ نالہ ہائے شرر بار دیکھ کر
۰(۲) پرتو ِ خور سے ہے شبنم کو فنا کی تعلیم: میں بھی ہوں ایک عنایت کی نظر ہو نے تک
۰(۳) مگر غبار ہوئے پر ہوا اُڑا لے جائے : وگرنہ تاب و توں بال و پر میں خاک نہیں
۰ (۴) ضعف سے گریہ مبدّل بہ دم ِ سرد ہو ا : باور آیا ہمیں پانی کا ہوا ہو جانا
۰ (۵) ہے مجھے ابر ِ بہاری کا برس کر کھُلنا : روتے روتے غم ِ فرقت میں فنا ہو جانا
۰(۶)اک شرر دل میں ہے اُس سے کوئی گھبرائے کیا : آگ مطلوب ہے ہم کو جو ہَوا کہتے ہیں
۔ جاروب لا بیار کہ ایں شرک فی الوجود با گرد ِ فرشد و سینہ با یواں برابر است
(۸) جز نام نہیں صورت ِ عالم مجھے منظور جز وہم نہیں ہستیءاشیا مرے آگے
Facebook Comments
انتہائی خوبصورت اور باکمال انداز سے محیط ادب سے ۔۔۔ایک عہد ساز شخصیت کا مکالمہ۔۔۔۔!
سبحان اللہ جیو سر۔۔۔!
کم از کم میں نے ابھی تک اس انداز میں کوئی مکالماتی نظم نہیں پڑھی۔