گھروندا ریت کا(قسط26)۔۔۔سلمیٰ اعوان

رحمان کے دونوں بچے چھٹیاں گذارنے گھر آرہے تھے۔رات کو کھانا کھاتے ہوئے اُس نے کہا۔
”بی ہومز کی پرنسپل کا خط آج آفس آیا تھا۔بچے درگا پُوجا کی چھٹیاں گذارنے کل دو بجے آرہے ہیں۔لیکن ایک مسئلہ درمیان میں پیدا ہوگیا ہے۔راجشاہی جانا ہے۔راجشاہی میں بورڈ آف ڈائریکٹرز کی میٹنگز ہیں۔دو دن کا پروگرام ہے۔جانا شدید مجبوری ہے۔بچے بھی تم سے پہلی مرتبہ ملیں گے۔میرا ہونا بھی ضروری تھا۔
باتیں کرتے کرتے اُس نے شامی کبابوں کی پلیٹ اٹھائی۔بھات پر ایک کباب رکھتے ہوئے بچوں والی بات درمیان میں ہی چھوڑ کر اُس کی طرف دیکھتے ہوئے بولا۔
”خانساماں تو نیا نہیں۔پرانا ہے بلکہ خاصا پرانا ہے۔مگر یہ اتنا لذیذ کھانا کیسے بنانے لگ گیا ہے۔یقینا تم ہدایات دیتی ہونگی۔“
وہ ہنس پڑی تھی۔کچھ بولی نہیں پر دل میں ضرور بولی۔
”کمال ہے مجھے کہاں طریقہ سلیقہ ہے ایسے پکوانوں کا۔ ہمارے گھر میں کونسے مرغ مسلّم روسٹ ہوتے تھے۔یا چائینز پکتے تھے۔سیدھا سادا کھانا۔اور وہ تو باورچی خانے میں صرف کھانے کیلئے ہی جایا کرتی تھی۔سارا کام تو اماں نے سنبھالا ہوا تھا۔“
اُسے ہنستے دیکھ کر وہ بولا۔میں تمہیں مکھن نہیں لگا رہا ہوں اور نہ ہی مذاق کر رہا ہوں۔
یوں لگتا ہے جیسے چیزوں میں اپنی محبت کا بھی اضافہ کر دیتی ہو۔لُطف آتا ہے کھا کر۔مجھے اب باہر کھانا مزہ نہیں دیتا۔
اُس کے پیازی ہونٹوں پر جو مسکراہٹ بکھری تھی اور اس کی آنکھوں میں جو جذبات اُبھرے تھے۔دونوں نے اُسے یہ صاف صاف بتایا تھا کہ پکانے میں فن کا کمال نہیں البتہ محبت کا کمال ضرور ہے۔
کھانا ختم کرنے کے بعد ہاتھوں کو واش بیسن پر دھوتے اور انہیں خشک کرتے ہوئے اُس نے پھر اُسے مخاطب کیا۔
”ڈرائیور اسٹیشن سے بچوں کو لے آئے گا۔ذرا شرارتی ہیں۔گھبرانا نہیں۔بس دوتین دن کی بات ہے۔“
باتیں کرتے کرتے وہ رُکا۔فون کی گھنٹی بجنے لگی تھی۔اُس نے سُنا۔دفتر سے متعلق کچھ باتیں کیں۔ریسیور رکھا اور اس کی طرف متوجہ ہوا۔
”ہمارے بیڈ روم کے ساتھ والا کمرہ اُن کے لیے ٹھیک رہے گا۔اُسے سیٹ کروادینا۔“
وہ خاموشی سے اُس کی باتیں سُن رہی تھی۔بالکل اُسی انداز میں جیسے کوئی تابعدار شاگرد اپنے اُستاد کی یا کوئی عقیدت مند اپنے پیرو مرشد

Advertisements
julia rana solicitors london

کی باتیں سُنتا ہے۔
لیکن اس کے ساتھ وہ کچھ دل گرفتہ سی بھی تھی اور اپنی اس دل گرفتگی کے بوجھ کو کم کرنے کے لیے اپنے آپ سے کہتی تھی۔
یہ کیسی باتیں کررہے ہیں۔تکّلف سے بھری ہوئیں۔بچے تو شرارتی ہوتے ہیں۔مجھے تو خود تیز طرّار شرارتی بچے پسند ہیں۔اور پھر یہ اُنکا گھر ہے،بن ماں کے بچے۔
اُس کا دل بھر آیا۔چہرے پر دُکھ کی ایک لہر سی لہرائی۔رحمان نے یہ سب دیکھا۔وہ قدرے متعجب سا ہوا۔اپنے آپ سے بولا۔
یہ بچوں کے آنے سے خوش نہیں ہے۔مگر اسے یہ بات نظر انداز نہیں کرنی چاہیے کہ میں ایک باپ بھی ہوں۔
اور جب وہ بیڈ روم کی طرف بڑھ رہا تھا اُس نے رُخ پھیر کر اُسے دیکھتے ہوئے کہا تھا۔
نجمی رحیم سے کہو کافی بیڈ روم میں لے آئے۔
بستر پر اپنے آپ کو گراتے ہوئے اُسے قدرے تھکن کا احساس ہوا۔آفس کے بکھیڑے بھی انسان کو آدھ موأ کرڈالتے ہیں۔آج کلب جانے کا بھی خیال تھا وہاں وہ چوکڑی انتظار میں ہوگی۔اب تو پینے پلانے کے شغل کوبھی ڈھیر سارے دن گذر گئے ہیں۔اصل میں بات یہ ہے کہ میں اِس نازک سی حسّاس لڑکی سے ڈر نے لگا ہوں جو کبھی مجھ سے کوئی گلہ شکوہ نہیں کرتی۔آدھی رات کو ڈرنک کرکے نیم بے ہوشی کی حالت میں گھر آیا اور زبان سے کوئی اُلٹ پلٹ بات نکل گئی یا کوئی الٹی سیدھی حرکت ہوگئی تو اس کا ہارٹ فیل ہوجائے گا۔وہ طاہرہ ہی تھی۔پہاڑ جتنے دل گردے والی جو اگلی صبح بڑے دُھوم دھڑکے سے لڑائی کا اعلان کرتی تھی۔ دنوں ناراض رہتی۔گھر پر ہمہ وقت محاذ آرائی کے بادلوں کو منڈلائے رکھتی۔سوبار خوشامدوں کے بعد کہیں موڈ درست کرتی اور گھر کے دروازے خوش دلی سے کھولتی۔
وہ کافی بنا رہی تھی جب اُس نے کہا۔
”آپ لیٹ گئے ہیں۔“
”نہ لیٹوں۔وہ ہنسا۔ بھئی تھوڑا سا آرام ضروری۔تھوڑا سا ایمان کی تازگی ضروری۔اب کہو کیا کہتی ہو۔“
”کافی تو پی لیں۔”افوہ“۔وہ اٹھ بیٹھا۔
اُس نے کافی کا گھونٹ بھرا اور بولا۔
”ہاں نجمی کلب چلتی ہو۔“اُس نے انکار میں سر ہلایا۔“
”یار تم نے گھر میں رہ کر کیا کرنا ہے۔“
”کئی دنوں سے میں تمہیں باہر بھی نہیں لے جاسکا۔بیگم خوند کر تمہارا پُوچھ رہی تھیں۔میرا بھی چکر لگ جائیگا۔خاصے دن ہوگئے ہیں کلب کی شکل دیکھے۔یار لوگ طعنہ دیتے ہیں کہ بھابھی نے لگام ڈال دی ہے۔“
لفظ بھابھی بڑا عجیب اور نامانوس سا محسوس ہوا۔
”خدایا ذہن آخر اِس صورت حال سے مطابقت کیوں نہیں کرلیتا۔ہر نیا لفظ مجھے اجنبی کیوں محسوس ہوتا ہے؟“
اُسے کسی خیال میں گم دیکھ کر وہ ہنسا۔
”مراقبے میں جانے کی عادت چھوڑ دو۔تیار ہوجاؤ۔ ہاں صمدو سے کہو گاڑی میں پڑا پیکٹ نکال لائے۔“
”میرا دل نہیں چاہتا جانے کو۔ آپ ہو آئیے۔“
”ہرگز نہیں۔میں اکیلا نہیں جاؤں گا۔تم میرے ساتھ چلو گی۔“
ڈرائیور پیکٹ لایا۔
”کیا کھولوں۔“جیسی استفہامیہ نظروں سے اُسے دیکھتے اور اُس کی محبت پاش نظروں کو اثبات میں ہلتے دیکھ کر پیکنگ کی چیڑپھاڑ کے بعد بہت خوبصورت چھوٹے چھوٹے سرخ و مسٹرڈ پھولوں والی سیاہ جاپانی شیفون کی ساڑھی برآمد ہوئی۔ بغیر آستین کا بلاوز بھی ساتھ تھا۔
”میرے پاس کتنی ساڑھیاں ہیں؟لگتا ہے آپکو ہوکا ہے۔“
”میں دنیا کی ہر خوبصورت چیز تمہارے لئے خریدنا چاہتا ہوں۔“
کمرے میں تھوڑی دیر خاموشی رہی۔صرف برتنوں کو ٹرالی میں رکھنے کا ہلکا سا شور ہوا ور وہ بھی ختم ہوگیا۔
اور پھر ا س نے اٹھتے ہوئے کہا۔
”چلو اب تیاری کرو۔“
جب دفعتاً وہ اُس کے مقابل آکرکھڑی ہوگئی۔اُس نے ملتجی انداز میں اُسے دیکھا اور بولی۔
”ایک بات کہوں،مانیں گے آپ۔“
اُس نے بے حد حیرت سے اُسے دیکھا۔یہ پہلا موقعہ تھا کہ اُس نے کوئی بات منوانے کے لئے فرمائش کی تھی۔
”کیا بات ہے۔نجمی؟“
یہ کہنے کے ساتھ ہی وہ دوبارہ بیٹھ گیا تھا۔اُ سکے دل میں اُتھل پتھل ہونے لگی تھی۔یہ کیا کہنا چاہتی ہے؟
”میرے بالوں کی سیٹنگ طاہرہ جیسی کروا دیجئے۔اُن کے ساڑھی باندھنے چلنے پھرنے اور بچوں کے ساتھ پیار کے مخصوص انداز جو آپ کو یاد ہوں مجھے سکھا دیجئے۔بچے آرہے ہیں۔گھر میں ایک اجنبی عورت کو دیکھ کر انہیں اپنی ماں یاد آئے گی۔میں چاہتی ہوں میرے اندر انہیں اپنی ماں کا پرتو نظر آئے۔“
اُس کا دل جیسے کسی نے مٹھی میں بھینچ لیا۔شدت احساس سے اُس کی آنکھوں میں نمی سی اُتر آئی۔وہ اُسے دیکھتا رہا۔پھر اُس نے اُسے کلائی سے تھام کر اپنے پاس بیڈ پر بٹھایا۔اس کے نرم ونازک سے وجود کو اپنے حصار میں لیا۔اس کے بالوں پر اپنے ہونٹ رکھے۔اُس سمے اُسے یوں محسوس ہوا تھا۔جیسے معبدوں میں رکھی کسی مقدس دیوی کے حضور اُس نے نذرانہ عقیدت پیش کیا ہو۔
”نجمی تم اتنی گہری ہو میں نے تو کبھی سوچا بھی نہ تھا۔تمہارے سینے میں عورت کا نہیں فرشتے کا دل ہے۔زندگی میں شاید اور تو کوئی کارنامہ میں نے سر انجام نہیں دیا۔پر تمہیں چُن کر یقینا میں نے بہت بڑا تیر مارا ہے۔“
وہ خاموش ہوگیا۔بہت دیر کمرے میں خاموشی رہی پھر اس خاموشی کو اس کی جذبات سے بوجھل آواز نے توڑا۔
اُس نے دائیں ہاتھ سے اُس کے دل پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا تھا۔
”اگر یہاں خلوص اورمحبت کی سچائی ہے تو پھر گھبرانے کی کیا ضرورت ہے۔“
وہ اگلی صبح راجشاہی چلا گیا۔اس نے ملحقہ کمرہ دونوں بچوں کے لئے سیٹ کروایا۔ڈرائنگ روم سے طاہرہ کا پوٹریٹ اٹھا کر بکس میں بند کروایا۔بچوں کو دو بجے آنا تھا۔وہ خود اکیلی انہیں لینے کملا پوراسٹیشن گئی۔چھوٹی چھوٹی پٹریوں پر چھوٹے ڈبوں والی گاڑیاں کھڑی تھیں۔وہ پلٹ فارم نمبر تین پر آئی۔
دو بجے۔پھر تین کا وقت ہوا۔اس کے بعد ساڑھے تین ہوئے پلیٹ فارم پر کھڑی کھڑی اُسے یوں محسوس ہونے لگا تھا۔جیسے کسی نے اُسے دُھوپ میں سُوکھنے کے لیے ڈال دیا ہو۔
تبھی گاڑی کی آمد کا شور ہوا۔جونہی گاڑی نے اسٹیشن کی حدود میں قدم رکھا۔اُس کا دل دھک دھک کر اُٹھا۔سوتیلے بچے سوتیلی مائیں۔دُکھی کہانیاں ظلم وستم کے نرالے اور انوکھے واقعات اس کے دماغ میں گھومنے لگے۔
”میں راستے سے بھٹک چکی ہوں۔معبود ایک چھوٹی سی التجا ہے مجھے اور گمراہ نہ کرنا۔بن ماں کے بچے مجھ سے وہی سکون اور محبت پاسکیں جو انہیں ایک حقیقی ماں سے مل سکتا تھا۔“
اس نے دُور تک نظریں دوڑائیں۔گاڑی دھیمی ہوتی ہوتی اب رُک گئی تھی۔بہت پیچھے کھڑکی سے باہر جھانکتے ہوئے دوبچے اُسے دکھائی دئیے۔وہ بھاگی اور پھر تیزی سے کمپارٹمنٹ میں داخل ہوگئی۔وہ اُنہیں پہچان گئی تھی۔درجنوں تصویریں دیکھ چکی تھی۔
بچے کیسے پژمردہ اور بُجھے بُجھے سے تھے۔رنگ بھی پیلے پھٹک ہو رہے تھے۔لڑکا بہت کمزور تھا۔یہی کو ئی پانچ چھ سال کا ہوگا۔لڑکی چار سال کی نظر آتی تھی۔بچے نہ ماں پر تھے۔نہ باپ پر۔نقش موٹے موٹے اور رنگت گندمی تھی۔اُس نے پاس جاکر کہا۔
خوقان۔خوقی بچوں نے تھوڑی سی حیرت اور تعّجب سے اُسے دیکھا اوراثبات میں سرہلایا۔ اُس نے دونوں کو اپنے بازوؤں میں سمیٹ کر اُن کی پیشانیوں پرپیار کیا۔تبھی اسے اپنے عقب سے گارڈ کی آواز سنائی دی۔اُس نے پلٹ کر دیکھا وہ کہتا تھا۔
”آپ بچوں کی گارجین ہیں۔یہاں سائن کر دیجئے۔“
اُس نے دستخط کیے بچوں کا سامان اٹھایا اور انہیں گاڑی میں بٹھا کر گھر لے آئی۔
شام تک بچے ذراگُھٹے گُھٹے رہے۔پر رات کو کھانا کھلا کر جب وہ انہیں لے کر اپنے بیڈ پر لیٹی اور پریوں کی کہانی سنانے لگی۔تب لڑکے نے بے اختیار اُسے اپنی ننھی مُنی بانہوں میں جکڑ لیا۔اور لڑکی نے اس کے سینے میں اپنا مُنہ چھپالیا۔اُس نے بھی باری باری اُن کے رخساروں اور آنکھوں پر پیار بھرے بوسوں کی بارش کردی۔
اور تیسرے دن جب شب کو گیارہ بجے رحمان راج شاہی سے آیااور بچوں کے کمرے میں داخل ہوا تو وہ دونوں بچوں کے درمیان گٹھڑی سی بنی بے خبر سورہی تھی۔بچی کی دونوں ٹانگیں اس کے کولہوں پر تھیں اور لڑکے کے دونوں بازو اُس کے گلے میں حمائل تھے۔
وہ مُسکرایا۔اِس مسکراہٹ میں کتنی آسودگی اور طمانیت تھی یہ صرف اس کا دل جانتا تھا۔جُھک کر اُس نے بیٹے اور بیٹی کے گالوں پر پیار کیا۔انہیں ٹھیک طرح لٹایا اور پھر بے حد آہستگی سے اُس نے اُسے یوں اٹھایا جیسے وہ کوئی کانچ کی نازک سی چیز ہو۔اپنے بازوؤں میں بھر کر وہ جب سیدھا ہوا اُس کی آنکھ کھل گئی۔نیند سے لبریز آنکھیں۔وہ کسمسائی پر اس کی مضبوط گرفت میں کہیں چھٹنے کا امکان تھا۔
وہ ٹی وی لاؤنج سے ہوتا ہوا اپنے کمرے میں آگیا۔درمیانی دروازہ بند تھا۔وہ مسلسل اس کے حلقے کو توڑنے کی کوشش کررہی تھی۔
گھٹی ہوئی آواز میں جب اُس نے کہا تھا۔
خدا کے لیے چھوڑئیے تو ذرا۔میرا دم گُھٹا جارہا ہے۔
”ہرگز نہیں چھوڑوں گا۔“
بیڈ پر نیم دراز ہو کر اُس کے اوپرجُھکتے ہوئے وہ بولا۔
ہاں تو بیگم صاحبہ اِن دنوں بہت مصروف رہیں۔مجھے فون بھی نہیں کیا۔
وہ اب پوری طرح بیدار ہو چکی تھی۔
”کمال ہے صاحب۔جب فون کیا یہی جواب ملا۔بیگم صاحبہ بچوں کو گھمانے پھرانے گئی ہیں۔”ارے تمہیں بچوں کا اتنا خیال تھا اور بچوں کے باپ کا۔“
”اچھا چھوڑئیے ان باتوں کو۔“
وہ اس کی بات کاٹتے ہوئے بولی،کھانے پینے کا بتائیے۔
وہ خمار آلود آنکھوں سے اس کی طرف دیکھتے ہوئے مسکرایا اور خوابگاہ کی روشنی مدھم کرتے ہوئے بولا۔
”یہ ابھی بتاتا ہوں۔“
ان دس بارہ دنوں میں رحمان حیران رہ گیا۔بچے جس قدراُس سے مانوس ہوچکے تھے۔اُس کے خیال کے مطابق اتنے وہ اپنی ماں سے بھی نہ تھے۔ اُس کا دن ان کے ہنگاموں میں گزرتا۔کہیں اُن کے لیے کھانے پکوا رہی ہے۔ کہیں کپڑے تبدیل کروا رہی ہے۔ کہیں اُن کے ساتھ مل کر کھیل رہی ہے۔گھر میں ہر وقت دھماکا چوکڑی اور شور وغُل کی ایک فضا چھائی ہوئی تھی۔
اس دن رحمان کپڑے بدلنے کے لیے ڈریسنگ روم میں گیا۔
”نجمی۔“اُس کی گونج دار آواز لابی میں سے ہوتی ہوئی عقبی لان میں پہنچی جہاں وہ اُن کے ساتھ کیرم بورڈ کھیل رہی تھی۔
وہ بھاگتی ہوئی آئی۔
”بچوں کی کتنی چھٹیاں باقی ہیں؟“
”چھ“
”کل انہیں واپس بھیجنے کا بندوبست کرو۔“
اُس نے گھبرا کر کہا۔
”کیوں۔“
اس کی پریشان اور گھبرائی ہوئی صورت دیکھ کر وہ ہنس پڑا۔اس کے بکھر ے بالوں پر اپنے ہونٹ رکھتے ہوئے وہ خوابناک سی آواز میں بولا۔
”دراصل میں بچوں سے جلنے لگا ہوں۔لگتا ہے انہوں نے تمہیں مجھ سے چھین لیا ہے۔“
وہ کھلکھلا کر ہنس پڑی۔
”آپ بھی عجیب ہیں۔“
عجیب کیوں؟خود کو دیکھو ذرا۔اُس نے گھسیٹ کر اُسے شیشے کے سامنے کھڑا کر دیا۔
اپنی صورت اور حُلیہ دیکھو ذرا۔معلوم ہوتا ہے ہفتہ بھر سے نہ منہ دھویا ہے اور نہ کنگھی کی ہے۔
وہ ٹھیک کہتا تھا۔
سچ تو یہ تھا کہ وہ اُن کی معصوم حرکتوں سے اتنی محظوظ ہوتی کہ اُس دکھ کو بھی بھُول جاتی جو اُس کے سینے میں کِسی زہریلے پھوڑے کی مانند پک رہا تھا۔اُن کے قہقہوں نے اُسے اُس کی کربناک سوچوں سے بہت حد تک نجات دے دی تھی۔
اور اُس نے ایک ادائے دلربائی سے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
”بچے تو اب کہیں نہیں جائیں گے۔یہیں ڈھاکہ میں ہی پڑھیں گے۔میں تواُن کی احسان مند ہوں کہ انہوں نے میری ہر دم برستی آنکھوں سے آنسوؤں کو اپنے محبت بھرے وجود میں جذب کرلیاہے۔اب ان کے بغیر اِس گھر میں رہنا میرے لیے بہت مشکل ہے۔“

Facebook Comments