روبرو مرزا غالب اور ستیہ پال آنند

وضاحتی نوٹ! “روبرو غالب” کے تیس سے کچھ اوپر تعداد میں مکالماتی “نظم نا مے” لکھنے کے بعد خدا جانے کیوں یہ شوق چرایا، کہ اپنے استاد محترم کو دو صدیوں کے زمان کی اور امریکہ  /ہندوستان کے مکان کی کی دیوار پھلانگ کر، بنفس ِ نفیس، ایک مئےخوار کی شکل میں بھی پیش کیا جائے۔ اس کے لیے خود مجھے ایک شرابی کا روپ دھارنے کی ضرورت تھی۔

(اب دیکھیں یہ ہنس مکھ نظم)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پُر ہوں میں شکوؤں سے یوں راگ سے جیسے باجا
اک ذرا چھیڑیے ، پھر دیکھیے کیا ہوتا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ستیہ پال آنند
راگ ہے ساز میں اور آہ و بکا عاشق میں
دونوں خاموش ہیں جب تک انہیں چھیڑے نہ کوئی
یہ تقابل تو ہے اک طفل ِ نو آموز کی بات
گویا عاشق کی بھی خوہش ہے ، کہ اسے چھیڑے کوئی
چھیڑے جانے پہ ہی یہ دونوں زباں زد ہوں گے
کیسا یہ بیت ہے، اک بے سر و پا مبحث پر
کیا بھلا آپ کا ہی شعر ہے یہ ، بندہ نواز؟
او ر اگر ہے تو یہ بیکار ہے، مجذوب کی بڑ
میری رائے ہے کہ اسے خارج از دیوان کریں

مرزا غالب
آج تم پی کے تو نہیں آئے، ستیہ پال آنند ؟
ہاں، اگر تم نے چڑھا رکھا ہے آب ِ نوشیں
تب تو تم قابلِ در گزر ہو، مہلت ہے تمہیں
ورنہ لاحول وِلا قوۃ ۔۔۔۔تم شیطاں ہو
حد ِ فاصل بھی ہے شاگردوں کی گستاخی کی
ایسی گستاخ زباں ، سو ء ادب ، اوچھا پن
شوض چشمی کی نہیں تھی مجھے تم سے امید

ستیہ پال آنند
ذہن میں اپنے تو خشکی کا بسیرا ہے، جناب
ایسے موسم میں بھلا پینا پلانا کیسا؟
یونہی جاتے ہوئے میخانے کے دروازے پر
تفتہؔ صاحب کوجو دیکھا تو گرہ گیر ہوا
تین بھٹیوں سے نکالی ہوئی سہ آتشہ تھی
چڑھ گئی جیسےکسی پیڑ پر بوزینہ کوئی
سوچا، میں حاضری لگوا لوں در ِ دولت پر

مرزا غالب
مئے کدے تک بھی گئے اور یہاں لوٹے بھی
اور تہی دست،لٹکتے ہوئے آئے ہو یہاں؟

ستیہ پال آنند
جی نہیں، ٹھونس کرلے آیا ہوں پاجامے میں
یہ رہی خالوؔ کی بھٹی کی زبردست شراب

مرزا غالب
لاؤ  رکھو ابھی کچھ دیر، پھر کھولیں گے اسے
ہاں کہو، شعر کی بابت تمہیں کیا کہنا ہے

ستیہ پال آنند
اپنی رائے پہ میں قائم ہوں ابھی، بندہ نواز
باجہ تو ساز ہے، خاموش پڑا رہتا ہے
خود بخود باجہ نہیں بجتا مغنّی کے بغیر
صرف تب بجتا ہے ،جب اس کو بجایا جائے
راگ سازندہ کا کرتب ہے، نہیں باجے کا
کچھ غلط میں نے کہا ہوتو سزا دیں مجھ کو

Advertisements
julia rana solicitors

مرزا غالب
تم نے برحق کہا، صائب ہے تمہاری رائے
شعر بھی گفت میں بیّن ہے ، یہی کہتا ہے
میں نے تشریح میں ایسے ہی کہا تھا، آنندؔ
میری تشریح پر تم غور نہیں کر پائے
اب چلو، چھٹی کرو، کھولو وہ بوتل، دیکھیں
کس کی قسمت میں ہے وہ قاف کی سرخاب پری!

Facebook Comments

ستیہ پال آنند
شاعر، مصنف اور دھرتی کا سچا بیٹا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply