حریت والا نہیں رہا!۔۔ عامر فاروق

حریت والا نہیں رہا۔ سید علی گیلانی چلے گئے۔ خدا کرے حریت کی فکر زندہ رہے۔

محاورہ اور مشاہدہ تو یہی کہتا ہے کہ قبرستان ناگزیر لوگوں سے بھرے ہوئے ہیں لیکن کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کا جانا طویل عرصے تک خلا کا احساس دلاتا رہتا ہے۔ گیلانی صاحب بھی ایسے ہی تھے۔ 91 برس کا ضعیف سید ان کرداروں کے لیے ڈراؤنے خواب سا تھا جو تقریباً سوا کروڑ کشمیریوں کے بنیادی حق خود ارادیت پر کسی بھی طرح کی قدغن لگانے کا سبب یا خواہش مند تھے۔

میرے منہ میں خاک لیکن کشمیریوں کو ایسا باکردار، اصول پسند، مخلص اور آہنی عزم والا وکیل شاید ہی پھر مل سکے۔

کشمیریوں کا مطالبہ تقسیم ہند کے ایجنڈے کی تکمیل، ہندوستان کی تحریک آزادی کے رہنماؤں کے وعدوں، اقوام متحدہ کی تعبیر طلب قراردادوں اور دنیا کے ہر انسان کے ناقابل تردید بنیادی حق، حق خود ارادیت کی پاسداری کی رو سے 101 فیصد جائز ہے۔ اس حق کے حصول کے لیے سات دہائیوں سے زائد عرصے سے بد ترین جبر سہتے اور ہزاروں کی تعداد میں شہید ہوئے کشمیریوں کے لیے سید کی رحلت 5 اگست 2019 جیسا کڑا دن ہے۔

5 اگست 2019 کو مودی کی حکومت نے جمہوریت کی روح اور عالمی یقین دہانیوں کو جوتے کی نوک پر رکھتے ہوئے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر کے دیگر ہندوستانی ریاستوں کی طرح اس کو ہندوستانی یونین کا حصہ قرار دے دیا۔ اس پر کشمیریوں کے ممکنہ شدید ردعمل کو دبانے کے لیے بد ترین اور شاید طویل ترین کرفیو نافذ کر دیا گیا۔

ہم جو ان کی امید تھے، پوچھتے رہ گئے تو کیا جنگ کر دیں؟ آج کی دنیا تو ویسے اقتصادی اور سفارتی حوالوں سے معاملات کو دیکھتی ہے۔ ان عدسوں کے ساتھ ہندوستان کی اہمیت ہمالہ اور سوا کروڑ کشمیریوں کی اصولی حمایت حماقت نظر آتی تھی۔ سو دنیا چپ رہی۔

ہم جو معاملے کے حصہ دار تھے، ہم بھی تھوڑا عرصہ ہفتہ واری نصف گھنٹے کی دھوپ سینکائی سے ضمیر کو کوسی کوسی تھپکیاں دینے میں کامیاب رہے۔ اب بھی کبھی خیال آتا ہے تو کشمیر کو نیوکلیئر فلیش پوائنٹ اور خطے کے امن کے لیے خطرہ قرار دینے کا بیان جاری کرتے ہیں۔ پہلے دنیا ایک کان سے سن کر دوسرے سے نکال دیتی تھی اب شاید سننے کا بھی تکلف نہیں کرتی۔

یہ سب ہوتا تھا، ہوتا رہا لیکن سید حوصلہ نہ ہارا۔ سن 2000 کے بعد کئی بار پیشہ ورانہ ضرورتوں کے تحت سید صاحب سے بات کرنے کا موقع ملا۔ سینکڑوں میل کے فاصلے سے فون کے توسط سے سنائی دینے والی آواز حوصلے سے بھرپور ہوتی تھی۔ صاحبِ آواز کی امید اپنے مؤقف سے وابستگی اور رب پر بھروسے سے جڑی ہوئی تھی، سو رہی۔ عزم میں دراڑ نہ آئی۔ تا وقتیکہ سانسوں کی لڑی ٹوٹ گئی۔

Advertisements
julia rana solicitors

گیلانی صاحب کامیاب ہو گئے۔ اکانوے برس کے ایک نحیف الجثہ بوڑھے کو “دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت” غلام نہ بنا سکی۔ میرا ماننا ہے کہ خدا کی بہترین پناہ اور اجر ان کے منتظر ہیں۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply