لسانی سادیت پسندی اور لسانی پولیسنگ….ناصر عباس نیّر

زبان اور نفسیات کا گہر ارشتہ ہے۔ دونوں کے تعلق کے کئی رخ ہیں۔ مثلاً زبان ،ہمارے ادارک کالازمی حصہ ہے۔ جس ادراک میں زبان موجود نہیں ہوتی یا جو چیزیں ہمارے دائرہ ادراک سے باہر سمجھی جاتی ہیں—ان دونوں کی اطلاع بھی ہم خود کو یا اوروں کو زبان ہی کے ذریعے دیتے ہیں۔ اسی طرح ہم جس تصور دنیا کے حامل ہوتے ہیں،اس کی تعمیر میں بڑا حصہ ہماری زبان اور اس کی کہانیوں ،کہاوتوں ،امثال ، سٹیریو ٹائپ اور علامتوں کا ہوتا ہے۔ لیکن اس پہلو پرکم تحقیق ہوئی ہے کہ زبان کی غلطی کی نشان دہی کا –نشان دہی کرنےو الے اور اس کا نشانہ بننے والے شخص کی نفسیات سے کیا تعلق ہے؟
روسی امریکی ماہر لسانیات اور نقادرومن جیکب سن نے گزشتہ صدی میں Aphasia اور زبان کے تعلق پر کئی اہم باتیں کہہ دی تھیں۔ افیژیاایک ایسی بیماری ہے جس میں آدمی زبان پر اپنی دسترس کھودیتا ہے۔اس کاسبب سر کی چوٹ یا دماغ میں ٹیومر ہوسکتا ہے۔ آدمی لفظ بھول جاتا ہے یا پورا جملہ نہیںبول سکتا۔ رومن جیکب سن کی تحقیق(جس میں اس نے سوسئیر کے نظریات سے بھی مدد لی) یہ تھی کہ زبان میں مماثلت اور قربت کے رشتے ہیں۔ ہم مماثل لفظوں کے ذخیرے سے اپنے مطلب کا ایک لفظ منتخب کرتے ہیں اور پھر ان کی قواعدی قربت کے تحت ان سے جملہ بناتے ہیں۔ افیژیا میں مماثلت یا قربت یا دونوں متاثر ہوتے ہیں۔ ایک آدمی ،کرسی اور اس سے مماثل اشیاکو بھول جاتا ہے یا کرسی کو جملے میں استعمال کرنے سے قاصر ہوتا ہے یا پھر دونوں چیزیں بھول جاتا ہے۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ استعارے کی بنیاد مماثلت پر اور مجاز مرسل کی اساس قربت پر ہے۔دونوں تخلیقی اظہار کی بھی اہم ضرورت ہیں۔ افیژیا ، ان دونوں پر شب خون مارتا ہے۔ یہ آدمی کو اپنے ابلاغ سے نہیں، زبان کے تخلیقی استعمال سے بھی محروم کرتا ہے۔
جن دنوں میں اردو سائنس بورڈ میں تھا ، ہر ماہ کسی سائنسی موضوع ہر سیمینار منعقد کروایا کرتا تھا۔ اسی دوران میں میری ملاقات کلینیکل نفسیات کی ایک پاکستانی ماہر سے ہوئی۔ انھوں نے اپنی نگرانی میں ہونےو الی ایک تحقیق کا ذکر کیا۔ یہ تحقیق ،سرکاری پرائمری سکول کے بچے بچیوں کے سکول چھوڑنے کے نفسیاتی اسباب سے متعلق تھی۔ انھوں نے یہ نکشاف کیا کہ اس کی سب سے اہم وجہ ان بچوں کے انگریزی اور اردو کے پرچوں کی جانچ کا طریقہ تھا۔ جن بچوں کے ان دونوں زبانوں کے امتحانی پرچوں پر جتنے زیادہ سرخ نشانات لگائے گئے تھے، ان کی بڑی اکثریت نے سکول چھوڑدیا۔ بچے دوسرے مضامین کی غلطیوں کے سبب اتنے دل گرفتہ نہیں ہوئے،جس قدر وہ زبان کی غلطیوں کے سبب ہوئے۔ کم از کم میرے لیے یہ انکشاف چونکادینےو الا تھا۔ دو وجہوں سے۔ ایک یہ کہ سکول چھوڑنے والے بچے ، اپنے فیصلے کے اسباب جانتے تھے مگر سکول میں —اور شاید گھر میں بھی —انھیں ان اسباب پر گفتگو کی اجازت نہیں تھی(کتنے سکولوں اور گھروں میں یہ اجازت ہے؟)۔ دوسری وجہ یہ کہ “لسانی گرفت ” بچے کو شدید صدمہ پہنچاتی ہے اور وہ اس جگہ اور ماحول کو خیر باد کہہ دیتا ہے ،جہاں یہ گرفت ، ڈانٹ ڈپٹ کی جارہی ہوتی ہے۔ذرا غور کیجیے: ایک بچہ اپنی زبان کی غلطی کی نشان دہی کو صدمے کے طور پر کیوں لیتا ہے؟اس کی ایک ممکنہ وجہ یہ ہے کہ بچہ زبان کے ذریعےاپنی لازمی ضرورتوں کا ابلاغ ہی نہیں کرتا، وہ دنیا کے ساتھ اپنے رشتے کو تخلیقی انداز میں بیان کرنے کی کوشش بھی کرتا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ استعارہ سازی ،زبان کا تخلیقی رخ ہے اور افیژیا میں استعارہ سازی شدید متاثر ہوتی ہے۔جب بچے کو سرعام ٹوکا جاتا ہے تو وہ لازمی ابلاغ اور تخلیقی اظہار دونوں کے سلسلے میں خود کو اپاہج محسوس کرتا ہے؛ایک طرح کے افیژیا کا تجربہ کرتا ہے۔ لہٰذا وہ واپس اپنی پہلی ،مادری زبان کی طرف لوٹ جاتا ہے جہاں اسے اپنے اپاہج ہونے کا تجربہ نہیں ہوتا۔
ہم سب نے سن رکھاہے کہ زبان کا زخم ،تلوار کے زخم سے بڑا ہوتا ہے۔یہ زخم صرف گالی سے نہیں ،زبان کی غلطی کی سرعام نشان دہی سے بھی لگتا ہے۔اس زخم میں اہانت اور تحقیر بھی شامل ہوتے ہیں۔
لیکن یہ معاملہ صرف سکول چھوڑنے والے بچوں تک محدود نہیں۔ایسے قصے کئی سابق اچھے لکھنے والوں کے پاس ہوں گے ،جو اسی سبب سے ادب لکھنا چھوڑ گئے۔نیز اس کا تعلق کسی بھی زبان کو سیکھنے کےعمل سے بھی ہے۔ سرکاری تعلیمی اداروں میں چودہ برس تک لازمی مضمون کے طور پرا نگریزی پڑھائی جاتی ہے،مگر لوگ انگریزی کے چند جملے بول اور لکھ نہیں سکتے۔ کیوں ؟ اس لیے کہ ان کے ذہنوں میں تلفظ اور قواعد کی غلطی کا خوف ،کسی آسیب کی مانند رہتا ہے۔ یہ خوف ،انگریزی پڑھانے کےاس طریقے کے سبب ہے ، جس میں” صحیح زبان ” پر حد سے زیادہ زور دیا جاتا ہے۔ ذہنوں میں زبان کی جگہ خوف باقی رہ جاتا ہے۔ لوگوں کے دلوں کو ٹٹولیں تو “صحیح انگریزی ” نہ بول سکنے کا خوف ،احساس جرم اور احساس کمتری کے ایک عجب ملغوبے کی صورت موجود ہوتا ہے۔ یہی سلوک ” صحیح اردو بولنےو الے” پشتو اور وہ زبانیں بولنے والوں سے روا رکھتے ہیں، جن میں تذکیر وتانیث کے طریقے اردو سے الگ ہیں۔
اس سارے قصے میں اہم کردار” صحیح زبان” کے علمبرداروں کی نفسیات کا ہے۔صحیح زبان کا تصور، زبان ہی کی مانند رواجی اور ثقافتی ہے۔ ایک علاقے میں جو لفظ صحیح سمجھا جاتا ہے ،وہ دوسرے علاقے میں غلط سمجھا جاسکتاہے۔ ایک زمانے میں صحیح اور فصیح سمجھے جانے والے الفاظ ،دوسرے زمانے میں اس کے برعکس ہوسکتے ہیں۔ اسی طرح جنھیں آج سلینگ کہتے ہیں،وہ کل فصیح ہوسکتے ہیں۔آج کے غلط العوام کل کے غلط العام ہوسکتے ہیں۔ “صحیح اور معیاری ” زبان پر دسترس بلاشبہ ہربولنے والے اور لکھنے والے کی ضرورت ہے اور جسے وہ بالآخر پوری کرلیتا ہے مگر یہ بھی دیکھیں کہ “صحیح اور معیار ی ” زبان کوئی جامد چیز نہیں ۔ نیز ہم جسے “صحیح اور معیار ی زبان ” کہتے ہیں،وہ لغات، شاعری اور اہل زبان کے ذریعے خاص طور پر طے کی جاتی ہے اور اس کے “سیاسی ثقافتی ” اسباب بھی ہوتے ہیں۔سیاسی اشرافیہ کی مانند ایک لسانی اشرافیہ بھی ہوتی ہے جو پہلےدن سے موجود ہے۔ لسانی اشرافیہ، ایک بڑی تعداد کو غلط اور غیر معیاری زبان کے نام پر نام نہاد “مین سٹریم ” سے خارج کرتی ہے۔سند کے نام پرکئی بار زبان کے تخلیقی استعمال کو محال بنانے کی کوشش کرتی ہے۔ حالاں کہ جنھیں سند بناکر پیش کیا جاتا ہے ،ان میں بہت کم اپنے زمانے میں سند تھے۔
جو لوگ دوسروں کی گفتگو یا تحریر میں غلطیاں نکالتے ہیں، ان کی مخصوص نفسیات ہوتی ہے۔ جس طرح “اخلاقی پولیسنگ ” ہوتی ہے ،اسی طرح “لسانی پولیسنگ ” ہے:دونوں گمراہوں پر نظر رکھتے اور ان کی اصلاح اپنا فریضہ سمجھتے ہیں۔ میر انیس نے انھی کے بارے میں کہا تھا۔
غلط یہ لفظ وہ بندش بری یہ مضموں سست
ہنر عجیب ملا ہے یہ نکتہ چینوں کو
“صحیح زبان ” کےسلسلے میں حد سے زیادہ حساس لوگ، حقیقت میں سخت گیر ہوتے ہیں۔”صحیح زبان” کے دعوے اور راسخ العقیدگی میں بھی گہرانفسیاتی تعلق ہے۔انھیں لسانی سادیت پسند کہنا چاہیے۔ان کی طبیعت میں دوسروں کی نادانستہ خطاؤں یا دانستہ انحراف کے لیے کوئی ہمدردی نہیں ہوتی ۔وہ اپنے خیالات ـــ—-خواہ وہ کسی قسم کے ہوں—میں آہن کی مانند سخت ہوتے ہیں۔ انھیں قائل کرنا گویا آسمان میں تھگلی لگانا ہے۔وہ صحیح لفظ پر صحیح ،نئےاور اعلیٰ خیال کو قربان کرنے پر بھی تیاررہتے ہیں،کبھی کبھی تو آدمی اور اس کے ساتھ تعلق کو بھی!کئی اچھے ادیب ، لسانی سادیت پسندوں کی بھینٹ چڑھ گئے۔
نئے لکھنے والوں کو” صحیح زبان بولنے اور لکھنے ” کا دعویٰ کرنے والوں کے خوف کے بغیر لکھنا چاہیے۔ ہر آدمی مسلسل بولنے اور لکھنے سے ایک اپنی زبان بالآخر وضع کرلیتاہے۔ جس زبان کا ابلاغ ہورہا ہو،اس کے صحیح ہونے میں شک نہیں ہونا چاہیے۔
ناصر عباس نیّر
یکم ستمبر 2021ء

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply