گھروندا ریت کا(قسط25)۔۔۔سلمیٰ اعوان

چیزوں میں جاذبیت اور کشش شایداس وقت تک رہتی ہے۔جب تک کہ اُنکا حصول دسترس سے باہر ہوتا ہے۔پر جونہی وہ مل جائیں۔روزمرہ زندگی میں اُنکا عمل دخل شروع ہوجائے۔توپھر اُن کی کشش ختم ہوجاتی ہے۔اہمیت کم ہو جاتی ہے۔سب کچھ روزمرّہ زندگی کا حصّہ لگنے لگتا ہے۔
وہ جو کبھی شاندار گھروں کے پاس سے گذرتے ہوئے حسرت سے انہیں دیکھا کرتی۔کاروں میں جُھولتی عورتوں کو دیکھ کر مارے دُکھ کے اپنی قسمت کا ماتم کیاکرتی۔اب جب ایک خوبصورت آراستہ پیراستہ گھر اُسے نصیب ہوگیا جس میں وہ کسی مہارانی کی طرح رہتی تھی۔نوکر چاکر تھے۔ایک چھوڑ دودوگاڑیاں تھیں۔چاہنے والا شوہر تھا۔سبھی کچھ تھا۔پر پھر بھی کوئی چیز اندر ہی اندر کاٹے چلی جاتی تھی۔بس سکون نہیں تھا۔
کبھی وہ اپنے آپ سے کہتی۔
”زندگی اپنی روٹین پر آگئی ہے شاید اسی لیے میں بوریت کا شکار ہو رہی ہوں۔
صُبح بُہت سویرے اٹھنا معمول تھا۔لاکھ وہ اُسے کہتا۔
“کیا مصیبت پڑی ہے تمہیں اتنی جلدی اٹھنے کی۔”
پر وہ اُس کے حصار سے نرمی اور سہولت سے نکل آتی۔نماز پڑھتی۔بھیگتی آنکھوں سے سکُون قلب کی دعا مانگتی۔ڈریس اَپ ہوکر کچن کا جائزہ لیتی۔اور جب رحمان کی آنکھ کُھلتی وہ کرسی پر چُپ چاپ کسی دیوی کی مانند بیٹھی اُسے نظر آتی۔آنکھ کُھلنے کے ساتھ وہ اس کے لیے چائے کا کپ بناتی۔
خوشبو دار چائے اور پیاری سی من موہنی بیوی۔وہ مُسکراتا اس کی طرف محبت پاش نظروں سے دیکھتے ہوئے ہاتھ بڑھاتا اور اُسے اپنے قریب تر کر لیتا۔
خانساماں ناشتہ تیار کرتا اور وہ اس کے کپڑوں کا جائزہ لیتی۔اس کے دن بھر استعمال کی تمام چیزیں نکال کر قرینے سے رکھتی اور پھر ناشتے کی میز پر آ جاتی۔ناشتہ لگانے میں خانساماں کی مدد کرتی۔اِسی دوران وہ تیار ہوکر میز پر آجاتا۔اکثر وہ اُسے کہتا۔

”تم اتنی بھاگ دوڑ کیوں کرتی ہو۔نوکروں سے کام لیا کرو۔“
اس کی آواز میں دھیما پن ہوتا جب وہ کہتی۔
”مجھے بیکار بیٹھنے کی عادت نہیں۔“
”کمال ہے یار میں کب کہتا ہوں تم بیکارر ہو۔بس میرے ساتھ میرے سامنے،میرے قریب رہا کرو۔“
اور وہ ہنس پڑتی۔
”یہ بھی کوئی کام ہے۔“
”جناب یہ سب سے بڑا کام ہے۔“
وہ اس کی ٹھوڑی کو پکڑکر جھٹکا دیتا۔
”تم اُکتا جاتی ہو شاید۔“
اور وہ فوراً اپنا سر نفی میں ہلاتی۔چہرے پر اثر انگیز تااثرات کی دھوپ چھاؤں ہونے لگتی۔اِس چھاؤں میں اُبھرتی،ڈوبتی گم ہوتی نمایاں ہوتی وہ اس کے سینے پر اپنا سر ٹکا دیتی اور بوجھل آواز میں یہ بھی کہتی۔
آپ کو کیا ہوگیاہے؟ایسا کیوں کہتے ہیں؟اور آپ کے ذاتی کام کرنے مجھے اچھے لگتے ہیں۔
اور وہ جُھکتا۔اُس کی پیشانی پر اُس کا یہ جھکاؤ نہ صرف طویل ہوتا بلکہ اِس میں شفقت اور محبت کی حلاوت اتنی زیادہ ہوتی کہ وہ بہت دیر تک اپنے آپ کو اِس سحر سے نہ نکال سکتی۔
ہمیشہ وہ اُسے اپنے ساتھ ناشتہ کرواتا اُس ماں کی طرح ٹھونس ٹھونس کر کھلاتا جسے اپنے بچے کے کم خوراک ہونے کا ہروقت گلہ سا رہتا ہو۔
پونے نوبجے وہ آفس چلا جاتا۔گیٹ پر اُسے رخصت کرنے کے بعد وہ واپس آتی اور گھر کی صفائی میں جُت جاتی۔
پر کبھی کبھی وہ اپنے آپ سے کہتی۔
”تو کیا یہی میری منزل تھی؟“
چیزیں اٹھا اٹھا کر صاف کرواتے وہ خود سے کہتی۔
”خدایا تو نے مجھے اتنا حساس کیوں بنایا۔یہ سوچیں کِس قدر زہریلی ہیں ہر روز میں ان کے زہر سے ادھ موئی ہوتی ہوں۔ہر نئے دن کوئی نیا خیال میرے دماغ میں کسی کیڑے کی طرح کُلبلانے لگتا ہے۔یہ کیڑا اتنی شدت سے کاٹتا ہے اور اس قدر اچانک حملہ کرتا ہے کہ دفاع کا کوئی راستہ نظر نہیں آتا۔
وہ کبھی ٹی وی لاؤنج میں کبھی بیڈ روم میں صوفے پر آنکھیں بند کئے اپنے آپ سے باتیں کرتی۔ایسے لمحات میں اس کا جی چاہتا کہیں بھاگ جائے۔ماں کے دامن میں جاکر چھپ جائے۔بھائیوں سے جی کھول کر باتیں کرے۔اُونچے اُونچے قہقہے لگائے۔ماں کو ستائے اور اُن سے بچپن کی طرح مذاق کرے۔پھر جی جان سے اپنی کتابوں میں گُم ہو جائے۔
تب وہ زارزار روتی اور خود سے کہتی۔
”یہ کیا ہوگیا؟ایسا تو میں نے کبھی نہیں چاہا تھا۔خوابوں خیالوں کا کیا ہے اگر کبھی میں نے کوئی ایسا سپنا دیکھا تھا تو اس کا یہ مطلب کب تھا
کہ میں حقیقت میں بھی ایسا ہی چاہتی ہوں۔قدرت نے بھی کیسی ستم ظریفی کی۔حالات کو کیسا موڑ دیا۔کبھی کسی وقت کے دیکھے ہوئے پل بھر کے وقفے کا خواب تعبیر کا روپ پانے میں کیسی سبقت لے گیا۔
آنکھیں آنسوؤں کے ہار پروتی رہتیں۔
”میں نے بڑی آپا کو کتنادُکھ دیا؟وہ کب تک اِس خبر کو چُھپائیں گی؟“
ایسی باتیں کبھی چُھپتی ہیں؟اللہ میں نے تو ماں باپ کے ماتھوں پر کالک تھوپ دی۔اپنے بچوں کو قابلیت اور علم کے جس فخر نے انہیں برادری میں ممتاز کیا اُس پر تو پانی پھر گیا نا۔
پر میں بھی کیا کروں۔
اصل میں میرا مقدر ہی خراب ہے اگر ایسا نہ ہوتا تو بھی میں نے کب سکھی رہنا تھا؟ایک سُلگن تو جان کے ساتھ چمٹ گئی تھی نا۔رحمان میری رگ رگ میں بس چکا تھا۔اس سے علیحدٰگی میرے بس کی بات نہیں تھی۔اس سے جُدا ہونا ایسا ہی تھا جیسے مچھلی کو پانی سے نکال کرکنارے پرپھینک دیا جائے۔اب یہ اُسکی موت کا سامان ہی تو ہے۔
دونوں میں سے کسی ایک کی قربانی مجھے دینا ہی تھی۔پر اگر کاتب تقدیر مجھ سے پُوچھتا۔ اگر یہ کہیں میرے امکان میں ہوتا تو میں اپنی خواہشات وجذبات کو بھینٹ چڑھا دیتی۔رحمان کی بیوی نہ مرتی اور نہ یہ سب ہوتا۔
شاید یہ میری کمزروی تھی کہ میں نے اُس کی خواہش کے سامنے سر جُھکایاپر اگر حقیقت کے قلب میں جھانکو ں اور غیر جانبداری کے ترازو میں خود کو تولوں تو یقینا اعتراف کروں گی کہ میں بھی ایسا چاہتی تھی۔میں اُس کے لمس کی لذت سے آشنا ہونا چاہتی تھی۔اس کی چوڑی چھاتی پر سر رکھنے اور اُس کے بازؤوں میں سمانے کی خواہش رکھتی تھی۔
مجھے اپنی اِس خواہش اِس کمزوری کا اعتراف ہے۔
کبھی کبھی وہ مسز حیدر کے پاس چلی جاتی۔چالیس سالہ مسز حیدر جن کے میاں جیوٹ کے بہت بڑے بزنس میں تھے۔وہ بھی تو ایسے ہی مسئلے کا شکار تھیں۔
مسز حیدر کوئی ڈیڑھ ماہ ہوا اِس کالونی میں شفٹ ہوئی تھیں۔بُہت سال وہ نارائن گنج میں رہیں۔اس کے گھر کے ساتھ ہی ان کا محل نماگھر تھا۔بُہت ملنسار اور محبت والی خاتون تھیں۔خاصی دوستی ہوگئی تھی۔شاید جلدگُھل مِل جانے کی ایک وجہ دُکھوں کی سانجھ کا بھی رشتہ تھا جو اُن کے درمیان پہلی ملاقات میں ہی قائم ہوگیا تھا۔
وہ بار یسال کے بُہت اونچے ٹھاکر گھرانے کی بیٹی تھیں۔پاکستان بنے ابھی کچھ زیادہ عرصہ نہیں گذرا تھا۔یہی کوئی دو تین سال ہوئے ہوں گے باریسال گرلز ہائی سکول میں کلچرل شو ہو رہا تھا۔مہمان خصوصی شہر کے ڈی۔سی مسٹر آر کے دُرّانی تھے۔مسٹر حیدر ڈپٹی کمشنر کے جگری یار تھے اور اُن کے ساتھ ہی شو دیکھنے آئے تھے۔اُس نے پُوجا کا رقص کیا۔رقص کیا تھا۔اُس کے اعظاء نے شاعری کی تھی۔گیت سُنایا تھا۔بے شمار لوگوں نے یہ شاعری سُنی اور دیکھی۔اُسے سراہا مگر حیدر صاحب دل ہار بیٹھے۔
ملاقاتیں۔اظہار آتش شوق و محبت کا، ولولے دل ناہنجارکے سب اُسے سنائے اور بتائے۔
عشق جنُون کی صورت اختیار کر گیا تھا۔اور پھر اتنے بڑے گھر کی بیٹی نے وہی کیا۔جس کے بارے میں صحیح یا غلط کی آرا حتمی ہو ہی نہیں سکتیں۔عشق کی اِس ڈور کے منصفین اپنے اپنے نظریات کے مالک ہیں۔کوئی دوسرے کا نقطہ نظر سُننے اور سمجھنے کو تیار نہیں۔
وہ ڈھاکہ بھاگ آئی اور یہاں مسلمان ہو کر اُس نے مسٹر حیدر کے ساتھ شادی کرلی۔بھائیوں نے حیدر کو مارڈالنے کی دھمکی دی تو اُس

نے تنتنا کر اُنہیں پیغام بھجوایا۔جو تم لوگوں نے میرے پتی کو نقصان پہنچایاتو یاد رکھنا میں کلکتے کے بازار میں جا بیٹھوں گی اور کوٹھے پر جلی حروف میں لکھ دوں گی۔
میں مہندر ٹھاکر کی بیٹی ہوں۔
اتنا ہی کافی تھا۔غیرت والے تھے نا۔چُپ ہوکر بیٹھ گئے۔آج سوچتی ہوں تو من بھر آتا ہے کہ میں کتنا بڑا انیائے کیا۔ایک پتی کے لیے ماتا پتا بہن بھائیوں سبھوں کو بھینٹ چڑھا دیا۔ماتا تو اسی غم میں سورگباش ہوگئیں۔پتا جی سننے میں آیا ہے زندوں سے بدتر ہیں۔
ایک بات کہوں یادرکھنا جو کچھ ہوگیا ہے اُ س پر پچھتا وابیکار ہے پچھتاوے جیون کو جہنم بنا دیتے ہیں۔قسمت کے لکھے کو ٹالا نہیں جاسکتا۔اِسی کو تقدیر جانو اور ہنسی خوشی رہو۔کہ روروکر حالات کو بہتر نہیں بتایا جا سکتا۔

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply