دھندے والی( تیسری,آخری قسط) ۔۔عامر حسینی

تمہارے گھر کے سامنے گاڑی میں۔۔۔
میں نے جلدی جلدی کپڑے بدلے اور نیچے پہنچا تو سلیٹی کلر کی نئی ہنڈا گاڑی میں سلیم اوڈھ بیٹھا ہوا تھا۔وہ مجھے دیکھ کر گاڑی سے اتر آیا۔بہت دبلا پتلا نظر آرہا تھا۔میں نے گلے ملتے ہوئے کہا بہت سمارٹ ہوگئے ہو۔کہنے لگا ہاں! جگر کا ٹرانسپلانٹ اچھے اچھوں کو سمارٹ کردیتا ہے۔میں تھوڑا شاکڈ ہوا –کیسے ؟ یار ایک ماہ پہلے دہلی سے ٹرانسپلانٹ کرایا۔60 لاکھ لگ گئے۔نئی زندگی ملی ہے۔تمہیں بار بار فون کیا –مگر تم نے نمبر ہی نہ اٹھایا۔کہاں گم ہو بھائی ؟یہاں سڑک پہ سب باتیں نہیں ہوسکتیں – ایسا کرتے ہیں فورٹ ریسٹورنٹ چلتے ہیں –میں نے بھی کھانا نہیں کھایا اور تم نے بھی نہیں کھایا ہوگا۔وہاں  چل کے بات کرتے ہیں –میں نے اس کے ساتھ گاڑی میں بیٹھتے ہوئے کہا۔

سلیم اوڈھ سے مری ملاقات جعفری کے ہاں ہوئی تھی۔جعفری “جعلی بیوروکریٹ ” جو ایف سی سے اس زمانے میں پڑھا تھا جب اس چھوٹے سے شہر میں انٹرنس کالج میں جانا اعزاز سمجھا جاتا تھا اور اس کے کئی بیج میٹ اب سی ایس پی آفیسر اور باودری افسر تھے۔وہ اگرچہ نکما ہی رہا –بی اے سے آگے نہ گیا اور واپس آکر زمیندارہ سنبھال لیا لیکن اس کا ایٹی ٹیوڈ اور نرت بھاؤ بیوروکریٹ والے ہی تھے۔دوستوں نے اس کا نام “جعلی بیوروکریٹ ” رکھ ڈالا تھا۔جعفری اپنے زیادہ تر دوست مڈل ایسٹ پلٹ یا وہاں گئے ہوئے مرفہ الحال لوگوں کو رکھتا تھا جن میں سے اکثر واجبی تعلیم والے ہوتے اور ان کو اکثر پی ۔سی ، آواری ، مریٹ ، ایمبیسڈر لیکر جاتا اور ان کو دیسی /کپّی کے چکر سے نکالتا اور بلیک لیبل ، ریڈ وائن ، شیوارز اینجل وغیرہ وغیرہ پہ لگاتا مگر خرچ سب ان کا ہوتا۔اس دوران ہائی سوسائٹی کال گرلز کے درشن بھی کروائے جاتے۔سلیم اوڈھ ایسے ہی اسے ٹکرا تھا۔

جعفری جعلی بیوروکریٹ کی ملک کے ایک بڑے نامی گرامی سیاست دان سے بھی دعا سلام تھی جس کی پروجیکشن اور اس کے دشمنوں کے خلاف پیدل خبریں چھاپنے اور ٹیبل سٹوریز بنانے کے لئے وہ قلم توڑ صحافیوں کے پیچھے رہتا تھا۔میں جب ایک انگریزی اخبار کے اندر اسلام آباد کی سیاسی بیٹ کو دیکھ رہا تھا تو جعفری جعلی بیوروکریٹ سے مجھے وزرات داخلہ ميں لگے سیکشن افسر مستعین علوی نے متعارف کرایا تھا۔اور پھر جب میں ملتان چلا آیا تو جعلی بیوروکریٹ نے مجھے اس سیاست دان سے ملوایا۔اور ان دنوں زرا مرے حالات پتلے تھے تو میں بہت سی ٹیبل نیوز اسٹوریز اور گٹھیا فیک سیاسی اینالسز اس کے لئے بنائے تھے۔

جعفری جعلی بیوروکریٹ اس محنت کے عوض مجھے نودولتیوں کی اس لاٹ سے ملواتا اور ان کی جیب سے مجھے مہنگی شراب ، قیمتی سگار دلاتا تھا۔کبھی کبھی مجھے “ٹبّی گلیوں ” میں لیجانے کی کوشش کرتا تو میں انکار کرڈالتا تھا۔سلیم اوڈھ بہت پڑھا لکھا تو نہ تھا مگر بندہ شناس تھا۔جلد ہی وہ جعلی بیوروکریٹ کو پہچان گیا اور اس سے الگ ہوگیا۔وہ ہر سال سعودی عرب سے تین ماہ کے لئے سردیوں میں آتا تھا۔مجھے اپنی سادگی اور صاف گوئی کی بنا پہ وہ پسند آیا۔میں اس کا گلاس فیلو بن گیا تھا۔پھر بیچ میں ایک گیپ آگیا۔میں ہی گم ہوگیا۔قریب قریب دو سال بعد سلیم اوڈھ سے مری ملاقات ہوئی تھی
فورٹ ریسٹورنٹ آگیا جناب ؟
سلیم کی آواز مجھے خیال کی وادی سے باہر لے آئی۔
ہم کار سے اترے اور فورٹ ریسٹورنٹ کے اندر ہال میں جاکر ایک میز پہ بیٹھ گئے۔
ابھی ہم بیٹھے ہی تھے کہ مینجر باجوہ اپنے آفس سے نکل آیا اور کہنے لگا !
زہے نصیب ! آج تو بڑی ہستیاں ہمارے ہاں پدھاری ہیں
میں ہنسنے لگا اور کہا کہ ایک جٹ کے منہ سے اتنی گاڑھی ہندی۔مکس اردو اچھی نہیں لگتی –تمہاری پنجابی بہت خوبصورت لگتی ہے۔سنیکس اور گرما گرم کافی پلوادیں –اس نے سپروائزر کو اشارہ کیا اس نے آڈر نوٹ کیا اور چلا گیا
انجوائے یور کمپنی سر! باجوہ نے شرارت سے کہا اور اپنے آفس کی طرف مڑ گیا۔سلیم مری طرف بہت غور سے دیکھ رہا تھا
کافی ماہ گزر گئے ، اس کو میں قریب قریب بھول گیا تھا کہ ایک دن آفس میں بیٹھا تھا کہ آفس بوائے اسلم نے مجھے آکر بتایا
“آپ کی کال آئی ہے “
میں نے پوچھا کس کی ہے ؟ اس نے پتہ نہیں ، بس آپریٹر کہہ رہا ہے کہ آپ کو بلوادوں۔آفس میں دو فون تھے۔ایک ریسپشن پہ اور دوسرا ایڈیٹر کے کمرے میں۔ریسپشنسٹ آپریٹر کا کام بھی کرتا تھا –ابھی موبائل فون آنے میں تین سال پڑے تھے۔میں ریسپشن پہ پہنچا اور کریڈل اٹھایا تو اور ہیلو کیا تو دسری طرف سے آواز آئی
آداب ! گل بہار بول رہی ہوں ، کیسے ہیں آپ ؟
میں ٹھیک ہوں ، آپ سنائیں ؟
آپ تو اس دن کے بعد بھول ہی گئے ، کبھی گپ شپ لگانے بھی نہ آئے –
اس نے کہا
بس جی یہاں کام بہت تھا تو فرصت ہی نہ ملی
میں نے جواب دیا
اچھا ، آپ سے یہ کہنا تھا کہ آج رات ہمارے ہاں مجلس ہے ، آپ تشریف لائیے گا ، نیاز بھی بٹے گی
اس نے ایک دم کہا
میں تھوڑی دیر خاموش ہوگیا
اس نے اسی دوران پھر تیزی سے کہا
اچھا مت آئیے گا ، بھلا ہم جیسے لوگوں کا کیا حق کہ کسی کا غم منائیں اور شرفاء ہماری نیاز کھانے آئیں
یہ کہہ کر مجھے کھٹاک سے فون کا رسیور کریڈل پہ رکھے جانے کی آواز آئی –
میں سکتے میں آگیا۔

اور واپس آکے اپنی سیٹ پہ بیٹھ گیا۔گل بہار بانو کو بتانے لگا تھا کہ میں نہ تو نام نہاد شرفاء میں سے ہوں اور نہ ہی مجھے کسی مذہبی ثقافتی تقریب میں جاتے ہوئے کوئی عار ہے –میں خیالوں میں ڈوب گیا –
میں ایک ہریانوی بولنے والے ہندوستانی مہاجر سنّی بریلوی گھرانے میں پیدا ہوا تھا۔ہمارے گھر میں ختم ، نیاز ، محافل نعت ، گیارہویں ، عید میلادالنبی ، شب برآت ، محرم میں شہیدان کربلاء کی نیاز اور زکر شہادت کی محافل بکثرت ہوا کرتی تھیں –مرے دادا ہندوستان کے سابق مشرقی پنجاب اور آج کے ہریانہ کے انبالہ ڈویژن کے ضلع حصّار میں نقشبندی سلسلے کے ایک بڑے معروف بزرگ عبدالصمد خاں نقشبندی کے مرید تھے۔اور ان کے بیٹے تقسیم ہند کے بعد اوکاڑا کے قریب رینالہ خورد میں آکر بس گئے تھے خواجہ عبدالسلام نقشبندی –مرے دادا اکثر مجھے ان پیر صاحب کے پاس لیجایا کرتے تھے –
اور مرے والد کرنال کے قصبے شاہ آباد سے ہجرت کرنے والے ایک اور نقشبندی سلسلے کے بزرگ سید ولی محمد شاہ کے مرید تھے۔سید ولی محمد شاہ ایک بری سی سفید چادر اپنے اردگرد لپیٹے رکھے رکھتے اور اسی مناسبت سے ان کو چادر والی سرکار کہا جاتا تھا۔یہ سیالکوٹ کے قریب واقع علی پور سیداں کے مشہور نقشبندی پیر اور تحریک پاکستان کے ایک اہم کردار پیر جماعت علی شاہ کے خلیفہ مجاز تھے۔ہمارا گھر ایک متوسط طبقے کے تاجروں کی بستی میں واقع تھا اور یہاں زیادہ تر غلہ منڈی ، فروٹ منڈی اور شہر کے بازاروں میں کپڑے اور منیاری کا کام کرنے والے رہائش پذیر تھے اور اکثریت میں سنّی بریلوی یہاں رہتے تھے جبکہ مشکل سے چار گھر دیوبندی سنّیوں کے تھے جبکہ ایک گھر سادات کا تھے جو شیعہ مسلک کا تھا لیکن سب اس سادات گھرانے کی عزت میں کوئی کمی نہیں کرتے تھے۔

یہاں  ایک گھر سلفی اہلحدیث کا تھا یہ پٹیالہ سے ہجرت کرنے والا ایک پنجابی گھرانہ تھا مگر یہ بھی صلح کل پہ عمل پیرا گھرانہ تھا۔محرم آتا تو سب ہی گھروں میں نذر و نیاز کا سلسلہ شروع ہوجاتا تھا۔گھر گھر ٹیپ ریکاڈر پہ شفیع اوکاڑوی ، شبیر حسین حافظ آبادی کی واقعہ کربلاء پہ مبنی تقریریں بجنے لگتی تھیں اور عمومی یہ ٹیپ ریکاڈر گھر کی بیٹھک جو باہر کی طرف رکھا جاتا تھا تاکہ گلی میں بیٹھے اور گزرنے والے بھی سن سکیں –نریلی ہندوستان سے ہجرت کرنے والے ایک گھر میں مٹّی کے پیالوں میں کھیر ٹھنڈی کرکے تقسیم کی جاتی –لوہارو ریاست سے آئے ایک گھرانے والے چاولوں کی دیگ چڑھاتے تھے –اور گھر گھر زکر شہادت حسین کی محافل ہوا کرتی تھیں۔واحد سادات گھرانے کی جانب سے نیاز کا اہتمام ہوتا –پانی کی سبیلیں لگتی تھیں –اور وہیں ہمارے محلے میں تیسری گلی میں شفیعا لوہار رہا کرتا تھا –اور وہ بڑا لٹھ باز بھی تھا –
دس محرم الحرام شہر کے مرکزی چوک میں جب عشرہ محرم کا جلوس پہنچتا تو وہ اور اس کے شاگرد گتکے باز کا ایسا مظاہرہ کرتے کہ دیکھنے والے عش عش کر اٹھتے تھے۔اور سنّیوں کا بھی ایک تعزیہ نکلتا تھا جو اسی چوک میں آکر عاشورہ محرم کے جلوس میں مل جاتا تھا۔جلوس کے ساتھ بریلوی ، دیوبندی ، اہلحدیث علماء اور ان مسالک کے کرتا دھرتا بھی چلتے تاکہ کوئی تخریب کاری نہ ہو اور ایسے جلوس کربلاء شاہ خراسان جاکر ختم ہوجاتا تھا۔اور عید میلادالنبی کے جلوس میں یہ ہوتا کہ دیوبندی اور وہابی تو اس جلوس کے ساتھ نہ آتے مگر شیعہ اس جلوس کا مختلف چوکوں اور چوراہوں میں پھول کی پتیوں سے استقبال کرتے اور نیاز بانٹتے تھے –

ہمارے محلے کے سادات گھرانے کے سربراہ سید بی –اے –عابدی اپنے بیٹوں اور چھوٹی بیٹیوں کے ساتھ اس جلوس میں آتے اور ان کے ساتھ کئی اور آدمی بھی ہوتے تھے۔وہ پاکستان پیپلزپارٹی کے صدر بھی تھے اور ہر دل عزیز شخصیت تھے – ان کے ساتھ ایک بڑی گاڑی ہوتی تھی جس سے حلوہ و نان تقسیم کیا جارہا ہوتا تھا اور وہ وقفے وقفے سے نعرے لگاتے تھے۔اور عید میلاد کے جلوس کے شرکاء ان کا گرم جوشی سے استقبال کرتے تھے –پھر ایک دن جب وہ اپنے گھر کے سامنے کھڑے بجلی کے میٹر کی ریڈنگ پڑھ رہے تھے تو دو موٹر سائیکل سوار آئے اور کلاشنکوف کے فائر کھول دئے جس سے وہ موقعہ پہ ہی ایک اور دکاندار کے ساتھ جاں بحق ہوگئے۔میں تصوف ، مذہبیت پہ مبنی کلچرل ریتوں ، روائتوں اور رواج کے سائے میں پلا پڑھا تھا۔لیکن اس کے ساتھ ساتھ ایک اور سٹریم بھی چل رہی تھی۔

میں نے جن ، پریوں کی کہانیوں کو چھوڑ کر عصمت چغتائی ، سعادت منٹو ، رحمان مذنب ، راجندر سنگھ بیدی کی کہانیاں پڑھنا شروع کردی تھیں اور مجھے کالج میں کمیونسٹوں کے ایک اسٹڈی سرکل میں جانے کا موقع  ملا اور وہیں مری دوستی کامریڈ ایم اے خان سے ہوگئی اور وہ مجھے مارکسی لٹریچر دینے لگے اور مجھے پتہ نہیں لگا کہ کب میں ناستک کمیونسٹ ہوگیا –اور کم از کم نام نہاد اخلاقیات کے ٹھیکے داروں سے کب کا آزاد ہوگیا تھا اور ہمارا محلّہ متوسط طبقے کے تاجروں کا محلّہ تھا اور یہاں یہ ریت تھی کہ نوجوان جو کہ واجبی سی تعلیم کے بعد باپ کے کاروبار کے ساتھ بیٹھ جاتے تھے –
کپڑے ، سونے ، منیاری کا کام کرنے والے اور سبزی فروٹ و غلہ منڈی کی آڑھتوں سے جڑے اکثر سیکس ورکرز کے پاس آنے جانے لگتے تھے اور ان میں کنوارے و شادی شدہ سب ہی شامل تھے۔کچھ شراب اور کچھ چرس کا شغل بھی کرلیتے تھے (مگر یہ بہت کم تھے ) اور بعض دکان پہ آنے والی عورتوں سے بھی تعلق قائم کرلیتے تھے۔مگر ان مین سے اکثر پانچ وقت کے نمازی ، کثرت سے ختم و نیاز دینے والے اور کئی پیروں سے سلسلہ ارادت رکھنے والے بھی تھے۔بلکہ ہنڈی ، منشیات اور بلیک مارکیٹنگ کرنے والے بھی پیری مریدی اور سخت مذہبیت کے ساتھ جڑے تھے۔جب کبھی کوئی مذہبی تناؤ پیدا ہوتا جو اکثر دیوبندی بمقابلہ بریلوی یا وہابی بمقابلہ بریلوی ہوتا اور کبھی کرسچن یا احمدیوں سے بھی پڑجاتا تو ان سے بڑی عاشق ، ان سے بڑا موحد ، ان سے بڑا ناموس کا علمبردار کوئی نہ ہوتا تھا۔مذہبی جلوسوں میں گلے پھاڑ کر غلام ہیں غلام ۔۔۔۔۔ کانعرہ لگانے والے اگلے روز کسی چکلے میں ہوتے یا نائٹ پہ لڑکی بک کرتے اور الگ سے کرائے پہ لئے مکان پہ اپنی  ہوس کی تکمیل کررہے ہوتے اور فوری غسل کرتے اور نماز پڑھنے چلے جاتے  تھے۔مرے کئی کپڑے ، سونے چاندی ، منیاری اور دیگر کاروباروں سے جڑے اپنے ہم عمر دوستوں سے تعلق تھا اور ان میں میں “زنخا ” مشہور ہوگیا تھا۔ایک مرتبہ ان سب نے مجھے ملکر زبردستی ایک کمرے میں دھکا دیا اور باہر سے کنڈی لگالی –اندر ایک پکّی عمر کی عورت تھی جس نے مجھ سے چھیڑ چھاڑ کی مگر میں سرد رہا –اس نے باہر آکر کہا
ایس چھورے کے پلّے کجھ ناہیں ، سورا خالی سے ، ھیجڑو سے پر چکنو سے ، یو تھارے کام آوے گا ، چھورو کا پچھواڑا بہت نرم سے اور گالاں تے جان نکال لیوے ہیں ( اس لڑکے کے پاس کچھ نہیں ، سالا خالی ہے ھیجڑا ہے۔ )اور اس کے بعد مرا نام “زنخا ” پڑ گیا –ان میں سے کچھ لڑکے مجھ پہ نظر بھی رکھتے تھے مگر مرے دو بڑے بھائی ان کے ساتھ ہوتے تھے اور کئی ایک کزن بھی ان کی ٹولی میں تھے اس لئے ان کی ہمت نہ پڑتی تھی –
مگر ایک دن جب ہم سب نہر پہ نہانے گئے گرمیوں کے دن میں تو میں تیرتا ہوا کافی دور نکل گیا اور مرے ساتھ رؤف جیسے روفا قصائی کہتے تھے تیرتا ہوا آگیا اور اس نے مجھے زبردستی پیچھے سے پکڑ لیا اور مجھے بے اختیار چومنے چاٹنے لگا، مجھے سخت گھن آرہی تھی ، اس نے مرے منہ پہ ہاتھ رکھا ہوا تھا۔وہ بہت طاقتور تھا اور اس کا آلہ تناسل مری پشت پہ چبھ  رہا تھا –مجھے احساس ہورہا تھا کہ مرے ساتھ سخت غلط ہونے والا ہے۔وہ مرا نیکر اتارنے کی کوشش کررہا تھا –میں نے اپنا پورا زور لگایا اس سے چھٹنے کے لئے اور اس کے ہاتھوں پہ کاٹ لیا اور اس نے درد سے بلبلا کر مجھے چھوڑ دیا اور میں کنارے کی جانب بھاگا اور نہر سے نکل کر میں نے دوڑ لگائی اور ساتھ چیخنے لگا –مری چیخیں شاید وہاں تک پہنچ گئی تھیں جہاں سب موجود تھے۔سب سے پہلے مرے بھائی افتخار ، احسان مجھ تک پہنچے اور میں ان سے لپٹ گیا –بے اختیار رونا شروع کردیا۔

اتنے میں مرے کزن خالد ، اشفاق اور پیرمحمد بھی وہاں آن پہنچے اور دوسرے بھی۔میں نے ہچکیاں لیتے ہوئے اپنے پہ بیت گئی قیامت سے ان کو آگاہ کیا –مرا بھائی افتحار مجھے تسلی دیتا رہا –وہ بہت ہتھ چھٹ تھا۔اس نے جہاں میں نے اشارہ کیا اس جانب دوڑ لگائی –لیکن وہاں رؤفا قصائی نہ تھا –اس کے گیلے پیروں کے نشان سامنے کھیتوں کی طرف جارہے تھے۔سب نے اس جانب دوڑ لگائی –اور کھیت پار کرکے سڑک پہ دور رؤفا قصائی بھاگتا ہوا نظر آرہا تھا –بھائی افتخار نے اس کو دیکھا تو اسے جیسے پر لگ گئے اور اس نے اسے چار منٹ ہی میں جالیا اور اور اسے تھپڑوں مکّوں پہ رکھ لیا۔جب ہم وہاں پہنچے تو اس نے اسے مار مار کر ادھ موا کیا ہوا تھا۔

مرے کزنز اور دوسرے لڑکوں نے اسے ٹھنڈا کیا اور کہا کہ اسے کونسلر صاحب کے حوالے کرتے ہیں وہ پنچائت بلائیں گے۔اور یوں رؤفا قصائی کو پنچایت کے سامنے پیش کیا گیا۔اور وہاں رؤفا قصائی نے ایسا پانسا پلٹا کہ سب کچھ تلپٹ ہوگیا۔اس نے افتخار پہ الزام لگایا کہ افتخار کے اس کی بہن سے ناجائز تعلقات ہیں اور احسان تو اس کے ساتھ ملکر گلی ، اسکول کے کئی لڑکوں سے بدفعلی کرچکا ہے۔اس نے ایک پنچ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ کونسا پاکباز ہے اکبّر پنواڑی کی بیوہ کے گھر راتیں گزارتا ہے اور ابھی وہ ایک اور کی طرف مڑ ہی رہا تھا کہ کونسلر صاحب نے اسے جھڑکا اور پنچائت ختم کردی اور بعد میں کیا ہوا مجھے نہیں پتا۔بس ہم وہاں سے لاہور آگئے تھے۔اور میں سوچ رہا تھا کہ گل بہار ٹھیک ہی تو کہتی ہے ایک سیکس ورکر کے گھر بلکہ گھر بھی کہاں کوٹھے پہ اشراف اپنی گندگی گرانے تو آسکتے ہیں نیاز کھانے نہیں –

میں نجانے کب تک خیالوں میں کھویا رہتا کہ اسلم چائے لاکر مرے سامنے رکھ گیا۔شام پڑنے لگی تھی۔میں نے چائے کے گھونٹ بھرے اور جانے کا فیصلہ کرلیا۔میں کرسی سے اٹھی اور سیدھا ایڈیٹر کے کمرے میں پہنچا اور ان سے کہا کہ آج سخت سردرد ہے اور ہلکا بخار بھی ہے۔
“ارے تو جاؤ بھئی دوا لو آرام کرو ، پرسوں وہ زوالفقار گیلانی کی نئی آنے والی فلم کی پروجیکشن کے لئے آرٹیکل ، فیچر بھی تیار کرنے ہیں “
مرے بولنے سے پہلے ہی ایڈیٹر صاحب بول پڑے اور یہ چھٹی اس لئے ملی کہ پرسوں ان کو ایک پیڈ پروجیکٹ کرکے میں دے دوں ورنہ ایک دن کی تنخواہ کاٹ لی جاتی –اب مسئلہ یہ تھا کہ مرے پاس کل دو جوڑے تھے –ایک سوٹ دھلنے کو دھوبی کے پاس پڑا تھا اور وہ کل ملنا تھا۔اور یہ سوٹ کافی میلا ہورہا تھا –ایسی حالت میں میں وہاں جانا نہیں چاہتا تھا –میں اپنے دھوبی نذیر کے پاس چلاگیا –اس کے سامنے اپنا مسئلہ رکھا تو اس نے کہا
“باؤ جی ! فیر تے تساں کالے کپڑے پاؤ ، میں دے دینا آں پر تسی اے اج واپس کرجانا پرسوں دے دیاں گیا ، اک وکیل دا سوٹ اے واشن وئیر تے سلیا وی سوہنا اے “
اس نے ایک استری ہوا کالا سوٹ ہنیگر سے نکال کر پیک کرکے مجھے دیا اور میں سیدھا بھاٹی گیٹ اپنے کمرے کی طرف آیا اور نیچے حمام میں شیو بناکر اور نہاکر اوّر آکر وہ سوٹ پہن لیا۔وہ تھوڑا کھلا تھا لیکن مجھے اچھا لگا۔میں راستے میں ایک آرٹیفیشل جیولری کا ٹھیّہ لگائے آدمی سے پیتل کا کڑا بھی خرید لیا جس پہ چاندی کا پانی پھرا ہوا تھا –اور یوں ایک عزادار کا گیٹ اپ کرکے میں پیدل چلتا ہوا شاہی محلے میں داخل ہوگیا۔مغرب کے تھوڑی دیر بعد کا وقت تھا لیکن آج تو اس بازار کے رنگ ڈھنگ ہی بدلے ہوئے تھے۔پھولوں ،گجرے والوں کی دکانیں بند تھیں ، پان بیڑی سگریٹ کے بھی ایک دو کھوکھے کھلے ہوئے تھے۔جبکہ ہر ایک گھر پہ سیاہ علم اور پنجہ کھڑا تھا اور جھروکے خالی تھے اور بالکونیوں میں کوئی نہیں کھڑا تھا –

ہر ایک کوٹھے سے ٹیپ ریکارڈر چلنے کی آوازیں آرہی تھیں جن پہ نوجے اور مرثیہ چل رہے تھے اور میں کئی عورتوں ، مردوں اور بچوں کو کالی قمیص ، سفید شلوار پہنے دیکھا اور عورتوں کو  کالا دوپٹہ اور کالی چادر اوڑھے دیکھا۔عجب سی سوگواری اور اداسی شاہی محلّے پہ تنی کھڑی تھی۔گھروں کے منڈیروں پہ کوئی چراغ روشن نہیں تھا۔عین چوک کے درمیان ایک بہت بڑا علم عباس ایستادہ تھا جس کے گرد چراغ ہی چراغ تھے اور عورتیں ،مرد ، بچے اس علم کو ہلاتے ، منہ میں کچھ بڑبڑاتے اور کچھ دیر ٹھہر کر دعا مانگتے اور چل پڑتے۔میں علم کے پاس سے گزرنے لگا اور بغیر رکے آگے جانے والا ہی تھا کہ پیچھے سے ایک آواز آئی
“بدبخت غازی عباس دے علم نوں چمے بنا جاندا پئا ایں ، کیوں آپنے بختاں نوں انھیر کرنا ایں “
میں نے مڑکے دیکھا تو دھاری جٹاؤں والا ایک ملنگ سبز قبا میں ملبوس ہاتھ میں بڑا سا ڈنڈا لئے اور ہاتھوں میں کئی کڑے ڈالے اور انگلیوں میں انگوٹھیاں ڈالے سرخ نگاہوں سے مجھے گھور رہا تھا –میں واپس پلٹا اور علم ہلایا اور علم کے کپڑے کو چوم لیا۔یک دم مرے ذہن پہ جیسے کوئی بجلی کوندی ہو اور مجھے ایک سرائیکی شاعر یاد آئے جو کہتے تھے کہ خلق سے ملن رب آپے علامتوں میں سرایت کرتا ہے۔اور مجھے یوں لگا کہ وہ حقیقت آج یہاں  اپنا آپ آشکار کررہی ہے –میں وجد میں آگے چلتا چلا گیا۔گل بہار کے گھر کے سامنے پہنچا تو وہاں بجلی کے قمقے روشن تھے۔بڑا سا علم گھر کے اوپر لہرا رہا تھا اور یاغازی عباس اس پہ لکھا نظر آرہا تھا۔

اور مجھے وہی آدمی دروازے پہ نظر آیا اور مجھے لیکر وہ اوپر چلا آیا اور مجھے وہ ہال کمرے کے دروازے پہ چھوڑ گیا –اندر داخل ہوا تو ہال کمرے میں دو دو کی چار صفیں بنی ہوئی تھیں۔دو صفیں دائیں طرف تھین جہاں سب مرد براجمان تھے تھے جبکہ دو عورتوں کی صفیں تھیں –سب نے سیاہ لباس پہنے تھے –سیاہ دوپٹے تھے –مردوں کے سر ننگے تھے۔اور گل بہار بانو ، اس کی نائیکہ کے ساتھ میں دیکھ کر حیران ہوگیا کہ شام چوراسی گھرانے کے چشم چراغ اسد امانت علی اور معروف گلوگار سجاد علی بیٹھے تھے۔اور ساتھ ہی ایک شیعہ عالم بیٹھے تھے جن سے میں واقف تھا۔ان کی وہاں موجودگی مرے لئے کافی حیران کن تھی ۔گل بہار بانو نے آنکھ کے اشارے سے مرا سواگت کیا اور آگے آنے کا اشارہ کیا اور میں نے دیکھا کہ سب سے آگے بیٹھا ایک شخص اٹھا اور اس نے جگہ خالی کردی اور مجھے بیٹھنے کو کہا۔میں وہاں آکر بیٹھ گیا۔گل بہار بہت اداس نظر آتی تھی –اور نقابت کے فرائض بھی اس نے سنبھال رکھے تھے۔وہ شروع ہوئی –چہرے پہ سوگ بے انتہا اور آواز میں درد بہت تھا :
پامال ہوگئی ہے قاسم دی نوجوانی –سہرے لٹاکے بیٹھا سنوگئے بن اچ حسن دا جانی
ہائے تیری راہواں وچ بہہ کے ہائے روندی آں –آجا اکبّر ۔۔۔۔دیر نہ لاویں تری راہواں تکدی آں

جیسے جیسے وہ مرثیہ پڑھتی سوگواروں کی ہچکیاں بندھتی چلی گئیں ، کیا مرد کیا عورتیں سب کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے۔میں تھوڑی دیر تو اپنے آپ پہ قابو رکھا لیکن پھر مری آنکھوں سے بھی آنسو رواں ہوگئے۔مری نظر گل بہار بانو سے ملی تو مری آنکھوں کے بھیگے گوشے دیکھ کر ایک لمحے کے لئے حیرت نظر آئی اس کی آنکھوں میں پھر اس نے نظر ہٹالی –مجلس ختم ہوگئی اور نیاز بٹنا شروع ہوئی –گل بہار بانو نے مجھے اشارہ کیا۔میں اٹھ کر ہال کمرے سے باہر نکل گیا –اور میں اس کے پیچھے چلتا ہوا کمرے میں آگیا –کمرے کا حال عجیب تھا۔آج وہاں بیڈ اور صوفہ کرسیاں موجود نہیں تھیں –کمرے میں صرف پانچ بڑے چراغ روشن تھے۔دیواروں پہ سیاہ رنگ کی شیٹ لگی ہوئی تھیں اور کوئی بھی تصویر وہاں موجود نہ تھیں –فرش پہ بھی کوئی چیز تھا اور میں نے دیکھا کہ وہاں کوئی بستر تک نہ تھا۔

یہاں کوئی بھی چارپائی یا بیڈ پہ دس دن تک سوتا نہیں ہے۔اور زمین پہ سوتے ہیں –اور سونے کے کمروں مین سوائے چراغ کے اور کوئی شئے روشن نہیں ہوتی۔اس نے مجھے کمرے میں ادھر ادھر دیکھتے ہوئے پایا تو کہا –اور کوئی دھندا نہیں ہوتا ہے۔اور میں نے تمہیں اس لئے بلوایا ہے کہ یہاں پڑوس میں ایک حاجی عبداللہ رہتا ہے –اس نے مرے خلاف تھانے میں ایک جھوٹا مقدمہ درج کرایا ہے۔میں نے عبوری ضمانت کرالی ہے۔
وہ ایک جہادی تنظیم کو بھی چندہ دیتا ہے۔وہ مجھے مستقل رکھیل رکھنا چاہتا تھا۔پہلی محرم کو بھی آیا اور اس نے اپنے گھر چلنے پہ اصرار کیا۔میں نے انکار کیا کہ ہم محرم  میں دھندا نہیں کرتے۔اس پہ وہ غضبناک ہوگیا اور زبردستی مجھ پہ چھپٹنے لگا تو یہاں فضلو اور رحمو نے اسے بڑی مشکل سے نکالا اور وہ چلاگیا اور واپس جاکر تھانہ انارکلی میں اس نے فضلو ، رحمو اور مرے خلاف پڑجہ کٹایا ہے ڈکیتی کا –فضلو رحمو تو جیل میں بند ہیں جبکہ میں عبوری ضمانت پہ ہوں –مری آپی کے جو سرپرست ہیں وہ اس حاجی سے دبتے ہیں اور کہتے ہیں کہ گل بہار بانو کو بھیج دو اس کے پاس معاملہ ٹھیک ہوجائے گا۔آپی نے مجھے دو دن دئے ہیں کہ اگر میں معاملہ سیٹل کرلوں تو ٹھیک ورنہ پھر مجھے جانا ہوگا ورنہ دھندا ٹھپ ہوجائے گا –
“تمہیں مولا حسین کا واسطہ ! مجھے اس مشکل سے نکالو “
وہ شاید مجھے شیعہ سمجھ رہی تھی –اس لئے ایسے واسطے دے رہی تھی –
تم فکر مت کرو میں کچھ کرتا ہوں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

میں وہاں سے نکلا اور شملہ پہازی آگیا اور سیدھا لاہور پریس کلب کے صدر کے کمرے میں گیا۔صدر وائی اے مرا پرانا دوست تھا اور اس کی جیت میں میں نے بڑا کردار ادا کیا تھا۔اس سے بات کی –اس نے اسی وقت فون ملایا –پہلے ایک جہادی تنظیم کے کسی عہدے دار سے بات کی اور اس کے بعد اس نے آئی جی لاہور سے بات کی –اور پھر مجھے کہا
یار! بے فکر ہوجاؤ –حاجی دی بھین نوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وڑ گیا اے۔ہن اوتھے دا رخ نہیں کردا
یہ کہہ کر اس نے دراز سے بوتل نکالی اور اور مری طرف دیکھ کر آنکھ دباتے ہوئے کہا :
“ایہہ لال پری پی تے غم غلط کر ، یار اوس کنجری تے ترا دل آگیا اے کیا ؟ میرا وی دل کردا اے اونھوں ویکھن دا جیس نے مرے مولوی یار نوں رند کردتا اے”
“میں محرم میں نہیں پیتا “
میں نے جھٹ سے کہا –
اس نے ایک قہقہ لگایا اور کہا “بلّے بھئی بلّے ، ایک ناستک کدوں دا محرم اچ شراب توں انکار کرن لگ گیا اے
بس آج ہی سے یہ پابندی لگائی ہے۔مری آنکھیں کھل گئی ہیں –یہ کہتے ہوئے مرے دماغ کی سکرین پہ شاہی بازار کے گھروں پہ لگے کالے علم اور مردوں و عورتوں کے سوگوار چہرے اور کانوں میں گل بہار کی درد سے بھری آواز گونج رہی تھی
سک دے ویلے جوان بچھڑے کوں پگ بنھیندا اے حسین تھک ویندا اے
(صبح کے وقت جوان بیٹے کو پگڑی باندھتا ہوا حسین (علیہ السلام ) تھک جاتا ہے
یہ کہہ کر میں اس کے کمرے سے نکلتا چلا گیا!

Facebook Comments

عامر حسینی
عامر حسینی قلم کو علم بنا کر قافلہ حسینیت کا حصہ ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”دھندے والی( تیسری,آخری قسط) ۔۔عامر حسینی

  1. کہانی میں ایک ٹیکنیکل غلطی ہے۔ لکھا ہے کہ:
    “میں نے گلے ملتے ہوئے کہا بہت سمارٹ ہوگئے ہو۔کہنے لگا ہاں! جگر کا ٹرانسپلانٹ اچھے اچھوں کو سمارٹ کردیتا ہے۔میں تھوڑا شاکڈ ہوا –کیسے ؟ یار ایک ماہ پہلے دہلی سے ٹرانسپلانٹ کرایا۔60 لاکھ لگ گئے۔نئی زندگی ملی ہے۔تمہیں بار بار فون کیا –مگر تم نے نمبر ہی نہ اٹھایا۔کہاں گم ہو بھائی ؟”

    جگر کا ٹرانسپلانٹ ہونے کے کم از کم تین ماہ تک مریض کو آئسولیشن میں رہنا پڑتا ہے۔ ملنے جلنے سے منع کر دیا جاتا ہے۔ ایسا ممکن نہیں کہ جگر کی پیوند کاری کے بعد کوئی شخص ایک مہینے میں سفر بھی کر رہا ہو اور مل جل بھی رہا ہو۔

Leave a Reply