ناول” صفر کی توہین” سلسلہ ء کلامیہ اور الحاد پرستی کے تناظر میں/تبصرہ-نادیہ عنبر لودھی

ادبی جریدہ اثبات کے مدیر ،شاعرو ادیب  اشعر نجمی کا ناول صفر کی توہین اس وقت زیر بحث ہے ۔
ایسے حسّاس موضوع پر قلم اٹھانا ہمت کا کام ہے اشعر نجمی نے اس ناول کے ذریعے قاری کے ذہن کو جھنجھوڑنے کی جو کوششیں کی ہے  وہ قابلِ  ستائش ہیں ۔اس ناول کو سلسلہ کلامیہ اور الحادپرستی کے تناظر میں دیکھتے ہیں۔

سلسلہ کلامیہ وہ علم ہے جس سے مذہبی عقائد کو عقلی دلیلوں سے ثابت کرتے ہیں ۔
الحاد کا عربی میں لغوی معنی انحراف یا راستے سے ہٹ جانا ہے۔الحاد کوatheism کہا جاتا ہے جس کا اردو زبان میں مطلب لادینیت لیا جاتا ہے۔الحاد اسلامی مضامین میں استعمال کی جانے والی ایک اصطلاح ہے جو منکروں (خدا کے وجود کا انکار کرنے والوں ) کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔

ناول کا مرکزی کردار بابو راؤ ناستک ہے ،ناستک کا معانی ملحد کے ہیں ۔ یہ بابو راؤ ملحد ہوچکا ہے اور اپنے نام کے ساتھ ناستک لگا چکا ہے ۔وہ بھگوان سے متعلق عجیب باتیں سوچتا ہے اس کے ذہنی انتشار نے اسے بے چینی اور کرب میں مبتلا کر رکھا ہے یہ ہندو ہے لہذا بھگوان کا منکر ہو چکا ہے ۔

ناول کے دیگر کرداروں میں بابو راؤ کی بیوی جو کہ مسلمان تھی اور دینی تعلیم سے مالامال تھی ،ملحد ہوچکی ہے دونوں کا ایک بچہ ہے ۔باقی کرداروں میں ایک یہودی مرد اور عیسائی عورت کے دو بچے ہیں جو کہ کسی دین کو نہیں مانتے پھر سب سے نمایاں کردار جمیل کا ہے جو کہ ناول کے صفحہ نمبر ۸۳ سے شروع ہوتا ہے اور تقریباً آخر تک جاتا ہے اس جمیل کی نفسیاتی گرہیں ناول نگار نے بہت تفصیل سے کھولی ہیں ۔ عام گھروں سے مدرسوں تک کیا ہورہا ہے ۔ اشعر نجمی نے معاشرے کے دہرے معیار پر بڑی مہارت سے نشتر چلایا ہے۔مذہبی لوگ یعنی مولوی کس قدر دوغلے ہیں ۔ اسکی وجہ وہ جنسی گھٹن ہے جس کا شکار انہیں بچپن سے عذاب الہی سے ڈرا کر کیا جاتا ہے ۔ جنس اور پیٹ کی بھوک دونوں انسان کو حیوان بنا دیتی ہیں ۔

Advertisements
julia rana solicitors

مذہبی ریاکاری اور منافقت کے ساتھ ہمارا معاشرہ ہمارے بچوں کو کیا بنا رہا ہے اصل سوال یہ ہے ۔ گلوبلائزیشن کے اس دور میں انسان کے ہاتھ میں کی پیڈ ہے لیکن وہ بالکل تنہا ہے ۔ انسان کا اکیلا پن بڑھتا جارہا ہے ۔ وہ لوگوں میں رہتے ہوئے بھی تنہا ہے کیونکہ اس کی ذہنی مطابقت ارد گرد کے لوگوں کے ساتھ نہیں ہے اسی لیے اسے اپنا وجود مردہ محسوس ہوتا ہے ہندسے زندہ انسان کا نعم البدل نہیں ہوسکتے ۔انسان اپنی شناخت کے لیے ہلکان ہورہا ہے ۔مسلسل تلاش اسے صرف تھکا رہی ہے ۔اور بس ۔
کیا انسان کے پاس خدا کے وجود پر سوال اٹھانے کا اختیار ہے؟
خدا کی ذات کیا ہے ؟
ایک ادنی کم عقل ذہن اعلی ذہن کی بابت کیسے سوچ سکتا ہے؟
ان سوالوں کو ناول نگار نے اٹھایا ہے ۔ دور حاضر کی جدید ایجاد نیٹ نے جنسی مواد کی فراہمی سے جنسی بےراہروی میں تیزی سے اضافہ کیا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ الحاد پرستی کا تناسب بھی بڑھتا جارہا ہے ۔انسانی ذہن کو باغیانہ سوچ میں الجھا کر برین واشنگ کی جارہی ہے ۔اصل مسئلہ جو نئی نسل کو درپیش ہے وہ یہ ہی ہے اس کی طرف توجہ دلانا ناول نگار کا اصل کمال ہے ۔ اثبات کے ادبی جریدوں میں اہم موضوعات ۔ عریاں اور فحش نگاری نمبر، صدی شخصیت منٹو اور میرا جی، صدی شخصیت فیض احمد فیض، سرقہ نمبر، احیائے مذہب، اتحاد، انتشار اورتصادم، عالمی نثری ادب، ہم جنس پرستی ، الحاد پرستی کو موضوع بنایا جا چکا ہے جو کہ اشعر عجمی کی دور حاضر کے تقاضاضوں کی طرف توجہ کو ظاہر کرتی ہے ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply