میں پہاڑوں و دریاؤں پر مشتمل
خوبصورت انسانوں کی سرزمین
قدرتی دولت سے مالا مال
کیا جاتا ہے ستر سال میرا استحصال
میرے مٹی کے نئے خواب
آنکھ کُھلنے سے پہلے مرجاتے ہیں
زندگی مل جائے تو مشقت ہی تو ہے
مگر زمین میری خون رنگ ہے
خاکی وردی و حواری ہر سوُ
میرے لخت جگر خطرے میں
استحصال کی انتہا کو چھوتے
میرے سینے پر دھماکے کرتے ہیں
میرے جسم کا ایندھن بیچ کر
میرے لہو سے پیسہ سینچتے ہیں
ہر دور میں چند مداری
ہماری زمین سے مل جاتے ہیں
میرے وطن نے آج تک لاشیں ہی پائی ہیں
ہمارے زمین کے کتاب دوست بھی
یہاں غدار کہلائے جاتے ہیں
ہماری مسیحاؤں کو اسلحہ اٹھانا پڑتا ہے
ہماری عورتیں سڑکوں پر بھٹکتی ہیں
بچے احتجاج کرتے بڑے ہوتے ہیں
ہماری زمین نے امن نہیں دیکھا
مگر تُم درندے ان سے خواب چھین لیتے ہو
قسم ہے ایک دن نقارہ بجے گا
وطن ہمارا پھولوں سے سجے گا!
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں