دو برتنوں کی کہانی۔۔جنید منصور

پرانے زمانے میں کسی دشوار گزار جگہ ایک ادھیڑ عمر خاتون رہتی تھی۔اس کی   جھونپڑی میں پانی کے دو ہی پرانے سے  برتن تھے جن میں وہ  روز دور ندی سے خود جا کر پانی  بھر کر لاتی تھی اور اپنے گھڑے کو اگلے دن تک کے لیے بھر لیتی تھی۔دو  میں سے ایک  برتن تھوڑا پرانا تھا اور وہ تڑخ چکا تھا۔یہ خاتون جب بھی پانی بھر کر لاتی تھی تو جو برتن ٹھیک تھا  اس میں تو پورا پانی آ جاتا تھا، مگر جو  برتن اب تڑخ چکا تھا اس میں سے پانی  راستے بھر میں گرتا چلا آتا تھا اور  گھر پہنچتے پہنچتے بمشکل نصف برتن پانی ہی اس برتن میں رہ جاتا تھا۔ کچھ عرصہ تک یہ سلسہ یوں ہی چلتا رہا۔ایک دن جب خاتون پانی بھر کر واپس آ رہی تھی تو صاف برتن نے ٹوٹے ہوئے برتن کو  طعنہ دیتے ہوئے کہا کہ  تم کمال کے برتن ہو ، اپنے آپ کو سنبھال ہی نہیں پاتے، جتنا پانی تم میں ڈالا جاتا ہے تم اس کا آدھا بھی سنبھال پاتے اور گھر آتے آتےآدھے سے زیادہ سے پانی گرا دیتے ہو ۔تم غیر ذمہ دار بھی ہو اور نااہل بھی۔ یہ بات اس ٹوٹے ہوئے برتن کے نازک سے دل میں تیر کی طرح پیوست ہو گئی اوروہ روز بروز شرمسار ہوتا گیا اوراور اپنی نااہلی اور بے بساعتی پر کڑتا رہتاتھا۔تقریبا ایک مہینہ ایسے ہی گذر گیا پھر تنگ آ کر اس نے فیصلہ کیا کہ وہ خاتون سے درخواست کرے گا کہ اسے اس ذمہ داری سے فراغت دے دی جائے کیونکہ وہ اس کا اہل نہیں تھا۔ پھر ایک دن حوصلہ مجتمع کر کے  جب خاتون ندی سے واپس جا رہی تھی تو  اس نے خاتون سے اپنے دل کی بات کہہ دی۔خاتون ا سکی  بات سن کر مسکرائی اور کہنے لگی کہ وہ جانتی تھی کہ اس برتن میں چھوٹے چھوٹے سوراخ ہو چکے تھے۔ اور یہ بھی کہ جب بھی وہ پانی بھر کر گھر لے کر جاتی تھی تو زیادہ تر پانی راستے میں بہہ جاتا تھا۔مگر اس کے باوجود اس خاتون نے اس برتن  کو اپنے پاس کیوں رکھا ہوا تھا اور اسے ابھی بھی پانی بھرنے کے لیےکیوں لے کر جاتی تھی اس کا جواب وہ خاتون راستے میں سے گذرتے ہوئے  دے گی۔واپسی پر خاتون نے  دونوں برتنوں سے کہا کہ وہ راستے میں اپنی جانب کے راستے کی ا طراف  کو دیکھتے ہوئے جائیں اور گھر جا کر اسے بتائیں کہ انہوں نے کیا دیکھا۔  گھر جا کر خاتون نے  اس برتن سے یہی سوال کیا جو ٹھیک تھا۔ اس نے جواب دیا کہ  اس نے کچھ نہیں دیکھا۔ پھر خاتون نے یہی سوال ٹوٹے ہوئےبرتن سے کیا۔ اس  برتن نے جواب دیا کہ وہ جس راستے سے گذر کر آیا ہے اس جانب پھول کھلے ہوئے تھے۔خاتون اس بات پر مسکرا پڑی اور کہا تم نے باالکل ٹھیک کہا کیونکہ جس راستے سے تم گذر کر آتے تھے وہاں تمہارے دیے ہوئے پانی سے پھول ہی پھول کھل چکے تھے جبکہ جس  برتن سے پانی نہیں گرتا تھا اس راستے میں کوئی تبدیلی نہیں آئی تھی۔اپنے ذات کے  لیے تو لوگ حفاظت اور ذمہ داری کے تمام تر تقاضے پورے کرتے ہیں لیکن ایسے لوگ بہت کم ہوتے ہیں جو دوسروں کے راستےمیں پھول اگاتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ابتدائی دنوں میں جب کرونا قیامت ڈھا رہا تھا اور دنیا اس کے ہاتھوں  بے بس تھی تو لو گ اپنی بے بسی اور بےبضاعتی کی وجہ سےمایوس ہوتے چلے جارہے تھے۔اپنوں کی تڑپتی، سسکتی موت ہلاکت خیزی  ، اور اپنے کامل بے بس ہوجانے کےاحساس نے  پوری دنیا میں لوگوں کو شدید قسم کے ڈپریشن اور مینٹل ٹراما میں مبتلا کردیا تھا۔زندگی جیسے بے معنی، بدرنگ اوربدنما سی ہو گئی تھی۔ایسے میں اکثر لوگوں نے اس قیامت کو جھیلنے کی بجائے اس عذاب سے جان چھڑاتے ہوئےخد کشی کرنے کو ترجیح دی۔مجھے یاد پڑتا ہے کہ اٹلی میں جب سڑکیں لاشوں سے بھر گئیں اور ان لاشوں کو اٹھانے والا کوئی نہیں تھاتو ایک ارب پتی اٹالین کی کہانی میری نگاہوں سےگذری جس نے اپنے سامنے اپنے بہت سے پیاروں کو تڑپتے سسکتے جان دیتے ہوئے دیکھا۔باوجود اس کے کہ وہ بے پناہ دولت اور وسائل کا مالک تھا ، اس نے مایوس ہو کر چھت سے کود کراپنی جان دے دی تھی۔مایوسی کی انتہا!  مگر اس کے ساتھ ساتھ میں ایسے بے تحاشا  افراد اور تنظیموں کا جانتا ہوں جنھوں نے وبأ  کے ان دنوں میں دن رات ایک کر ڈالے اوردامے، درمے، سخنے، ہر ممکن، بساط بھر، بساط سے سوا ء لوگوں کی مدد کی۔سلام ایسے تمام افراد پر اور ایسے تمام ڈاکٹرز، پیرا میڈکز،ہسپتال کے تما م تر عملے اوراس جونئیر سٹاف پر جنھوں نے اپنی جان پر کھیل کر اس تمام عرصہ میں لوگوں کی نہ صرف خدمت کی  بلکہ بہت سارےلوگوں کو موت کے منہ سے نکال، بلکہ، چھین لائے۔ایسے میں ریسکیو۱۱۲۲ کے عملے کی تعریف و تحسین نہ کرنا ان کی عظیم خدمات  کو نفی کرنے کے برابر ہو گا۔سلام ان عظیم سپوتوں پر جو اس بات کو جانتے ہوئے بھی کہ ان کی گاڑی میں ایک ایسا مریض موجود ہےجو کووڈ انیس کا شکار ہے اورغالب امکان یہ ہے کہ اس مریض کوہسپتال پہنچاتے ہوئےہر ممکن امکان ہے کہ یہ مرض ان کو بھی لوحق ہو سکتا ہے، پھر بھی انھوں نے اپنے جان کی پرواہ نہ کرتے ہوئے  اور لازمی حفاظتی لباس اور کٹ نہ ہوتے ہوئے بھی ایسے تمام  مریضوں کو تمام تر توجہ اور احتیاط کے ساتھ ہسپتال پہنچایا۔ سلا م ان تمام ہیروز پر جوکرونا کے خلاف اس جنگ میں گمنام رہے مگر اپنے فرض پر ایسا پہرہ  دیا کہ اسلاف کی یاد تازہ کردی اور اس بات کا جواب دیا کہ انسان اشرف ا لمخلوقات کیوں کہلاتا ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply