انسانم آرزوست مصنف ڈاکٹر محمد امین/مرتب سخاوت حسین(مجلس40)

ابوالحسن نے علی الصبح سب کو بلا بھیجا۔ اور کہا۔
بیسویں صدی ختم ہونے کو ہے۔ تقریباً ایک عشرہ باقی ہے۔دہائی کے بعد اکیسویں صدی شروع ہو جائے گی۔مجھے اکیسویں صدی کا نقشہ بھی کچھ اچھا نظر نہیں آ رہا۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اکیسویں صدی میں مشینوں پر انحصار اور بڑھ جائے گا۔ہندساتی اور رضیاتی ذہن کی حکمرانی ہو گی۔
انسان کے ذہن کو کنٹرول کرنے کی کوششیں تیز تر ہو جائیں گی۔ اور انسان یہ سوچنے لگے گا کہ بغیر نقصان کے انسان کے مال و اسباب اور وسائل پر کیسے قبضہ کیا جا سکتا ہے۔ انسان کو کیسے اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔سہولت کے ساتھ اس طرح کہ اسے اس کا احساس تک بھی نہ ہو۔ اگر انسان اس میں کامیاب ہو گیا تو زمین پر انسان کی غلامی کا طویل دور شروع ہو جائے گا۔
سنو، یاد رکھو! تم نے انسان کی تکریم کرنی ہے۔ انسان سے محبت کرنی ہے۔صبر، شکر، برداشت، بردباری سے کام لینا ہے۔معافی و درگزر کو اپنانا ہے۔ احسان اور ایثار کو عادت بنانا ہے۔کسی کا رزق نہیں چھیننا۔کسی کی حق تلفی نہیں کرنی۔عاجزی انکساری کو اختیار کرنا ہے۔دائیوجے نیز اپنے ہاتھوں میں چراغ لیے شہر کی ویران سنسان گلیوں میں گھومتا رہا۔اسے کوئی انسان نظر نہیں آیا۔ مگر انسانوں کی آوازیں سنائی دیتی رہیں۔ رونے کی آوازیں، چیخوں کا شور، واویلا اور ماتم کی آوازیں۔ نوحہ اور چیخ و پکار ہر گلی میں اس کا پیچھا کرتی رہی۔
دائیوجےنیز گھبرا گیا۔ وہ بھاگا ہوا ابوالحسن کے پاس آیا۔ابوالحسن انسان مر چکا ہے۔ابوالحسن نے کہا دائیوجےنیز دروازہ بند کر دو۔چیخوں کی آوازیں ناقابل برداشت ہو رہی ہیں۔دائیوجےنیز نے دروازہ بند کیا۔تو چراغ اس کے ہاتھوں سے گر کر ٹوٹ گیا۔دائیوجےنیز وہی بیٹھ گیا اور سو گیا۔ابوالحسن نے دائیوجےنیز کی طرف دیکھا اور چادر کو سر پر سرکاتے ہوئے کہا۔انسان مر چکا ہے۔انسان مر چکا ہے۔انسان مر چکا ہے۔

Facebook Comments