قائد اعظم کا دورہ کینیڈا۔۔۔۔احمد رضوان

بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح برصغیر پاک و ہند کے ان چند ممتاز ترین اسٹیٹسمین میں سے ایک تھے جنہوں نے تاریخ کا دھارا تبدیل کرنے میں بھرپورکردار ادا کیا۔جدوجہدِ آزادی میں محمدعلی جناح کا کردار تاریخ کے اوراق میں مکمل سیاق و سباق کے ساتھ پوری طرح محفوظ ہے۔قانون کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد نوجوان محمد علی جناح نے اپنی پریکٹس کا آغاز بمبئی سے کیا۔ اپنی گوناگوں صلاحیتوں اور ہمہ جہت شخصیت کی بدولت بہت جلد ایک قابل وکیل کے طور پر ابھرے۔اپنی سیاسی زندگی کا آغاز انہوں نے آل انڈیا کانگریس کے پلیٹ فارم سے کیا ۔1909 میں قائد اعظم امپیریل کونسل کے رکن منتخب ہوئے ۔1913 میں انہوں نے مسلم لیگ کو بھی جوائن کرلیا۔ بہت جلد ہندو مسلم اتحاد کے سفیر کے طور پر جانے گئے۔انیس سو تئیس میں محمد علی جناح بمبئی سے سینٹرل لیجسلیٹیو اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔قائد اعظم ایک متحرک اور فعال رکن اسمبلی تھے جو اپنی موجودگی کا احساس ہر اہم موقع پر دلاتے رہتے تھے ۔ ان کے دورہ کینیڈا کی تفصیل سے قبل اس دورہ کا پس منظر بیان کرنا ضروری ہے ۔

تاریخی پس منظر

1857 کی جنگ آزادی کے بعد جب برٹش راج پوری طرح برصغیر پر قائم ہوچکا تھا۔برٹش آرمی میں ہندوستانی سپاہ کی شمولیت بدستور جاری و ساری تھی مگر یہ ذیادہ تر سپاہیانہ بھرتی کی حد تک محدود تھی ۔ پوری زندگی سروس کرنے کے بعد ایک مقامی ہندوستانی فقط صوبیدار کے رینک تک پہنچ سکتا تھا ۔ کمیشنڈ آفیسر کی کوئی روایت موجود نہ تھی ۔جن دو کور ز میں انڈینز بھرتی ہوسکتے تھے وہ صرف کیولری اور انفنٹری تھے۔ باقی تمام کورز  ان کے لئے شجر ممنوعہ تھیں ۔ انڈینائزیشن کا عمل 1901 میں شروع ہوا جب کچھ راجواڑوں س/ریاستوں سے اشرافیہ کو بطور آفیسر کیڈر میں تربیت دی گئی مگر انہیں ریگولر آرمی میں ملازمت کی اجازت نہ تھی ۔ 1905 میں ایک اسپیشل کنگز کمیشن بنایا گیا جسے ہز میجسٹی نیٹو انڈین لینڈ فورسز کا نام دیا گیا اور اس میں وہ لوگ شامل کئے گئے جو امپیریل کیڈٹ کور کا امتحان پاس کرکے آئے تھے ۔مگر یہ انڈین آفیسرز کمپنی آفیسر سے بڑا عہدہ نہیں پاسکتے تھے ۔ پہلی جنگ عظیم کے اختتام تک ہندوستانی سپاہ کی حیثیت ایک جنگجو فورس کے مسلمہ ہوچکی تھی اور ہر جانب سے یہ بات شدومد سے دہرائی جارہی تھی کہ ہندوستانی فوج میں کمیشنڈ آفیسرز کو بھرتی کیا جائے اور ان کو آرٹلری،انجینئر،سگنل،ٹینک اور ائیر فورس کورز میں بھی تعینات کیا جائے ۔1918میں کنگز کمیشن میں پہلی بار دس ہندوستانیوں کو منتخب کرکے سینڈہرسٹ ٹریننگ کے لئے بھیجا گیا ۔ رائل ملٹری کالج سینڈہرسٹ جسے عرف عام میں صرف سینڈ ہرسٹ کہہ کر پکارا جاتا ہے برٹش آرمی آفیسرز کی ٹریننگ 1801 سے کر رہا تھا۔اس ادارے نے بے شمار حکمران و جنرلز کی ٹریننگ کی ۔ہندوستانیوں کی تعدادمگر    آٹے میں نمک کے برابر بھی نہ تھی ۔ تیس کروڑ انڈینز میں سے اتنی قلیل تعداد میں آفیسرز کا انتخاب بہت حوصلہ شکن تھا ۔ جب کہ انڈین سپاہی بلا تفریق مذہب ایک بڑی تعداد میں فوج میں شامل تھے ۔انڈین سیاست دانوں کی طرف سے حکومت پر دباؤ ڈالا جارہا تھا کہ سینڈ ہرسٹ میں کمیشنڈ آفیسرز کی تعداد کو بڑھایا جائے اور اس کے ساتھ ہندوستان میں بھی اسی طرز کا ملٹری کالج قائم کیا جائے ۔ حکومت نے اس مقصد کےلئے چیف آف جنرل اسٹاف انڈین آرمی جنرل اینڈریو اسکین   کی چیئرمین شپ کے  زیر تحت ایک کمیٹی قائم کی جسے اسکین کمیٹی کا نام دیا گیا ۔تاریخ کے اوراق میں یہ سینڈہرسٹ کمیٹی کے نام سے مشہور ہوئی ۔ جنرل اسکین 1924 -1928 تک انڈین آرمی میں چیف آف جنرل اسٹاف کے فرائض سر انجام دیتے رہے ۔ اس کمیٹی کا قیام جون 1925 میں عمل میں لایا گیا ۔ اس کمیٹی میں شمولیت کے لئے محمد علی جناح اور موتی لال نہرو کو دعوت دی گئی ۔ کمیٹی میں کل بارہ ارکان تھے ۔ کمیٹی کا پہلا اجلاس اگست 1925 میں شملہ میں ہوا ۔

کمیٹی کے اغراض و مقاصد میں یہ شامل تھا کہ کس طرح کنگز کمیشن میں ہندوستانیوں کی شمولیت کو یقینی بنایا جائے اور ان کی تعداد میں اضافہ کیا جائے ۔ کیا ہندوستان میں اسی طرز کے ملٹری کالج کو بنایا جائے؟ سینڈ ہرسٹ کمیٹی میں ایک سب کمیٹی بنائی گئی جس کے پانچ ممبرز تھے جسے انگلینڈ اور دوسرے مغربی ممالک کا مطالعاتی دورہ کرکے ایک رپورٹ پیش کرنی تھی ۔ان ملٹری اداروں میں کیسے تربیت دی جاتی ہے اور کیڈٹس کا انتخاب کن بنیادوں پر کیا جاتا ہے ۔ سب کمیٹی کے پانچ ممبران میں سے موتی لال نہرو نے استعفیٰ دے کر خود کو سینڈ ہرسٹ کمیٹی سے علیحدہ کرلیا تھا اور دوسرے اراکین میں سے صاحب زادہ عبد القیوم ذاتی مصروفیات کی وجہ سے اس دورے میں شامل نہ ہوسکے ۔جن تین اراکین نے دورہ کیا وہ محمد علی جناح ، سر فیروز سیٹھنا اور میجر زور آور سنگھ تھے جنھوں نے اپریل 1926 سے لے کر اگست 1926 تک سینڈ ہرسٹ،وول وچ انگلینڈ کا دورہ کیا ۔اس کے ساتھ ساتھ وہ فرانس،کینیڈا اور امریکا کے ملٹری اداروں میں بھی گئے ۔
قائد اعظم کینیڈا میں
جون 1926 میں قائد اعظم علیہ الرحمت اپنے دیگر دو ساتھیوں اور سیکریٹری کے ساتھ ملٹری اکیڈمی آف کینیڈا کنگسٹن تشریف لائے ۔اس بات کا تاریخی ثبوت ایک تو خود سینڈ ہرسٹ کمیٹی کی رپورٹ ہے جو 1927میں جاری کی گئی۔ دوسرا ثبوت قائد اعظم کے سوانح نگار اسٹینلے والپرٹ نے اپنی کتاب “جناح آف پاکستان “کے صفحہ 88 پر بھی سینڈ ہرسٹ کمیٹی کی رپورٹ سے لفظ بہ لفظ  نقل کرکے شامل کیا ہے ۔ اس میں اسٹینلے والپرٹ اعتراف کرتا ہے کہ اس سب کمیٹی کے دورہ کینیڈا و امریکا کی تفصیلات کی دستیابی ایک مشکل امر ہے ۔ اس دورہ کا تاریخی ثبوت ڈومینیین آؤ کینیڈا کی سالانہ رپورٹ میں بھی ملتا ہے ۔ اس رپورٹ کے صفحہ 65 پر رائل ملٹری اکیڈمی آف کینیڈا کنگسٹن میں ہوئے دوروں کی تفصیل میں درج ہے کہ جون کے مہینے کے دوران سینڈ ہرسٹ کمیٹی نے کالج کا دورہ کیا جو اس سے پہلے رائل ملٹری اکیڈمی وول وچ اور رائل ملٹری اکیڈمی سینڈہرسٹ کا دورہ کر چکی تھی ۔دورہ کرنے والوں میں کمیٹی کے یہ افراد شامل تھے۔ محمد علی جناح،مسٹر فیروز سیٹھنا،میجر ٹھاکر زور آور سنگھ،اور میجر لومبی(سیکریٹری). برسبیل تذکرہ 1926رائل ملٹری اکیڈمی کنگسٹن اپنی پچاسویں سالگرہ منا رہی تھی۔

 

 

 

 

 

 

 

 

 

یادگاری لوح کا منصوبہ
کینیڈا میں بسنے والےلاکھوں پاکستانیوں کے لئے یہ ایک پرمسرت بات ہوگی اگر حکومت کینیڈا قائد اعظم کے اس دورہ کی یاد میں ایک عدد یادگاری لوح کنگسٹن میں رائل ملٹری اکیڈمی میں نصب کرنے کی منظوری دے ۔ اس کام کا بیڑا الحمد للّہ چند محب وطن پاکستانیوں نے اٹھایا ہے ۔ اس کے لئے حکومت پاکستان کے نمائندوں بالخصوص قونصلیٹ جنرل سے گفت و شنید کا آغاز کیا گیا ہے ۔ مقامی سیاسی لیڈرز اور ممبران پارلیمنٹ سے اپنا کردار ادا کرنے کی استدعا ہے ۔ اس سے قبل ٹورانٹو کی یارک یونیورسٹی میں قائد اعظم کا مجسمہ لا کالج کی عمارت کے باہر نصب کیا گیا ہے.

۔ ٹورانٹو کی ایک سڑک کا نام جناح اسٹریٹ رکھا گیا ہے ۔

مینی ٹوبا میں ایک پارک کو ”جناح پارک” کا نام دیا گیا ہے ۔

اسی سلسلے کی کڑی کے طور ج پرانگلینڈ میں قائد اعظم کی جائے رہائش کے باہر پلاک نصب کیا گیا ہے ,ویسا ہی پلاک کینیڈا میں لگانے کے لئے کوششوں کا نقطہ آغاز یہ تحریر ہے ۔

چند دوست جن کی پرخلوص مساعی اور تعاون اس میں شامل ہے ان میں نمایاں مینی ٹوبا میں مقیم وکیل بشیر خان ،ٹورانٹو میں ممتاز افسانہ نگار،کالم نویس،اینکر روبینہ فیصل ، کمیونٹی کے جانے مانے مظہر شفیق اور یہ خاکسار ہے ۔ کمیونٹی کے تمام احباب سے اس پراجیکٹ میں اپنا اپنا کردار ادا کرنے کی خصوصی درخواست ہے۔ انشاء اللہ اس پراجیکٹ کی اپڈیٹس وقتاً فوقتاً کمیونٹی کے سامنے پرنٹ میڈیا ، سوشل میڈیا کے ذریعہ سے پیش کی جاتی رہیں گی ۔

References:

Advertisements
julia rana solicitors

1)Report of Sandhurst committee 1927
2) India from Curzon to Nehru and after :p104,126
3)Jinnah of pakistan: Stanley Wolpert
4)passing it on : Gen Andrew Skeen
5) ANNUAL DEPARTMENTAL REPORTS OF THE DOMINION OF CANADA, 1926, v.2

Facebook Comments

احمد رضوان
تیشے بغیر مر نہ سکا کوہکن اسد سرگشتہ خمار رسوم قیود تھا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply