راحت اندوری: مزاحمتی لہجے کا شاعر۔۔ڈاکٹر اشرف لون

اقبال ہو ، فیض ، فراز یا جالب سبھی نے اپنی انقلابی اور مزاحمتی شاعری سے عوام و خواص کے دلوں کو گرمایا اور ان میں جوش پیدا کیا۔ قوم کو خواب غفلت سے جگانے میں ان شعرا کی خدمات کو کون بھلا سکتا ہے۔ اقبال نے سوئی ہوئی قوم میں حرکت پیدا کی اور اپنی شاعری کے ذریعے نوجوان کو فکر و عمل کا پیغام دیا، ایک الگ دنیا، جو ظلم و بربریت اور ناانصافی سے پاک ہو، قائم کرنے کی تلقین کی۔ فیض نے نہ صرف نوجوانوں کے جوش کو ابھارا بلکہ حکمرانوں کی نیندیں تک حرام کیں۔ فراز اور جالب نے  بھی یہی کام کیا۔ نہ صرف نوجوانوں سے مخاطب ہوئے بلکہ حکمرانوں کو بھی للکارا۔ حکمرانوں کی بدعنوانیوں اور استحصال کے خلاف آواز اٹھائی۔

مذکورہ بالا شعرا نے مشاعرے کے ذریعے اپنا پیغام عوام تک پہنچایا۔ لیکن آج کے مشاعروں نے وہ پہلے  جیسی عظمت کھودی ہے۔ بلکہ یہ صرف اب مسخرے پن اور روپیہ پیسہ بٹورنے کا کھیل بن کر رہ گیا ہے۔ جمورے اسٹیج پر آتے ہیں اور تماشا دکھا کر چلے جاتے ہیں۔ ان مشاعروں میں نہ تہذیب کا خیال رکھا جاتا ہے اور نہ ان مشاعروں میں پیش کی گئی شاعری میں کوئی خاص پیغام ہوتا ہے۔ کچھ چٹکلے ہوتے ہیں اور تماشائی واہ واہ کرتے رہتے ہیں۔ مختصراً ان مشاعروں کا اب ایک ہی مقصد رہ گیا ہے۔ پیسہ اور سستی شہرت بٹورنا۔

لیکن اس دوران میں کچھ ایسے شعرا بھی ابھرے ہیں جنہوں نے ان مشاعروں کی اہمیت کا خیال رکھا ہے اور ادب و تہذیب کے دامن کو ہمیشہ تھامے رکھا۔ اپنی شاعری سے لوگوں کو نہ صرف محظوظ کیا بلکہ ان کی شاعری اپنے اندر ایک پیغام بھی رکھتی ہیں۔ ایک ایسا پیغا م جو لوگوں کو بیدار بھی کرتی ہے اوربیچ بیچ میں چونکاتی بھی ہے۔ اور حکمرانوں کو للکارتی بھی ہے اور ان کو انکی صحیح اوقات بھی دکھاتی ہے۔ راحت اندوری کا شمار انہی شعرا میں ہوتا ہے۔

ڈاکٹرراحت اندوری 1950 میں بھارتی ریاست مدھیہ پردیش کے شہر اندور میں پیدا ہوئے۔ نصف صدی تک اپنی شاعری سے لوگوں کو محظوظ کیا۔ راقم السطور کے دلی میں آنے کے بعد مشاعروں سے وابستہ جن بڑے شعرا کا نام سنا ان میں صرف دو ہی مجھے یاد رہے۔ ایک ہیں منور رانا۔ ان کی نظم ماں بہت سے لوگوں سے سنی اور بعد میں پڑھی اور دوسرا بڑا نام ہے راحت اندوری کا۔ وہی راحت اندوری جن کا انتقال 11 اگست کو ہوا اور جن کی موت نے نہ صرف پوری دنیا کو غمگین کردیا بلکہ چونکایا بھی۔

راحت اندوری کے متعدد اشعار زبان زد عام ہوچکے ہیں اور خواص بھی ان کے اشعار کو پسند کرتے ہیں۔ دہلی میں حصول تعلیم کے دوارن میں یوں توکچھ مشاعروں میں شریک ہونے کا موقع ملا لیکن راحت اندوری والے مشاعرے میں شریک ہونے کا کبھی شرف حاصل نہ ہوا۔ اس میں میری تساہلی کا بھی ہاتھ ہوسکتا ہے اور مشاعروں کی بگڑتی صورت کا بھی۔عموماً جو شعر سب کی زبان پر تھا اور شاید جس کی تخلیق میں بھارت کے موجودہ حالات کا عمل دخل واضح تھا، وہ یہ ہے:
سبھی کا خون ہے شامل یہاں کی مٹی میں
کسی کے باپ کا ہندوستان تھوڑی ہے

اس شعر نے جیسے آسمانی صحیفے کی شکل اختیار کی ہے۔ اور 70 سالوں کا درد و کرب اس شعر میں سمویا ہوا ہے۔ حالات و واقعات کے پیش نظر اس شعر کی اہمیت ہمیشہ برقرار رہے گی۔ ہندی مسلمانوں نے جس طرح کے مظالم کو سہا اور جس خوف کے اندر وہ جی رہے ہیں، یہ شعر اسکی بھرپور عکاسی کرتا ہے۔ اس شعر کے ذریعے راحت اندوری ان طاقتوں کو للکارتے بھی ہیں جو ہر وقت یہاں کے مسلمانوں کو باہری ہونے کا طعنہ دیتے ہیں۔ راحت نے تاریخ کی طرف بھی اشارہ کیا ہے کہ کس طرح مسلمانوں نے ہندوستان کی آزادی میں اہم رول ادا کیا۔ چاہے وہ 1857 کی جنگ آزادی ہو یا برطانوی حکومت کے خلاف تحریک آزادی، ہمیشہ مسلمانوں نے اس میں اہم رول ادا کیا اور یہاں تک کہ اپنی جان تک اس ملک پر نچھاور کی۔ پوری غزل ملاحظہ ہو:
اگر خلاف ہیں، ہونے دو، جان تھوڑی ہے
یہ سب دھواں ہے، کوئی آسمان تھوڑی ہے
لگے گی آگ تو آئیں گے گھر کئی زد میں
یہاں پہ صرف ہمارا مکان تھوڑی ہے
میں جانتا ہوں کہ دشمن بھی کم نہیں لیکن
ہماری طرح ہتھیلی پہ جان تھوڑی ہے
ہمارے منہ سے جو نکلے وہی صداقت ہے
ہمارے منہ میں تمہاری زبان تھوڑی ہے
جو آج صاحب مسند ہیں، کل نہیں ہوں گے
کرائے دار ہیں، ذاتی مکان تھوڑی ہے
سبھی کا خون ہے شامل یہاں کی مٹی میں
کسی کے باپ کا ہندوستان تھوڑی ہے!

پوری غزل درد و کرب سے بھری ہوئی ہے۔ شکوہ بھی ہے۔ لیکن اس میں مزاحمت و احتجاج بھی ہے۔ بھارت میں جو حالات چل رہے ہیں، بالخصوص موجودہ دور میں، اس غزل کے کہنے کے پیچھے وہی کارفرما ہیں۔ دائیں بازو کی سیاست اور سیکڑوں بار دنگے فساد میں ہزاروں میں لوگ مارے گئے، جن میں اکثریت مسلمانوں کی ہے۔ اس اقلیتی طبقے پر ہمیشہ ہی خوف کی تلوار لٹکتی رہی ہے۔ اور ہر لمحے اس طبقے کے افراد کو دیش بھکتی منوانی پڑتی ہے۔ کبھی انہیں دیش دروہی کا خطاب دیا جاتا ہے اور کبھی کہا جاتا ہے کہ آپ کا اصل ملک پاکستان ہے۔ اور جب سے ہندوتوا کی حکومت برسر اقتدار آگئی ہے تب سے حالات مزید خراب ہوگئے ہیں اور ان کے زمین مزید تنگ کردی گئی ہے۔ لیکن آخر کب تک۔ کبھی کبھی تو یہ لاوا پھوٹے گا، جو اپنے آس پاس سب چیزوں کو راکھ میں تبدیل کردے گا۔ زندگی کی تلخیوں کا تجربہ کچھ ایسا ہے کہ راحت بیباکی اور بے خوفی سے سیاستدانوں کو للکارتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ وہ وقت دور نہیں جب آپ کی یہ لگائی ہوئی آگ پوری بستی کو اپنی لپیٹ میں لے گی:
لگے گی آگ تو آئیں گے گھر کئی زد میں
یہاں پہ صرف ہمارا مکان تھوڑی ہے

اور آخر صبر کب تک۔ ۔؟کب تک مسلمان یہ مظالم اور استحصال سہتے رہیں گے۔ کب تک یہ اپنے آپ پر قابو رکھ پائیں گے۔ آخر کبھی نہ کبھی تو یہ لاوا پھوٹے گا ہی۔ اور اس لاوے کی زد میں تمام بستی آئے گی۔ ملک کا امن تہس نہس ہوگا۔ ہر طرف دہشت پھیل جائے گی۔ ملک کے حکمرانوں کو بھی للکارتے ہیں۔ کہ جس کرسی پر آپ بیٹھے ہیں اور جس کے نشے میں آپ لوگوں آپس میں لڑوا رہے ہیں اور مروا رہے ہیں، وہ کرسی ہمیشہ رہنے والی نہیں۔ بلکہ ایک نہ ایک دن طاقت کا یہ غرور مٹی میں مل جائے گا۔ اور یہ کہ اس کرسی پر آج آپ ہیں کل کوئی دوسرا ہوگا، جیسے کوئی شخص ایک کرائے کے مکان یا کمرے میں رہتا ہے۔
جو آج صاحب مسند ہیں،کل نہیں ہوں گے
کرائے دار ہیں، ذاتی مکان تھوڑی ہے

یہ شعر نہ صرف بھارت کے موجودہ سیاسی تناظر میں بڑی اہمیت کا حامل ہے بلکہ عالمی سطح پر جس طرح کے حالات پنپ رہے ہیں، اس تناظر میں بھی اس شعر کی بڑی معنویت ہے، کہ آج ہر طرف حکمران کرسی اور طاقت کے نشے میں نہ صرف غریب عوام کا استحصال کر رہے ہیں بلکہ یہ جنونی اور خبطی حکمران عالمی امن کے لیے بھی خطرہ ہیں۔

راحت اندوری کی شاعری ادبی لحاظ سے بھی کامیاب شاعری کہی جاسکتی ہیں۔ انہوں نے مشاعرے کا پاس و لحاظ بھی رکھا لیکن اُن کی شاعری محض نعرے بازی نہیں اور نہ سطحی جوش دلانے والی بلکہ یہ شاعری بہت دیر تک قارئین و سامعین کو مسحور کرتی ہے۔ اس میں وہ سطحی جذباتیت بھی نہیں بلکہ زندگی اور ماحول کا عکس ہے جو اچھے ادب کے لیے ضروری ہے۔ بقول پروفیسر آفاق احمد: “پرانے موضوعات کو نئی لفظیات اور نئے موضوعات کو جدید حسیت کے ساتھ اُنہوں نے جس طرح برتا وہ ان ہی کا مخصوص انداز ہے۔” اس میں شاعر کا احساس چھیختا ہوا نظر آتا ہے۔ حالات و واقعات کو مدنظر رکھتے ہوئے طنز بھرا شعر ملاحظہ ہو:

ہم اپنے شہر میں محفوظ بھی ہیں خوش بھی ہیں
یہ سچ نہیں ہے مگر اعتبا ر کرنا ہے

راحت کی مقبولت کاایک بڑا راز ان کے اشعار  میں چھپے نشتر اور اُن کا شعر کہنے کا ڈرامائی انداز ہے۔ اور اُن کا یہی ڈرامائی انداز دنیا بھر میں اُن کی شہرت و مقبولیت کا سبب بنا۔ انہوں نے  اپنے ارد گرد سیاسی و سماجی مسائل اور حالات و واقعات کو جس خوبصورتی سے اپنی شاعری میں سمویا وہ انہی کا حصہ ہے۔ ہندوستان و پاکستان کے حکمرانوں، جو ‘ووٹ بنک سیاست’ کی خاطر ہمیشہ جنگ کا بگل بجاتے ہیں پر اس طرح طنز کے نشتر سے وار کرتے ہیں:
سرحدوں پر بہت تناؤ ہے کیا
کچھ پتہ تو کرو چناؤ ہے کیا
خوف دیکھ رہا ہوں دونوں سمتوں میں
تیسری سمت کا دباؤ ہے کیا

راحت اندوری کی سب سے بڑی خوبی یہ رہی ہے کہ انہوں کبھی بھی اپنے ضمیر کا سودا نہیں کیا۔ کبھی حالات و واقعات کے ساتھ سمجھوتہ نہیں کیا کبھی کسی سیاست داں یا حکمراں کے قصیدے نہیں کہے بلکہ جب بھی کسی سیاست داں نے ان کے مشاعرے میں شرکت کی، راحت اندوری بے قابو ہوجاتے تھے اور طنز کے وار سے پورے ماحول کو گرما دیتے تھے۔ ایسا کئی بار ہوا جب ان کی شاعری سے خفا ہوکر سیاست داں محفل چھوڑ کر بھاگ گئے۔ صاحب مسند لوگوں کے لیے ان کے دل میں کچھ خاص ہمدردی نہیں تھی کہ راحت اندوری جانتے تھے کہ یہ سیاستداں ہی ہیں جنہوں نے  اس ملک میں نفرتوں کا زہر پھیلایا ہے۔ عوام کا استحصال کیا ہے۔ غریب عوام کو روزگار اور روٹی مہیا کرنے کے بجائے ان کومسجد اور مندر کی سیاست کی بھینٹ چڑھایا۔ راحت اندوری نے اس سیاست کی منافقت کا پردہ فاش کیا ہے:
یہ سارے لوگ تو شامل تھے لوٹنے میں مجھے
سنا ہے اب مری امداد کرنا چاہتے ہیں

1975 میں لگائی گئی ایمرجنسی کے دوران میں راحت اندوری نے سرکار کی نکتہ چینی کی جس کے نتیجے میں پولیس نے انہیں پولیس تھانے بلایا اور پوچھا کہ آپ نے سرکار کو چور کہا۔ جواب میں انہوں نے کہا کہ میں نے یہ نہیں کہا کہ کہاں کی سرکار چورہے۔ بھارت کی، پاکستان کی یا امریکہ کی۔ پولیس والے نے مسکرا کر  جواباً کہا: کیا آپ ہمیں کچھ زیادہ ہی بے وقوف سمجھے ہیں۔کیا ہمیں نہیں معلوم کہ کہاں کی سرکار چور ہے۔
بن کے اک حادثہ بازار میں آجائے گا
جو نہیں ہوگا وہ اخبار میں آجائے گا
چور اچکوں کی کرو قدر، کہ معلوم نہیں
کون کب کونسی سرکار میں آجائے گا

بھارت کی سیاسی سماجی حالت میں پچھلے 70 سالوں میں کچھ خاص بہتری نہیں آئی ہے۔ ہاں کچھ جدید سہولتیں لوگوں کی زندگی میں آئی ہیں لیکن آبادی کا ایک بڑا حصہ آج بھی غریبی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ آج بھی لوگ غریبی سے تنگ آکر خودکشی کر رہے ہیں۔ دنگے  فساد  میں آج بھی سیکڑوں لوگ مارے جارہے ہیں جن میں مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد شامل ہے۔ سیاستداں ووٹ بنک کی خاطر لوگوں کو آپس میں لڑا رہے ہیں اور اپنی روٹیاں سینک رہے ہیں۔ اورسیاست کا یہ مکروہ کھیل اور ناٹک برابر جاری ہے جس سے غریب عوام کو کچھ خاص فائدہ نہیں پہنچ رہا ہے:
نئے کردار آتے جارہے ہیں
مگر ناٹک پرانا چل رہا ہے

راحت اندوری بے باک لہجے کے شاعر ہیں۔ انہوں نے لوگوں کو ظلم و ناانصافی کے خلاف لڑنے کا حوصلہ عطا کیا۔ ان حالات میں جب مسلمانوں پر ہر وقت دیش دروہی کے طعنے کی تلوار لٹکتی رہتی ہے اور آئے روز اُن سے دیش بھکتی کا سرٹیفکیٹ مانگا جاتا ہے، راحت اندوری کی شاعری ان مظلوموں کو طاقت عطا کرتی ہے۔ حوصلہ عطا کرتی ہے، زندگی جینے کا اور مصائب و آلام سے لڑنے کا۔ موجودہ دور کے منافق حکمرانوں سے یوں مخاطب ہوتے ہیں:
تیری زبان کترنا بہت ضروری ہے
تجھے مرض ہے کہ تو بار بار بولتا ہے
کچھ اور کام اسے یاد ہی نہیں شاید
مگر وہ جھوٹ بہت شاندار بولتا ہے

اسی طرح کا ایک اور جگہ سیاستدانوں کی فریب کاری اور مکاری کا پردہ فاش کیا ہے:
بیٹھے ہوئے ہیں قیمتی صوفوں پہ بھیڑیئے
جنگل کے لوگ شہر میں آباد ہوگئے

راحت نے زندگی کو جیا اور اسے جیسا پایا اسے اُسی طرح پیش کیا۔ اس پیش کش میں کوئی تصنع نہیں، کوئی ابہام نہیں، کوئی ملمع سازی نہیں، بلکہ صاف گوئی اور سچائی ہے۔ظفر گورکھپوری، جوراحت اندوری کے ساتھ کئی مشاعروں میں شریک رہے ہیں اور انہیں بہت قریب سے جانتے ہیں نے، ان کے بارے میں کہا ہے:
“راحت کی شاعری زندگی کے چھوٹے بڑے مسائل، عہد حاظر کے سیاسی اور سماجی حالات اور ایک عام آدمی کے دکھ درد کی ترجمان ہے۔ ان کی شاعری میں کسی گہرے فلسفے یا کسی پیچیدہ رمز کی عقدہ کشائی نہیں لیکن یہ کم اہم بات نہیں کہ ہم اس میں زندگی کی دھڑکنیں سنتے ہیں۔یہ شاعری ہمیں اپنے اطراف پھیلی ہوئی وسیع تردنیا کے شب و روز کی سچی تصویریں دکھاتی ہیں۔”
راحت اندوری نے زندگی کی بے ثباتی اور ناپائیداری متعدد اور بڑے خوبصورت اشعار کہے ہیں۔ ساتھ ہی حوس پرست اور لالچ کے ماروں پر بھی طنز کیا ہے۔ ایسا ہی ان کا ایک شعر بہت مشہور ہے:
دو گز سہی مگر یہ مری ملکیت تو ہے
اے موت تو نے مجھ کو زمیندار کردیا

Advertisements
julia rana solicitors london

آج جب ہروقت دنیا کے حکمران معمولی باتوں پر جنگ کا بگل بجاتے ہیں۔ بلکہ کئی ممالک میں اس وقت جنگیں چل رہی ہیں۔بے گناہ لوگ مر رہے ہیں جن میں بچے، بزرگ اور عورتیں سبھی شامل ہیں۔ چہار سو نفرتوں کا زہرپھیلا ہوا ہے۔ کورونا وائرس کی وبائی بیماری نے انسان کے لیے طرح طرح کی مشکلات کھڑی کی ہیں۔ اور ہر روز سیکڑوں لوگ موت کے منہ میں جارہے ہیں، ایسے میں راحت اندوری کا یہ شعر بڑی معنویت کا حامل ہے اور جس پر اس مضمون کا اختتام کرنا بجا رہے گا:
موت کا زہر ہے فضاؤں میں
اب کہاں جا کے سانس لی جائے!

Facebook Comments


بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”راحت اندوری: مزاحمتی لہجے کا شاعر۔۔ڈاکٹر اشرف لون

Comments are closed.