گاؤں سے شہر دیکھنے آئی لڑکی/مسلم انصاری

مجھے یاد پڑتا ہے اپنے ایک اور سفر سے جب میں مشرقی پاکستان کے کسی گاؤں سے شہر کے گھر لوٹا
کمرے کے دروازے پہ لگا تالہ زنگ پکڑ چکا تھا
انہی دنوں جب میں موجود نہیں تھا
محلّے دار میری غیر موجودگی میں میرے نام آئے تمام خطوط بغیر کھولے دروازے کے نیچے سے اندر سرکا دیا کرتے تھے
چرچراتی آواز کے ساتھ جب دروازہ اندر کی جانب کھلا تو فرش پہ بے تحاشا پھیلے خطوط کے مجمعے نے مجھے مایوس کردیا
رنگ برنگے لفافوں میں لپٹے خطوط
جن پہ کسی بھیجنے والے کا گھر پتہ درج نہیں تھا
انہی مہینوں ہوئی بارشوں نے جہاں دیواروں پہ سیلن چھوڑی
وہیں فرش پہ نمی بسیرا کر گئی
کچھ خطوط فرش کی تہ سے چپک چکے تھے
میرا سفری بیگ جس میں سوائے آنسوؤں کے کچھ نہیں بھرا ہوتا میں نے اسے لکڑی کی کرسی کے نیچے دھنسا دیا
سالہاسال بیت چکے ہیں
مجھے کوئی خط نہیں لکھتا
اور پھر ایک ساتھ اتنے زیادہ خطوط نے میری سانسیں بوجھل کردیں
کسی گزشتہ برس کی بات ہے مجھے ملے تمام خطوط میں رات گئے باوجود بجلی ہونے کے لالٹین یا موم بتیوں کی روشنی میں سگریٹ پیتے ہوئے پڑھا کرتا تھا
خیر یہ گئے دنوں کی بات ہے!
شام ڈھلنے سے پہلے پہلے دوستوں کا ایک جم غفیر میری حالیہ سفری روداد سننے بیٹھک میں جمع تھا
ان کی ساری باتوں اور سوالوں سے کہیں زیادہ وزن اس شیلف کا محسوس ہوا جس پر میں نے وہ خطوط اکٹھے کر رکھے تھے
رات کے سائے وجود پکڑنے لگے
رفتہ رفتہ سارے دوست یکے بعد دیگرے اٹھے اور جانے لگے چند ایک بچے کچے دوستوں نے صحن میں رکھے حقّے میں چلم بھردیا
عموماً ہم چلّم نہیں پیتے
بیشتر دوست سگریٹ پیتے ہیں
مگر اس روز کمرے میں حقّے کی گڑگڑاہٹ بھانے لگی
رات کا پہلا پہر بیتا تو کمرے میں میرے سوا کوئی نہیں تھا
ایک ڈر جو مجھے خطوط کھولنے سے روک رہا تھا
اور پھر کسی تکنیکی خرابی کی طرح وہ خطوط خود بخود میرے سامنے کھل گئے
کسی اجنبیہ کے خطوط
جو گاؤں سے شہر دیکھنے آئی تھی
ایک لڑکی جس نے میرے نام بلاوجہ اتنے خط لکھ چھوڑے
میں مطمئن ہوگیا
اور پھر انہیں ترتیب سے پڑھنے لگا
وہ خط کسی ایسی لڑکی کے تھے جو کسی مہینے کی پہلی تاریخ کو پیدا ہوئی تھی
اس کی عمر 30 سال سے کچھ نیچے تھی
مگر اس کی باتیں کسی کم سن لڑکی جیسی تھیں
میں نے خطوط ڈاک ٹکٹس کی ترتیب اور تاریخ کے مطابق کھولنے شروع کئے
پہلے پہل کے خطوط بچکانی باتوں سے بھرے ہوئے تھے
وہ لڑکی کبھی اپنے کپڑوں کے رنگ کا تذکرہ کرتی
کبھی بالوں، کبھی آنکھوں اور کبھی رنگ برنگی باتیں لکھتی
اس کا لکھا ساتواں خط قدرے سنجیدہ اور بے ذائقہ تھا
اسے پڑھتے ہوئے ایسا محسوس ہوا جیسی وہ یک دم جوانی کو پہنچ گئی ہے
اس نے بتایا وہ فراک پہننا چھوڑ چکی ہے
اب گاؤں میں چولہے کے لئے لکڑیاں لانے وہ نہیں نکلتی
نا ہی مہمانوں کے سامنے کھانا پروستی ہے
اونچی آواز سے نا تو بات کرتی ہے نا ہی قہقہہ لگاتی ہے
اس نے اپنے تمام تر کھلونے اپنی امی کے جہیز میں ملی پیٹی میں رکھ دئے ہیں !!
اس کا ساتواں خط پڑھ کر ایسا لگا جیسے کمرے میں اندھیرا زیادہ ہوگیا ہے
کوئی غیر مانوس ڈر کمرے میں چھپ کر داخل ہورہا ہے
پھر اس کے بعد کے تمام تر خطوط ایسے تھے جیسے ڈاکٹروں کی لکھی رپورٹ ہو
فقط ضروری باتیں ۔۔۔۔۔ وہ بتاتی موسم گدلا اور بارش مکروہ درجے تک گیلی ہے
اس کے سامنے لوگ باتیں نہیں کرتے ہیں
گاؤں کی عورتیں اس کے پاس بیٹھ کر ایک دوسرے سے آنکھوں آنکھوں میں باتیں کرتی ہیں
اس کی ماں اس کے لئے پیسے اور چھوٹی بڑی چیزیں جوڑنے لگ گئی ہے
اس نے بتایا مجھے خوف کھارہا ہے
اس گیارہویں خط میں اس نے پہلی بار سوال کیا کہ
مجھے بتاؤ وہ میرے ساتھ کیا کرنے والے ہیں ؟
مجھے افسوس ہونے لگا کہ کاش میں سفر پر نہ ہوتا تو اسے جواب دے پاتا
اس نے بارہویں خط میں لکھا کہ اس کا باپ اس کی ماں کے زیورات پالش کے لئے شہر کے زرگر کے پاس لے گئے ہیں
ماں اب گاؤں کی عورتوں کے گھر اور گاؤں کی عورتیں ہمارے گھر رسمی طور سے زیادہ آنے جانے لگی ہیں
تیرہویں خط میں اس نے بتایا اس کا بھائی شہر سے زیادہ رقم بھیجنے لگ گیا ہے
اس دن وہ خط میں بڑے بھائی کی باتیں لیکر بیٹھ گئی
اس نے بتایا وہ سالوں پہلے شہر چلا گیا تھا
اب تو اس کی داڑھی بھی اُگ گئی ہوگی
پھر ایک دم خط پڑھتے ہوئے مجھے لگا وہ افسردہ ہو گئی ہے اس نے کسی طرح کے جلے لہجے میں لکھا تھا کہ ابا جان کہتے ہیں بڑے شہر گاؤں کے بچے کھا جاتے ہیں
وہ واپس کیوں نہیں آتا ہے ؟
پھر چودہویں خط میں فقط سوالات تھے
بابا کی بات کا مطلب کیا ہے؟
شہر کیسے ہوتے ہیں؟
سنا ہے شہر میں گیس جیسی کوئی چیز ہوتی ہے جس میں پاتھیاں (گوبر کی روٹی) نہیں ڈالنی پڑتی اور آگ جل جاتی ہے بتاؤ کیا اس پہ روٹی گول بنتی ہے؟؟
کیا شہر میں سچ مچ لوگ ایک دوسرے کے گھر نہیں جاتے؟
تمہارا شہر کیسا ہے؟
شہر میں سیلاب آتے ہیں؟؟ ہمارے یہاں سارے کھیت بہ جاتے ہیں اچھا کیا شہر میں کھیت ہوتے ہیں؟؟
اور جانے کیا کیا
عجیب طرح کے سوالات
جن کے کسی قسم کے سر پیر نہ تھے
ایسے سوالات کون کرتا ہے
بھلا کون سی لڑکی ہے جو اتنی انجانی ہے
آخر یہ کس جانب کا گاؤں ہے؟
کیا وہ سچ مچ تیس سال کی ہے؟؟
اور پھر اس نے بیسواں خط لکھا
اس کا وہ خط آج بھی ایسا لگتا ہے جیسے اس نے جان بوجھ کر نہیں لکھا اس سے غلطی سے لکھا گیا ہے
اس نے صاف لکھا وہ شادی نہیں کرنا چاہتی
اسے مردوں سے ڈر لگتا ہے
وہ عورتوں کو مارتے ہیں
گاؤں میں تو آئے روز کوئی نا کوئی قصہ گردش کرتا رہتا ہے
جرگہ مردوں کا ہے
مردوں کے حق میں فیصلے ہوتے ہیں
جرگے اور پنچایت میں صرف مرد ہی کیوں ہوتے ہیں؟
میری کوئی بات نہیں سن رہا
الٹا عورتیں مجھے مسکرا مسکرا کر دیکھ رہی ہیں
اس نے مدد مانگی تھی
وہ چاہتی تھی کسی طرح میں اس کے گاؤں آؤں اور اسے یہاں سے لے جاؤں
مگر اس نے کوئی پتہ نہیں لکھا تھا
میرا دل لمحہ بھر کو رک گیا
میں نے خط بند کیا اور کمرے میں ٹہلنے لگا
عجیب وساوس روشن دان کھڑکی دروازے اور جانے کہاں کہاں سے کود کر میرے ساتھ کمرے میں ٹہلنے لگے
کون ہے وہ لڑکی؟؟
اسے میرا ایڈریس اور پتہ کس نے دیا ؟
میں کسی گاؤں میں نہیں ٹھرا
اتنے دن تو کبھی نہیں کہ کوئی مجھ سے تعلق بنا بیٹھتا
میں تو شکلا بھی حسین نہیں اور نا ہی میرا رنگ گورا ہے
اور وہ لڑکی مجھے خط کہاں سے ارسال کرتی ہے
کیا وہ کسی ڈاکیے کی بیٹی ہے؟؟ شاید اس کے گھر کے پاس ہی ہوسٹ آفس کا باکس ہوگا
مگر اسے میرا پتہ کس نے دیا ؟
کیا یہ کوئی مزاق ہے؟
میرے دوستوں میں سے تو کوئی ایسا گھٹیا مزاق نہیں کرسکتا
کیا وہ سچ مچ ہے؟؟
مگر وہ کون ہے؟
پھر میں نے یکے بعد دیگرے اس کے بقیہ خطوط مانو ایک ہی سانس میں پڑھ ڈالے
مجھے معلوم چلا اس نے شادی سے پہلے آخری خواہش کا اظہار کیا کہ وہ شہر دیکھنا چاہتی ہے
اس کا بوڑھا باپ اسے شہر گھمانے لایا تھا
وہ میرے ہی شہر آئے تھی
اس نے بلند عمارتوں کا لکھا
ہجوم اور گاڑیوں کے شور کا لکھا
اچھے کھانوں، مہنگے بازاروں کا لکھا
جن جگہوں کا اس نے نام لکھا وہ سب جگہیں میرے شہر کی ہیں
میرا سر چکرا کر رہ گیا
کیا وہ سچ مچ شہر آئی تھی
کیا دیکھنا چاہتی تھی وہ شہر میں؟؟
اور ۔۔۔۔ اور میرا ہی شہر کیوں ؟؟
اور جب میں نے اس کا آخری خط پڑھا
مجھے لگا کسی نے پورا کمرہ میرے سر پر دے مارا ہے
اس نے بہت عجیب و غریب لہجے میں لکھا
بھائی ۔۔۔۔ میری شادی ہوگئی ہے
تم شادی میں نہیں آئے
ابا جان جہاں میری شادی پہ خوش تھے وہیں وہ بے حد اداس تھے
میرے بھائی میں تمہارے شہر آئی تھی
شہر گھومنا محض ایک بہانہ تھا
میں اور بابا تمہیں ڈھونڈنے آئے تھے
شہر بہت عجیب ہیں یہاں بہت بھیڑ ہے
تم ہمیں کہیں نہیں دکھے
ہم تمہیں نہیں ڈھونڈ سکے
جس ایڈریس پہ میں خط بھیجتی رہی وہاں تالہ لگا تھا
شاید اب تم وہاں نہیں رہتے
اگر ایسا ہے تو تمہیں یہ بھی نہیں پتا ہوگا کہ میں نے تمہیں بہت خط لکھے تھے
میرے پیارے بھائی ۔۔۔۔۔ میں تمہاری بہن ہوں جسے تم نے فقط دس سال کی عمر میں ایسے ہی چھوڑدیا اور گاؤں سے چلے گئے
آخر تم گاؤں سے کیوں چلے گئے تھے
اور مجھے کیوں ساتھ نہیں لے کر گئے تم تو ۔۔۔۔۔ تم تو مجھے کاندھے پہ بٹھا کر کھیتوں میں چکر لگایا کرتے تھے
گاؤں کے میلے دکھاتے تھے
ماں بھی بہت روئی
اس کی آنکھوں میں موتیا اتر گیا ہے
میرے بھائی آخر تم کہاں ہو؟؟؟
کیا تمہیں میرا کوئی خط نہیں ملا ؟
کیا تمہیں میرا یہ خط بھی نہیں ملے گا ؟
کیا جب سے تم ہمیں چھوڑ کر گئے ہو ہماری یاد نے تمہیں نہیں رلایا؟؟
میں اس سے آگے نہیں پڑھ سکا
مجھے پتا ہے اس سے آگے آپ بھی نہیں پڑھ پارہے ہونگے
میں نے خط بند کردیا مٹھی میں بھینچ لیا
آخر وہ لڑکی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی وہ میری بہن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اچھا ۔۔۔۔۔۔۔ مجھ سے اور نہیں لکھا جارہا!!!!
ختم شدہ!

Facebook Comments

مسلم انصاری
مسلم انصاری کا تعلق کراچی سے ہے انہوں نے درسِ نظامی(ایم اے اسلامیات) کےبعد فیڈرل اردو یونیورسٹی سے ایم اے کی تعلیم حاصل کی۔ ان کی پہلی کتاب بعنوان خاموش دریچے مکتبہ علم و عرفان لاہور نے مجموعہ نظم و نثر کے طور پر شائع کی۔جبکہ ان کی دوسری اور فکشن کی پہلی کتاب بنام "کابوس"بھی منظر عام پر آچکی ہے۔ مسلم انصاری ان دنوں کراچی میں ایکسپریس نیوز میں اپنی ذمہ داریاں سرانجام دے رہے ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply