عزیزم!
کسی نے کہا تھا کہ آخر میں سب کچھ ان کہانیوں اور داستانوں میں بدل جاتا ہے جنہیں ہم دوسروں کو سناتے ہیں- کہانی کئی ہزار سال سے چل رہی ہے اور اسے دلچسپ بنانے میں ہر آنے والا اس میں کچھ نیا شامل تو کرتا ہی ہے، لیکن ساتھ ہی ساتھ اسے بیان کرنے کے انداز میں بھی بدلاؤ آتا رہتا ہے- کہانی انسان کو کہیں اداس کر جاتی ہے تو کہیں خوشی کے رنگ میں رنگ دیتی ہے، کبھی اسے حیرت کے بگولوں میں اڑا لے جاتی ہے اور بعض اوقات اسے تنہائی کی بانہوں سے لپٹ کر دل کا غبار نکالنے پر اکساتی ہے- کہانی میں نے کب سننا شروع کی، مجھے نہیں معلوم، البتہ جب کچھ سمجھنے کے قابل ہوا تو یہ جانا کہ میں تو اس سے کہیں بہت پہلے ہی کہانی سن رہا تھا-
یہ لازم نہیں ہے کہ کہانی انسان ہی سنائے اور سنے بھی کوئی دوسرا انسان، بلکہ انسان قدرت کے کسی دوسرے شاہکار کو بھی داستان سنا سکتا ہے- ہو سکتا ہے قدرت خود کسی انسان کو کہانی سننے کے لیے مدعو کر کے اپنا حلقہ قائم کر لے- صحراؤں میں، پہاڑی گپھاؤں میں، سمندر کی لہروں پر، جنگل کی خاموشی میں اور کھنڈروں کی ویرانی میں، بعض اوقات فطرت خود ہی کہانی کا پلاٹ قائم کرتی ہے، کردار متعین کرتی ہے، مناظر ترتیب دیتی ہے اور پھر اس میں کچھ ناقابل یقین، کبھی دلکش اور کبھی دل دہلانے والے واقعات، کبھی کرب و تکلیف اور کبھی راحت و شادمانی کے لمحات شامل کر کے ان چند لوگوں کو بیان کرتی ہے جو فطرت سے جڑ کر اس حلقے میں آن بیٹھتے ہیں- یوں آنے والے کئی زمانوں تک وہ لوگ کہانی گو بن کر سینہ بہ سینہ اس روداد کو نسلوں میں منتقل کرتے رہتے ہیں- ایسی کہانیاں فقط بیان کی جاتی ہیں لکھی نہیں جاتیں- وہ ذہن و دل میں نقش ہو جاتی ہیں اور اگر کبھی سننے والا کوئی نہ رہے تو دوبارہ فطرت اسے اپنے اندر سمو لیتی ہے اور وہ علم، وہ باتیں، وہ حکایتیں اور وہ دانش معدوم ہو کر انسان کو کئی رازوں سے محروم کر دیتی ہے-
تم نے مراکش کی ایک قدیم کہاوت سنی ہو گی کہ، “جب کہانی گو مرتا ہے تو سمجھو ایک پورا کتب خانہ یعنی لائبریری جل گئی-” کتابیں جلنے کا مطلب جانتے ہو؟ بغداد والوں سے پوچھو کتابیں جلنا کیا ہوتا ہے، اندلس والوں سے معلوم کرو کہ کتابوں کو نذر آتش کرنے کی کیا قیمت ہوتی ہے؟ میں بتاتا ہوں تمہیں- کتب خانے کو جلانے کا مطلب علم و دانش سے محروم ہو کر نئے تجربات کی بھٹی سے گزرنا اور پھر ان تجربوں سے سیکھ کر اسے محفوظ کرنے کی جدوجہد کرنا ہے- یہ سب ایک دن یا ایک سال کا کام نہیں بلکہ نسلوں کی مشترکہ جدوجہد ہوا کرتی ہے- اسی لیے کہانی سینہ بہ سینہ چلتی ہے کہ جلایا نہ جا سکے اور کہیں نہ کہیں، کسی نہ کسی کو سنا کر علم و دانش آگے منتقل کر دیا جائے- صرف مراکش کے حکاویتی نہیں فارس کے منطق الطیر سنانے والے، ہندوستان کے کلیلہ و دمنہ، عرب کی الف لیلہ و لیلہ کیا ہیں۔۔۔۔ یہ سینہ بہ سینہ چلنے والی داستانیں ہی تو ہیں- یہ کہانی کو آگے بڑھا کر نسلوں کو شعور دینے کی کوشش کرنے والے نہیں تو اور کیا ہیں؟ افسوس کہ ان سب کہنے اور سننے والوں کو مشینوں نے نگل لیا ہے-
مجھے انتظار حسین کی بات یاد آ رہی ہے کہ “کہانی تو اس وقت بھی تھی جب آدمی کم اور درخت زیادہ ہوا کرتے تھے”، آگ کے الاؤ کے گرد بیٹھ کر وہ حکمت و دانش کو کہانی اور داستان کے خوبصورت غلاف میں لپیٹ کر اگلی نسل کو منتقل کر دیا کرتے تھے- مگر اب دیکھو، غور کرو کہ جب تم بہت چھوٹے تھے تو کہانی کیا تھی اور سنانے والا کون تھا اور کیا وہ کہانی اب تمہاری یاداشت کے کونوں کھدروں میں چھپی ہوئی ہے یا نہیں؟ لیکن کیا تم اب کسی کہانی گو کو دیکھتے ہو، خود سنتے ہو یا باقاعدگی سے حلقہ بنا کر سناتے ہو؟ نہیں۔۔۔۔۔۔! کارخانوں کے شور میں اور اونچی دیواروں کے اندر بیٹھ کر بھلا یہ سب سنا سنایا جا سکتا ہے کیا؟ بقول انتظار حسین، “اب ’بیتال پچیسی، نہیں لکھی جا سکتی۔ کیوں؟ اس لئے کہ بیتال نے یہ کہا تھا کہ ”راہ اچھی باتوں کی چرچا میں کٹے تو اچھا ہے۔ سو اے راجا جو میں کتھا کہتا ہوں، اسے سن۔ جو تو رستے میں بولے گا تو میں الٹا پھر جاؤں گا۔“ مگر اب ہم بولنے بہت لگے ہیں۔ ہماری زندگیاں اور ہمارے راستے بہت پرشور ہیں۔ ان راہوں پر چلتے ہوئے انسان اور غیر انسان کے درمیان مکالمہ ممکن ہی نہیں رہا۔ مسلسل شور کے بیچ ہماری سماعت میں فرق آ گیا ہے۔ کچھ آوازیں تو اب ہم سن ہی نہیں سکتے۔”
میں نہ جانے تمہیں کیا لکھنے بیٹھا تھا مگر لکھا کچھ اور گیا- یہی نتیجہ ہے چند لمحے خود کو ہر شور سے نکال کر فطرت کے حلقے میں بیٹھنے کا؛ یہاں بے شمار نئی باتیں اور احساسات جنم لینے لگتے ہیں- مجھے یقین ہے یہ خط تمہارے لیے اکتاہٹ کا باعث نہیں ہو گا- میں تو تمہیں وہ کہانی بتانا چاہتا تھا جو مراکش میں لکھی گئی ہے – فطرت کے کہانی بُننے کا انداز بہت عجیب ہے جسے تم اور میں نہیں سمجھ سکتے- زمین نے جیسے جھٹکے سے ایک کروٹ لی اور سب کچھ ملیامیٹ ہو گیا- کئی ہزار انسان جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے، لاکھوں انسان گھروں سے محروم ہو گئے اور فطرت کی مستعار دی گئی وادیوں، چٹانوں اور زمین پر بھوکے پیاسے پڑے نظر آنے لگے- یوں ایک اور کہانی وجود میں آ گئی جسے وہاں کے کہانی گو نسلوں تک سنایا کریں گے- ہاں اسی مراکش کی بات کر رہا ہوں جسے یوسف بن تاشفین نے آباد کیا تھا- وہی یوسف جسے اندلس والوں نے اختلاف کے باوجود مدد کے لیے پکارا اور وہ آیا اور چھا گیا- اندلسیوں نے کہا تھا، “رعی الجمال خیر من رعی الخنازیر ” اونٹوں کا چرواہا بننا ( یعنی یوسف بن تاشفین کی غلامی ) سؤروں کا چرواہا بننے سے ( یعنی عیسائیوں کی غلامی )سے بہتر ہے-” یہ اسی ابن تاشفین کا مراکش ہے، انھی صحرائیوں کا جنہیں غیر “بربر” کہہ کر پکارتے تھے-
بس اب یہ کہانی چل پڑی ہے۔۔۔کون جانے کہاں تک جائے گی، کون سنے گا اور کون سنائے گا- شور اتنا بڑھ چکا ہے کہ شاید یہ سننے کو وہی آگے بڑھیں جو پہلے ہی فطرت کے حلقے میں گوشہ نشین ہیں- کہتے ہیں کہ فطرت کی بنائی ہوئی چیز کا بدل فطرت کی بنائی ہوئی چیز ہی ہو سکتی ہے سو اس دل خراش کہانی کا کیا بدل ہو گا کون جانے۔۔۔۔۔۔۔
خدا تمہیں اس شور کے بیچ اپنی سماعت کھو جانے اور فطرت سے مکالمے کی محرومی سے بچائے!

تمہارا اپنا۔۔۔
عبداللہ
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں