پیاری دشمن (لاہور کی اس دوشیزا کے نام ایک خط)۔۔شعیب شاہد

پیاری دشمن!
برسوں ہوئے تمہیں بچھڑے ہوئے۔ اتنے برسوں میں کبھی تمہیں خط نہ لکھ سکا۔ کیا لکھتا؟ قلم کو جب بھی سیاہی میں ڈبوتا ہوں، تو اس کو لہو میں ڈوبا ہوا ہی پاتا ہوں۔ آج ہمت کر کے لکھ رہا ہوں- یا شاید لکھنے کو مجبور ہوگیا ہوں۔
حال احوال کا ذکر تو کیا کرنا، واقف حال تم بھی ہو اور میں بھی۔
آج تمہاری بستی میں بھی شامیانے لگے ہونگے۔ جشن منایا جارہا ہوگا۔ لوگ آزادی اور خوشیوں کے ترانے گنگناتے ہونگے۔ جام و سبو کی محفلیں ہونگی۔ میں یہ بھی جانتا ہوں کی تمہارے سوا کون ہے جو رونق محفل کہلائے۔
لیکن تم کس طرح جان سکتی ہو کہ  لکیروں کے ادھر دور ایک شہر میں دھڑکتا ایک جواں دل اب بھی تمہاری بات کرتا ہے۔ تمہیں یاد کرتا ہے۔ جس کی نگاہ ان لکیروں تک آکر لوٹ جاتی ہے۔ مومن نے کہا تھا،
“میں وہی ہوں مومن مبتلا، تمہیں یاد ہو کہ نا یاد ہو”
۔۔۔۔۔۔۔
اے دشمن جاناناںممکن ہے تم نے وہ کاغذ نہ دیکھا ہو، جس پرلکھی جاتی ہےقسمتیں۔ میری اور تمہاری۔ فرازؔ نےلکھا تھا، “اپنے بندوں سے تو پندار خدائی لے لے” آج سوچتا ہوں کہ  شاید اسی کاغذ کو “پندار خدائی” ـلکھا تھا۔ کچھ خدائی کے دعویداروں کو دیکھتا ہوں کہ وہ کاغذ پر کچھ دفعات لکھتے ہیں اور دو قوموں کی قسمت کا فیصلہ ہوتا ہے۔
یہ سب کاغذوں والے مغرور لوگ ہیں۔ انہوں نے ہمیشہ ان کاغذوں پر وہی سب کچھ لکھا ہے کی جس سے ان کے حاکمیت بنی رہے۔ اور تاریخ ان کے ظالمانہ طرز عمل کو ایک عظیم اورمتفخر واقعے کی طرح یاد رکھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
لیکن میں اب ان کاغذوں پر حیران نہیں ہوتا۔ میں نے لہو میں ڈوبے اس کاغذ کو بھی دیکھا ہے جس کے بیچ میں کھینچ دی گئی تھی ایک کالی لکیر۔ جیسے خنجر سے چیر دیا گیا ہو کلیجہ۔ اور ایک کاغذ پر بسنے والے لوگ اب دو الگ قومیں تھی۔ کاغذ کےاس ٹکڑےپر میرے اپنے بلکتے رہے۔لیکن مجھے تو فقط حکم ترک تعلق تھا۔ کہ اب کاغذ کے اُس ٹکڑے سے عداوت ہی میری وفاؤں کا معیار ہے۔ کسے پرواہ ہے کہ میں ایک حساس دل رکھتا ہوں ہوں ، جس کو کاغذوں کی ان حدود میں باندھناممکن نہیں۔ میں جانتا ہوں کہ اس کالی لکیر کے اس طرف کچھ بھی دیکھ پانا ممکن نہیں۔ لیکن خیالوں پر کس کا زور ہے ؟ یہ کب کسی کے باندھے بندھتے ہیں ؟ ان کو تو نکل جانا ہے ان آزاد ہواؤں کے ساتھ۔ یا ان آوارہ بادلوں کے ساتھ ! اور برس جانا ہے اس پار کی چھتوں پر۔ ممکن ہے کسی روز تم اس ابر میں میرے آنسوؤں کومحسوس کرو۔ تم دیکھنا ایک دن یہی ابر اس کاغذ پر برسے گا۔ اور ساری سیاہی بہ جائے گی! زندگی پھر کورے کاغذ کی طره شروع ہوگی۔ اور تب، ہم اس پر محبت کی ایک نظم لکھیں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
سنا ہے سرحد پر کوئی نیا راستہ کھلا ہے۔ جو اس پار کے چاہنے والوں کو کرتار پور میں انکے شوا لے تک لے جاتا ہے۔ یقین نہیں آتا کہ کوئی ایسی صورت بھی ہو سکتی ہے کہ وہ خطّا زمین تمہارے ملک میں ہی رہے اور میرے لوگ وہاں جا سکیں۔ مجھے تو یہ راستہ اصل میں محبت کا راستہ لگتا ہے۔ جسے ایک حد مددت کے بعد کوئی سرحد نہیں روک سکتی۔ جبکہ یہ راستہ جا ملتا ہو محبوب کے گھر سے۔
سنا ہے سرحدوں پر تشدد ہے۔ عداوتیں ہیں۔ تني ہوئی بندوکیں ہیں۔ اور وہ کالی لکیر ہے کہ جسکے پیچہے میرا ماضی ہے۔ لیکن میں دیکھتا ہوں کہ آج تمہارے ملک والوں کی اعلیٰ ظرفی کے سبب محبت کی ایک راہ جا نکلی ہے۔ جسکا تعلق کچھ مذہبی عقائد سے ہوتا ہوا اسی مقام دلربائی سے جا ملتا ہے کہ جسکا اسیر میں بھی ہوں اور تم بھی۔
اگر عداوتوں میں محبت کے کچھ راستے نکل سکتے ہیں تو میں سوچتا ہوں کہ کاش ایک راستہ ایسا بھی نکل آئے جو شہر یاراں کے اس حریم ناز تک جاتا ہو، کہ جسکی چلمن سے لگیں تم بارش کی پہلی بوندوں کو چھوتی ہو۔ اور وہی بدل جب بچا ہوا ابر میرے شہر میں برساتیں ہیں تو میں ان بادلوں میں تمہارا پری رو چہرہ بناتا ہوں۔

Advertisements
julia rana solicitors

تمہاری زلفوں کا گرہ گیر، تمہارا اسیر
shoebshahid@gmail.com

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply