میں تو چلی چین/پرانے بیجنگ کے کھانے۔فوڈ سٹریٹ کی رونقیں ۔ وانگ فو جنگ سٹریٹ (قسط13) -سلمیٰ اعوان

سچی بات ہے اگر پرانے شہر کے کسی باسی سے یہ پوچھا جائے کہ قدیم بیجنگ کی سب سے زیادہ ناقابلِ فراموش بات کونسی ہے؟تو پتہ ہے وہ کیاکہے گا اور کیا کرے گا؟
پہلے تو وہ ہنسے گا اور پھر منہ اور ہاتھ سے ایکشن کرکے بولے گا۔
‘‘ہمارے کھانے’’۔۔
چند لمحوں بعد وہ مخاطب کی آنکھوں میں اپنی چھوٹی چھوٹی آنکھوں کی ساری چمک انڈیلتے ہوئے بولے گا۔
‘‘واہ واہ جواب نہیں چینی کھانوں کا۔ہمارے کھانے جن میں زمانوں کی تہذیب اور کلچر رچا ہوا ہے۔وقت کے ساتھ ساتھ اُن میں ہونے والی تبدیلیوں نے کیسے کیسے اُن کی ہیت اور ذائقوں کے سواد میں چار چاند لگادئیے ہیں۔’’

آج میرے ساتھ سعدیہ تھی۔ہمیں سویرے ہی عمران یہاں وانگ فوجنگ Wangfujing ایریا میں ڈراپ کرگیا تھا۔ مجھے کچھ کتابیں دیکھنا تھی۔اِس مرکزی حصّے میں کتابوں کی بہت بڑی دُکان تھی۔یہ فارن لینگوایج تھی۔چار پانچ فلور پر مشتمل۔‘‘اف اتنی جدید کہ بندے کی آنکھیں پھٹ پھٹ جائیں۔’’
یا تو میں اناڑی تھی ۔مگر سعدیہ نے بھی بہت ٹکریں ماریں۔مگر سارے میں چائنا ہی بھرا ہوا تھا۔انگریزی کے سیکشن کا پتہ ہی نہیں چل رہا تھا۔ جب پتہ چلا اور چھان پھٹک کی تو احساس ہوا بڑا نامانوس سا لٹریچر ہے۔سچی بات ہے میرے تو خاک پلے نہ پڑا۔کچھ ایسا ہی حال سعدیہ کا بھی تھا۔حالانکہ وہ انگریز ادب میں ماسٹرز ہے اور ادب شناس بھی ہے۔

فوڈ مارکیٹ جو قریب ہی تھی وہاں آگئے۔
اب دو ڈھائی گھنٹے کی ذہنی و جسمانی مشقت کا نتیجہ صفر بٹہ صفر ہو تو پھرڈپریشن کا ہونا تو لازمی ہے۔ اسے دور کرنے کے لیے منہ ماری کو جی تو چاہتا ہے۔اور مزے کی بات کافی بار بھی دو چھلانگ کے فاصلے پر ہو۔بیجنگ آکر میں نے بلڈ پریشر کے خوف کو دل سے نکال دیا تھا۔
بار کے اندر کا ماحول بڑا نگھا اور رونق سے بھرا پُراتھا۔اونچی سی کرسی پر بیٹھ کر چند گھونٹ تو بھر لیے پھر جی باہر نکلنے کو مچلنے لگا۔دس بج رہے تھے اور بازار کی رونقیں جوان ہونے کی طرف بڑھ رہی تھیں۔
ہمارے سامنے وانگ فوجنگ کی فوڈ سٹریٹ تھی۔سچی بات ہے دل نے کہا تھا۔


‘‘ واہ کیا بات ہے اس فوڈ سٹریٹ کی۔’’
محرابی دروازوں کی کوئی آرائش و زیبائش تھی۔ہمارے ہاں ٹرکوں کو سجانے سنوارنے میں جو رنگ ریزی کا کام ہوتا ہے کچھ اسی نوع کی آرائشی پٹیاں ان کے منہ ماتھوں اور اجسام کے بقیہ حصّوں پر لشکارے مارتی تھیں۔اتنا تام جھام کہ بندہ تو منہ کھولے حیرت سے دیکھتا ہی رہ جاتا تھا۔ بازار اندر ہی اندر اسی طرح کے محرابی دروازوں کے عقب میں پھیلتے چلے گئے تھے۔دروازوں میں فیروزی اور زہر مہرہ رنگ زیادہ نمایاں تھا۔ جبکہ کھانے پینے کی دکانوں میں سرخ رنگ چمک رہا تھا۔
چونکہ صبح تھی اس لیے دھلائی صفائی کا کام زوروں پر تھا۔ میزوں کی صفائی ، کرسیوں کی جھاڑ پونچھ، فرش اور گلی کی دھلائی۔
ہم بھی آگے بڑھتے گئے۔ سوونیئرز کی دکانوں میں رش تھا۔ایک میں گئے پھر دوسری میں جھانکا۔سامان ابل رہا تھا۔ اتنی ورائٹی کہ مت ہی ماری جائے۔پانچ پانچ یوآن کی چینی آرٹ کی شاہکار ہلکی پھلکی جیولری رکھنے کی دلکش ڈبیاں خریدیں۔
جس گلی میں ہم کھڑے تھے ان میں مسلم ریسٹورنٹ دو تین تھے۔Donglaishanمسلم ریسٹورنٹ اپنے ہاٹ پاٹ مٹن کی ڈش کی وجہ سے دور نزدیک خصوصی شہرت کا حامل ہے۔سعدیہ یہاں کھانا کھا چکی تھی اور چاہتی تھی کہ ہم ابھی سیر سپاٹا کریں اور دوپہر کا کھانا یہاں کھائیں۔
آپ بھول جائیں گی لاہور کی مٹن کڑاھی کو ۔ایک تو مٹن کا انتخاب بہت احتیاط سے کیا جاتا ہے۔کٹائی میں بھی بڑا سلیقہ طریقہ نظر آتا ہے۔ایسی نفیس ہڈی والی بوٹیاں کہ بس بندے کی پلیٹ سج جاتی ہے۔گھلاوٹ کا وہ عالم کہ بوٹی کی شکل بھی قائم اور توڑنے میں بس ذرا سا چھونے کی بات۔بوٹی منہ میں رسیلی خوبانی کی طرح گھلتی جائے۔مصالحوں کا ذائقہ آئے مگر نہ جلن اور نہ تیزابیت کی کوئی شکایت۔
‘‘چلو تو پھر آج ہاتھ کنگن کو آرسی کرتے ہیں۔رکنا ہے اس وقت تک کہ جب تک کہ اِس ذائقے سے قلب کو گرما نہ لیں۔
‘‘چلیے طے ہوگیا۔’’

اب آگے بڑھے۔بہت دور تک آہنی نقاشی سے لتھڑی پتھڑی محرابوں کا سلسلہ چلتا گیا تھا۔ایک خوبصورت ریستوان کی سرخ کارپٹیڈ سیڑھیاں چڑھ کر ہم نے تصویر کشی کی۔اور مڑے۔
وانگ فوجنگ سٹریٹ بڑی شہرت کی حامل ہے۔کہہ لیجیے یہ پیرس کی شانزے لیزا ہے۔کہہ لیجیے کہ بیجنگ کی گوالمنڈی ہے۔ ڈاؤن ٹاؤن ہے اس کا۔یہاں بہترین ڈپارٹمنٹل سٹورز ہیں جن کے اندر ایک پوری دنیا آباد ہے۔تاریخ بھی پرانی ہے۔منگ اور Qingسلطنتوں کے زمانوں کی۔بس سرگرمیاں تھوڑی فرق تھیں۔تب شہزادیوں کی رہائش گاہیں اور اشرافیہ کی کاروباری سرگرمیوں کا مرکز تھیں۔
کہیں میٹھے پانی کا ایک کنواں بھی دریافت ہوا جس نے علاقے کی اہمیت بڑھا دی ۔ہم نے دھیرے دھیرے چلتے چلتے دل کش عمارتوں اور گھومتے پھرتے خریداری کرتے لوگوں کو دیکھا۔
سعدیہ سینٹ جوزف چرچ بھی دکھانا چاہتی تھی جو کہیں آگے جاکر تھا۔
‘‘نہیں بھئی بس اب چلو جہاں کھانا کھلانا ہے۔بہتیرا گھوم لیا۔’’
اب Dong Loishunکے شاندار ریسٹورنٹ میں داخل ہوئے۔مسلم ریسٹورنٹ جسے حئی Hui لوگ چلاتے تھے۔
میں نے پاؤں جوتوں میں سے نکال کر انہیں ذرا آرام دینے کے لیے موزوں جگہ پر ٹکاتے ہوئے سعدیہ کو سنا جو کہتی تھی۔
یہاں چند اور ڈشزبھی کلاس کی تیار ہوتی ہیں۔ مٹن کے قیمے سے پیسٹریز بھی کمال کی بنتی ہیں۔تازہ لے کر جائیں گے۔فروٹ سے بننے والی میٹھی پیسٹریاں بھی بہت مشہور ہیں۔جو منہ سے نہ اُتریں۔
کِسی اور دن آپ کو ایک اور ریسٹورنٹ دکھاؤں گی جہاں باربی کیو بنایا جاتا ہے۔مزے کی بات جس آگ پر یہ باربی کیو بنتا ہے ۔اس کی لکڑی بھی کوئی عام نہیں۔بڑی خاص الخاص ہوتی ہے۔کھجور ،صنوبر اور سرو کے پیڑوں کی جو ایندھن کے طور پر جلائی جاتی ہے۔
‘‘تم نے چوب اسٹکس سے کھاناکھانا سیکھا ہے۔’’
‘‘کہاں سعدیہ ہنسی۔ہمارے بس کی بات نہیں۔اُن کی تو مہارت اور سٹائل دیکھ کریہی جی چاہتا ہے کہ کھانے پینے پر تو لعنت بھیجو۔بس انہیں ہی دیکھتے رہو۔

پھر اس نے حال ہی میں ہونے والا ایک قصہ سنانا شروع کردیا۔
یہیں کہیں ایک اور ریسٹورنٹ ہے نام شایدفینگ شانFanshan ہے۔کوئی دو ہفتے پہلے ایمبسی کے ایک فنکشن میں مسٹر و مسز احمد سے ملاقات ہوئی تھی۔متمول پاکستانی بزنس کلاس جوڑا ہے اور نت نئے تجربات کرنے کا بڑا شوقین ہے۔جھینگے پینگھے،کیکڑے میکڑے،گھونگے مونگھے ، سمندری ککڑی مکڑی سب پر دانت تیز کرنے کا بہت شوق ہے۔اولڈ بیجنگ کا بھلا کون سا ریسٹورنٹ ہے جس کے بارے انہیں علم نہ ہو اور جہاں جاکر انہوں نے اِن کھانوں پر طبع آزمائی نہ کی ہو۔تعریفوں کے پل باندھ رہی تھیں کہ بس ایک دفعہ جاکر تو دیکھو قسم سے۔اس کا مالک شاہی گھرانے کا باورچی تھا۔کھانوں کے رنگ ،خوشبو اور ذائقے پر اس نے اتنی توجہ دی ہے کہ یقین کرو ایک ایک ڈش ڈونگا بولتا ہے کہ اصلاً نسلاً شاہی ہوں۔ریسٹورنٹ کی سجاوٹ دیکھ کر بھی مزہ آجاتا ہے۔
سبھی خواتین ہنس رہی تھیں۔درمیان میں کسی نے لتاڑ بازی بھی کی۔
‘‘بھئی خدا کا کچھ خوف کرو ۔کیوں زمین آسمان کے قلابے ملارہی ہو؟ہمیں بھی یہاں رہتے ہوئے تین چار سال تو ہونے کو ہیں۔ہمیں تو ابکائیاں آنے لگتی ہیں۔’’
‘‘دراصل تم لوگوں نے بس ایک رائے قائم کرلی ہے۔مائنڈ سیٹ بس اسی پر سوچنے لگا ہے۔یقین کرو اِس ریسٹورنٹ میں کوئی لگ بھگ سو کے قریب کھانے کی اقسام ہیں۔خیر میں نے تو چند ایک ہی چکھی ہیں۔باقی کا تو سنا ہی ہے کہ کِس اہتمام سے پکتی ہیں۔’’

حقیقت یہ ہے کہ قدیم شہر میں شاہی خاندان کے رہائش پذیر ہونے کی وجہ سے بھی کھانوں کی تہذیب نے ایک مسلسل ارتقائی عمل کو تخلیق کرنے میں مدد دی ہے۔یہ سب باتیں دلچسپ بھی تھیں اور مزے کی بھی۔ایسا ہی ہوتا ہے کچھ لوگ اجنبی جگہوں اور اجنبی کھانوں سے بڑی جلدی مانوس ہوجاتے ہیں۔جیسا کہ ہم اکثر سنتے ہیں کہ گورے ہمارے تیز مرچوں والی کڑاہی کو چسکے لے لے کر کھاتے ہیں۔اِدھر سے ناک بہہ رہی ہے اُدھر سے سے آنکھوں سے پانی۔ پر مجال ہے جو کھانا چھوڑ دیں۔سوں سوں کرتے جاتے اور لقمے پر لقمہ لیے جاتے ہیں۔
کچھ ہی دنوں بعد جب میں پرانے بیجنگ پر ایک تحریر پڑھ رہی تھی۔چین کے ایک مشہور مصنف زاؤ کیان Xiao Qian کی تحریر نے بہت متاثر کیا۔جس نے کم و بیش دس سال کا عرصہ بیجنگ سے دور چین کے مختلف شہروں میں گزارا تھا۔
اکثر تنہائی میں جب اُسے بیجنگ کی یاد ستاتی وہ خود سے سوال کرتا۔
بیجنگ کی کیا کیا چیزیں یاد آتی ہیں؟ارے سب سے زیادہ تو یہ اسنیکس ہی تڑپاتے ہیں۔سیاہ گندم سے بنا ہوا کیک بھی تو میری کمزوری ہے۔ اس کا تصور ہی منہ میں پانی لے آتا ہے۔خمیر شد سویا بین دودھ یہ یقینا ًدہی ہوگا۔میں نے پڑھتے ہوئے سوچا تھا۔ ڈونکی رولز کی بھی یاد اُسے ستاتی تھی اپنی محبوبہ کی طرح ۔ہاں مگر باجرے کے آٹے سے تیار شدہ مادہ جو گرم پانی اور وہ بھی تانبے کی کیتلی میں اُبلا ہواسے تیار کیا جاتا ہے۔’’
اس کی ترکیب میں نے ڈھونڈنے کی کوشش کی مگر ملی نہیں۔باجرے کا آٹا بہت طاقتور ہوتا ہے۔یقینا ًیہ کوئی اچھی ڈش ہی ہوگی۔ہاں تیل میں تلی ہوئی قیمہ بھری آنتوں پر میں اپنی ناک سیکڑنے سے باز نہیں رہ سکی تھی۔

آگے چند مزید دل کو چھونے والے جذبوں سے بھری تحریریں تھیں۔بہت سے دانشوروں کی ،لکھاریوں کی،آرٹسٹو ں کی جو وطن سے دور گئے اور جنہیں وطن کی ہڑک اٹھتی تھی اور جنہیں ان کے پسندیدہ کھانے نہیں ملتے تھے اور وہ اسنیکس کو یاد کرتے تھے ۔انہیں روسٹ ڈک کی یاد آتی تھی۔مٹن ہاٹ پاٹ کھانے کو جی مانگتا تھا۔ مٹر کے آٹے سے تیار کیک کی یاد تڑپاتی تھی۔موسم سرما میں پھیری والے کی صدائیں سننے کو کان چاہتے تھے مگر سن نہ پاتے تھے۔
اِن تحریروں کو پڑھتے ہوئے میں خود بھی بڑی جذباتی سی ہورہی تھی۔مجھے ایک دلچسپ سی ہنسانے والی یاد آئی تھی۔
ہم لوگ انڈیا کسی کانفرنس کے سلسلے میں گئے ہوئے تھے۔چار پانچ دن یہی سبزیوں کی بھاجی اور پنیر پر ہی چلتے رہے۔چھٹے دن ہماری ایک خوبصورت شاعرہ،بہت خوبصورت نثرنگار ،کالم نگار عمرانہ مشتاق کو گوشت کی ایک پلیٹ نظر آئی۔اس نے دھڑکی لگائی اور چلائی۔
‘‘ہائے میں مرجاواں بوٹی۔’’
میٹھی سی یاد نے کھلکھلا کر ہنسنے پر مجبور کردیا تھا۔سعدیہ کے پوچھنے پر اُسے بھی سُنایا۔ایک بجے فارغ ہوئے تو گھر واپسی کا تو موڈ ہی نہیں تھا۔ دفعتاً مجھے یاد آیا کہ سعدیہ کو بہائی Beihaiپارک دوبارہ دیکھنے اور مجھے دکھانے کا بہت اشتیاق تھا۔کشتی کی سیر کا بھی اُس نے بڑے رومانوی انداز میں ذکر کیا تھا۔ جب وہ کہتی تھی اس میں بیٹھ کر بس یوں لگتا ہے جیسے آپ سری نگر کی ڈل جھیل کے شکارے میں ہوں۔میں نے دیکھا تھا اس کی آنکھیں جیسے چمک رہی تھیں۔جائے وقوعہ کا پوچھنے پر جانا کہ یہ وہیں فاربڈن سٹی کے نزدیک ہی تو ہے ۔
‘‘ارے تو پھر ہم اس کی سیر سے فارغ ہوکر قریبی کِسی ہوٹانگز کا بھی چکر لگا سکتے ہیں۔’’میں نے مسرت بھرا چٹخارہ بھرا تھا۔
‘‘کہاں پھر رہی ہیں آپ؟یہ آپ کا شالامار باغ ہے کیا کہ جس کے تیسرے تختے تک بندہ بیس منٹ میں پہنچ جاتا ہے۔ارے میری پیاری امّاں نہ تو اس کی جھیل کی وسعتوں کی کوئی انتہا ہے اور نہ محل باڑیوں کی۔یہ Qingسلطنت کے شاہی محلات کا حصّہ تھا اور شاہی باغ کہلاتا تھا۔بیجنگ کے قدیم ترین اور خوبصورت ترین اس باغ کا آج بھی جواب نہیں۔
اب جب ساری باتیں یاد آرہی تھیں تو پھر وہاں جانے میں کیا ہرج تھا۔وقت بھی تھا۔ہاں قریبی کسی ہوٹانگز جانے کے ارادے کو موخر کرتی ہوں فی الحال۔دراصل ہوٹانگز کی
دنیا کی دل کشی نے مجھے بُری طرح جکڑ لیا تھا۔ یہ ایک منفرد اور دل کش دنیا تھی جو بندے پر انسانی تمدّن کے جانے کتنے راز فاش کرتی تھی۔
تو پھر چلنا شروع کردیا تھا کہ صرف پیدل چلنے کا راستہ تھا۔قدموں کے ساتھ ساتھ سعدیہ کی باتیں بھی چلتی جارہی تھیں۔
کبھی بادشاہوں کا باغ تھایہ ۔آج عوام کا ہے،سیاحوں کا ہے،رشتے کروانے والیوں کا ہے۔محبت کرنے والے جوڑوں کا ہے۔شوہر اور بیوی کی متلاشی لڑکی لڑکے کا ہے۔اِس پارک کے ساتھ کیسی کیسی دلچسپ کہانیاں جڑی ہوئی ہیں۔کچھ ماضی کی،کچھ حال کی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

چلو پہلے ماضی کیا کہتا  ہے وہ سُن لیں۔
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ جادو کے تین پہاڑ تھے جن کے نام پنگالی Pangali، Yingzhouاور Fang Zhang تھے۔یہ تینوں بہائی Beihaiجھیل کے مشرق میں تھے۔
کِسی جگہ کے بھی پہاڑوں بارے پڑھ لیں وہ ہمیشہ دیوتاؤں اور پریوں کے مسکن ہوتے ہیں۔یہاں کے پہاڑ بھی ان کے ہی قبضے میں تھے۔بادشاہ وقت کو اِن پہاڑیوں پر ایک ایسی ہربل بوٹی کا پتہ چلا تھا جو انسان کی ابدی زندگی کا باعث بن سکتی تھی۔ایسی باتیں بادشاہوں کو تو پھر ہمیشہ ہی جنون میں مبتلا کردیتی ہیں۔خیر سے یہاں بھی کہانی میں بڑی اپنایت اور مانوسیت تھی۔
اب فیوڈل ادوار کے بہت سے بادشاہوں کی طرح Qinسلطنت کے شہنشاہ کن Shihuangجو ابدی زندگی کے لیے مرا جاتا تھا نے بھی اسی ریت کو نبھایا اور ان پہاڑوں کا چپہ چپہ چھان مارا۔اس نے لوگوں کو اِن پہاڑوں پر بھیج بھیج کر پاگل کردیا۔جب کچھ نہ بنا تب اس نے یہاں تین بڑے بڑے تالاب بنائے اور ان میں تین پہاڑیاں نصب کروائیں۔بس اسی نوع کے کچھ ایسے ہی کام بعد کے بادشاہوں نے بھی کیے۔ہربل بوٹی تو کیا ملنی تھی،اور حیات جاوداں کا شربت انہوں نے کیا پینا تھا۔نتیجتاً دو باتیں ہوئیں۔
پہلی کہ ایسا کرنے کے پیچھے ایک عقیدے نے جنم لیا تھا کہ مختلف پہاڑیوں کے پانی اور قدیم چینی طرز تعمیر کے امتزاج سے بڑے مختلف تاثرات جنم لیں گے۔
ویسے سچی بات ہے انہوں نے جس مرضی عقیدے کے تحت جو مرضی کیا اس نے ایک حیرت انگیز اور شاندار اور منفرد قسم کا پارک بمعہ مختلف محلوں اور ٹمپلوں کے جہاں پگوڈا ٹائپ بلندوبالا سٹوپا جو اس پارک کے ہر حصّے سے کسی قطبی تارے کی مانند دکھتا ہے تخلیق ہوگیا تھا۔یہاں پانیوں کے دہانوں پر بنے اِن پگوڈا نما عمارتوں میں لوگوں کا کچھ دیر کے لیے اترنا،سیرسپاٹا کرنا اور پھر کشتی سے کسی اور پرجااترنا جیسا بہت پرلطف کام تھے۔
171ایکٹر پر پھیلا یہ پارک جس کا آدھا تو پانی سے بھرا ہوا ہے۔درمیان میں جزیرہ سا بن گیا ہے ۔وائٹ پگوڈا اس کا ایک امتیازی نشان ہے۔
اس کا سب سے خوبصورت حصہ سرکلر سٹی والا تھا۔ بیجنگ کی مرکزی جگہ میں یہ پارک اور پھر پارک کا یہ مرکزی حصّہ۔اس کا حد سے زیادہ شاندار ہال جس میں کبھی بادشاہ بیٹھتا تھااور فطرت سے لطف اندوز ہوتا تھا۔آج عام اور ماٹھے لوگ بیٹھتے ہیں۔مجھ جیسی عورت بیٹھی تھی۔اس کے قیمتی پتھروں کو دیکھتی تھی۔اس پر بکھرے پیلے اور سبز رنگوں کے امتزاج کی دلکشی کو جانچتی تھی۔کبھی فطرت کے حسن سے آنکھ مچولی کھیلتی اور کبھی انسانی ہاتھوں کی کاریگری پر رشک کرتی تھی۔
پارک سچی بات ہے بنایا تو Liaoبادشاہوں نے کوئی گیارہویں صدی میں تھا۔ خراج عقیدت پیش خدمت ہے ان کے حضور ۔تاہم بعد میں آنے والوں نے بھی اسے
خوب سجایا سنوارا۔سو ان کے لیے بھی دعائیں۔
بھلا ہو تم سب کا۔اتنی خوبصورت یادگار چھوڑی ہے۔
مگر پارک تو میلوں میں پھیلا ہوا تھا۔ چھوٹی موٹی جھیلوں میں نہیں عظیم قسم کی بے حدوحساب فراخ دل و صورت والی میں گھر ا ہوا تھا۔ جس میں چلتی کشتیوں نے اکسا اکسا کر ماردیا تھا کہ بس اب پہلا کام ہمارے اندر بیٹھنے کا کرو۔بیٹھ تو گئے تھے۔مگر اُس چسکے کہ چائے کا سپ بھرنا،چیز بھرے سلائس کی بائٹ لینا اور گردوپیش کے ساتھ ساتھ ذرا نیلے آسمان کے ساتھ آنکھ مٹّکا کرنا کسقدر دلچسپ شغل ہوگاجیسے احساس کی رنگینی اور فینسٹی سے محروم رہے کہ نہ کچھ کھانے کی طلب تھی اور نہ پینے کی۔
اس تک جانے کا راستہ خوبصورت تھا ۔ سنگ مر مر کے نصف قوسی کنگورے دار پل پر خوبصورت ترین تاحد نظر بکھرے ٹھنڈی ہواؤں سے ہلکورے کھاتے پانیوں پر رقصاں سورج کی کرنوں کو مسرت بھری آنکھوں سے دیکھنا اور کچھ دیر کے لیے سنگی دیوار کی قربت سے جڑ کر اِس کائناتی اور زمینی حُسن کو دیکھنا سچی بات ہے بہت مسرور کن تھا۔کشتی میں بیٹھ کر میں نے دونوں کام کیے۔کشتیاں بھی کچھ کچھ شکارے ٹائپ تھیں۔
مجھے استنبول کے شہزادوں کے جزیرے یاد آئے تھے جہاں میں نے اور سیما نے پورا دن گزارا تھا۔مگر یہاں طے تھا کہ ہم نے صرف چار گھنٹے گزارنے ہیں۔
اس کی نائن ڈریگون وال بھی ایک شاہکار تھی۔مگر مجھے اِس پویلین میں جاکر ذرا مزہ نہیں آیا۔سانپوں ،بچھوؤں اور خوفناک حشرات کو جس طرح دھنک رنگوں میں پینٹ کیا گیا ہے وہ رنگوں کے حسن کی میرے خیال میں سراسر توہین ہے۔اُن کی خوبصورتی، ان کی دل آویزی کا تعلق صرف اور صرف لطافت سے ہے جن کی دید اندر کے جذبات کو سرشاری سے نہال کرتی ہے۔اب کریہہ ،دہشت و خوف کی عکاس اِس مخلوق کو اِن میں لپیٹنے کو مجھ
جیسی کیا کم و بیش بیشتر کے لیے تو ہمیشہ دہشت کا سبب ہی بنتی ہے۔تاہم کچھ حصّے آرٹ اور تعمیر کے شاہکار تھے۔
جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply