ذائقہ۔۔ربیعہ سلیم مرزا

کہانی ہمیشہ سادہ ہوتی ہے، بنا کسی الجھاؤ کے،لفاظی کے بغیر ۔۔ رہا “ڈرامہ۔۔۔ تو وہ ڈراموں میں ہوتا ہے ۔
نورا  ۔۔شکورے کا چچیرا بھائی تھا۔ دونوں پیدائشی زمیندار تھے ۔دادے کی زمین مکان کے سانجھے وارث ۔

شریکا کب مل بیٹھتا ہے ؟۔۔۔چنانچہ دونوں کے باپ مرنے سے پہلے آنگن کے بیچوں بیچ اٹھ فٹ اونچی دیوار کھڑی کرکے مرے ۔جو چھت پہ جاکے چار فٹ رہ گئی۔
نورا ۔شکورا جوان ہوئے تو پھپھیوں ماسیوں کو شادی کی فکر ہوئی۔
نورے کا رشتہ تو پنڈ سے ہی مل گیا۔بیوی منہ متھے لگتی تھی ۔سگھڑ سمجھدار اور خاندان والی۔اس پہ نورا بھی مزاج کا نرم ۔پرے پنچائت والا ۔چنانچہ تین سال میں ہی دو بچوں نے ویہڑے میں رونق لگادی۔

شکورے کی ووہٹی کی تلاش جاری تھی۔پنڈ کی بوا شکورے کے رشتے کے لیے تین سال ماری ماری پھرتی رہی آخرکار دوسری تحصیل میں سکھاں کے گھر جا پہنچی۔
سکھاں کے ماں باپ کی فکر اور شکورے کی ضرورت دونوں کو جلدی تھی، چنانچہ چٹ منگنی پٹ بیاہ بھی ہوگیا ۔

شکورا جو نورے کو راہ چلتے اچھی قسمت کے طعنے دیتا رہتا تھا اس کا  اپنا مقدر سنور گیا ۔لال جوڑے میں سکھاں ایسی لگتی جیسے شکورا چاند کو لپیٹا مار کے لے آیا ہو ۔
سکھاں کو دیکھتے ہی نورے کا تو جیسے دل ہی تڑک گیا۔اپنی کرماں والی اسے مسلن لگنے لگی ۔

“کیا تھا ؟ جو نصیبہ لکھنے والا ،سکھاں کو دیوار کے اس پار نورے کے نصیب میں لکھ دیتا ۔شکورے جیسا ڈنگر کیا جانے عورت کی قدر کیا ہوتی ہے” ۔؟
نورے نے بچپن سے ہی دیوار کے اس پار سے شاید ہی کوئی اچھی بات سنی ہو ۔

شکورے نے شادی کے سال بعد ہی کت سیاپہ شروع کردیا ۔بیوی سے لاڈ پیار تو دور ۔سادہ بات میں بھی گالی کا تڑکہ نہ بھولتا ۔

سکھی ابلی دال کی طرح “شوووں “کر کے رہ جاتی ۔رہی سہی کسر اوپر تلے کی دو زچگیوں نے پوری کردی ۔سکھاں جیسے نچڑ کر رہ گئی ۔شکورا ہنیرے سویرے دھول دھپا بھی ویہڑے میں ہی شروع کردیتا۔۔۔۔تب نورا دوڑ کر جاتا اور بیچ بچاؤ کراتا ۔۔

گورے چہرے پہ چھپا، انگلیوں کا پنجہ نورے کا دل جکڑ لیتا ۔کبھی کبھی تو نورا سانجھی دیوار سے ٹیک لگائے سلگتا رہتا ۔اس کا بس نہ چلتا سکھاں کو چھین لے، کہیں چھپا لے ۔

Advertisements
julia rana solicitors

اسی بہانے ، آتےجاتے نورے کی ہمدرد آنکھیں سکھاں سے بہت کچھ کہتیں ۔سکھاں سمجھتی ہی نہیں تھی یا شاید سمجھنا چاہتی نہیں تھی ۔ ۔ایک دن نورے نے سکھاں کو چھت پہ روک لیا۔وہ چار فٹی دیوار کے اس پار تھی
“مجھے تم سے ضروری بات کرنی  ہے ”
“کیا بات ؟”۔۔نوراں نے صحن میں کھیلتے بچوں کو دیکھا ۔۔اور نورے نے سکھاں کو۔۔۔
پھر کتنی منتوں کے بعد ایک رات سکھاں نورے کی بات سمجھی ۔اور چارفٹ کی دیوار پھاند کر اس طرف آگئی ۔۔۔ شکورا شہر گیا ہوا تھا ۔۔
اسی رات نورے نے چاندنی رات میں سکھاں کی آنکھوں میں چاند چمکتا دیکھا ۔نورے نے سکھاں کے کان میں سرگوشی کی
“تجھے پتہ ہے سکھی؟
چاند عورت کے اندر سفر کرتا ہے”۔۔
آغوش میں لیٹی سکھاں کو تو نورے کی آنکھوں میں چمکتی محبت بھی نہ دکھائی دیتی ۔اپنی آنکھوں میں اترا چاند کیسے دیکھتی؟
سکھاں ہنسی تو چاندنی دانتوں پہ چمکی ۔
نورے کولگا جیسے چاندی کی جھانجھروں کو ہوا نے چھوا ہو ۔۔۔
۔۔”اچھا !کہاں ہے چاند “؟
“یہاں ” !نورے نے سکھاں کا ماتھا چوم لیا ۔۔
اور ؟ سکھاں کے لب وا ہوئے۔
گیلے ہونٹوں کی چمک نورے کی سوچ سے زیادہ تھی۔نورے نے ہونٹ چوم لئے
ہلکا سا جھونکا آیا اور دونوں کو معطر کر گیا
پہلی بار اسے پتہ چلا کہ دنداسے میں خوشبو اور رنگ میں ذائقہ بھی ہوتا  ہے۔
سکھاں کی آنکھیں بوجھل ہونے لگیں۔وہ نورے کی آغوش میں ہی کمان ہوگئی ۔۔۔
“اب کہاں۔۔ ہے ۔۔چاند ؟ “اس نے سسکی لی
“۔۔۔۔یہاں ۔۔۔۔”
نورے نے سکھاں کے دل پہ ہاتھ رکھ دیا۔
چاند نے سمندر  کو چھولیا ،جوار بھاٹا اٹھا ۔
چار فٹ کی دیوار بہہ گئی ۔۔
بیوفائی کے ہزاروں جواز ہوتے ہیں۔نورا تو سارا مرہم تھا۔
شکورا، سکھاں کی بات بنا بات دھنائی کرتا رہا ۔مگر پھر نہ تو وہ چیخی ، نہ روئی ۔
شکورا مارتے مارتے تھک کر ڈیرے کی طرف جاتے سارا راستہ سوچتا کہ کتی مار کھا کر بھی مسکراتی  ہے، اسے کیا پتہ تھا کہ نورا ہرچوٹ کو چومتا تھا ۔ہر زخم پہ زبان رکھتا تھا۔۔۔
کہانی ہمیشہ سادہ ہوتی  ہے۔
بس کبھی کبھار اس میں درد کا ذائقہ اُتر آتا  ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply