روبرو مرزا غالب اور ستیہ پال آنند

ہیں زوال آمادہ اجزا آفرینش کے تمام
مہر گردوں ہے چراغ ِ رہگذر ِ باد یاں
۰۰۰۰۰۰۰۰
ستیہ پال آنند
پیشتر اس کےکہ مَیں تشریح میں کچھ بھی کہوں
استعارہ اور پیکر کے لیے بھرپور داد
مہر گردوں اور چراغ ِ رہگزر ،کیا جوڑ ہے
انتداب و وصل بھی اور افتراق و قطع بھی
روشنی ، یعنی دئیے کی ۔۔۔بالمقابل نور ِ مہر
“مہر گردوں ہے چراغ ِ رہگذر باد”۔۔واہ
واہ واہ اور واہ واہ اور واہ واہ اور واہ واہ

مرز ا غالب
“داد جب حد سے گذر جائے توبتلانا مجھے”
یہ کہا تھا میں نے ہی تفتہؔ کو کچھ دن پیشتر
داد بھی بیداد ہو جاتی ہے گر حد سے بڑھے!

ستیہ پال آنند
جی، طبیعت کا ہمیشہ سے ہی جذبا تی ہوں میں
اس لیے کچھ آج حد سے بڑھ گیا ہے یہ چلن
اب اجازت دیں تو میں کچھ پوچھ ہی لوں آپ سے؟
ابتدائی بات تو ہے سیدھی سادی سی ، حضور
“آفرینش” کیا فقط ہیں یہ زمین و آسماں ؟
کیا فقط، سورج، ستارے ؟ دُرـ ِ چرخ ِ کہنہ رُو
آفرینش میں ہی شامل کیا ہیں ہم انسان بھی؟

مرزا غالب
ہاں، عزیزی، میں نے جب یہ کہہ دیا “اجزا تمام”
پھر تو شک کی کوئی گنجائش نہیں ہے اس جگہ

ستیہ پال آنند
پھر تو گویا، بندہ پرور، یہ سبھی شامل ہوئے
(عالم ِلاہوت میں؟ یا عالم ِ ناسوت میں)
سارے اجزا۔۔۔دیمقراسی سالمات و نیم وا
مادۃ العبدان۔۔۔یا ذی روح اِنس و بشریت؟
عبد ِ آب و گِل؟ جگت باسی منُش، بندہ ، بشر؟
یا نباتاتی ، خیابانی اپج، روئیدگی؟

مرزا غالب
ہاں، عزیزی، یہ تو بالکل سیدھی سادی بات ہے
وجہ اس کی کیا ہے، اس کے واسطے کچھ تم کہو

ستیہ پال آنند
اس زوال آمادگی کی وجہ کیا ہے، سوچئے
کیوں زوال آمادہ ہیں یہ آفرینش کے نشاں؟
آفرینش کے تمام اجزا تو شاید ہوں ، نہ ہوں
ہے زوال آمادہ اِنس و بشریت صدیوں سے اب
نسلیات و بشریت شاید ترقی زن ہوں ، پر
اِنسی آدم دوستی مفتود ہے خلقت میں اب

Advertisements
julia rana solicitors london

مرزا غالب
خوب سے اب خوب تر تم ہو گئے ہو، ستیہ پال
چڑھتے جایو کامیابی کا یہ اونچا نردبان!

Facebook Comments

ستیہ پال آنند
شاعر، مصنف اور دھرتی کا سچا بیٹا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply