درباری کالم نگار اور نادر صدیقی کا اغواء۔۔آغرؔ ندیم سحر

مجھے یاد پڑتا ہے مجھے سب سے پہلی گالی مسلم لیگ ق کے دور میں پڑی تھی، جب پنجاب کے وزیر اعلیٰ چودھری پرویز الٰہی تھے اور میں نے ان کے خلاف ایک تنقیدی کالم لکھ دیا، جس پر ق لیگی محب ِ وطن پاکستانیوں نے گالیوں کی بوچھاڑ کر دی،وہ دن ہے اور آ ج کا دن۔۔ہر دورِ حکومت میں اگر اپوزیشن کے خلاف لکھا تو اپوزیشن کی گالیاں کھائیں،اگر حکومت کے خلاف لکھا تو حکومتی سپورٹرز کی طرف سے کھری کھری  سننے کو ملیں۔یہ دس سال کا سفر ہے اور دس سال میں جو جملہ سب سے زیادہ سننے کو ملا وہ یہی تھا کہ”لفافہ صحافی“،”درباری کالم نگار“،”درباری صحافی“،”بکاؤ صحافی“ یا پھر سب سے بڑی گالی غدار کی دی جاتی ہے۔

ہمارے عوا م کو یہ لگتا ہے کہ جو صحافی حکومت پر ہماری پسندیدہ سیاسی پارٹی یا ہمارے سیاسی پیشواؤں پر تنقید کرے وہ ملک کا غدار ہوتا ہے۔ایسا کیوں ہے؟؟

ہمارے عوام کا ایسا مائنڈ سیٹ کیوں ”بنا“ دیا گیا ہے؟

میں بن گیا کی جگہ بنا دیا گیا لگا رہا ہوں اور اس کا سارا ”کریڈیٹ“سیاسی جماعتوں کو دیتا ہوں۔انہوں نے یہ نظریاتی ورکرز تیار کرنے میں بڑی محنت کی ہے،یہی وجہ ہے کہ اس قوم کو آپ لاکھ ثبوت لا کر دکھا دیں کہ میاں صاحب نے کرپشن کی ہے،پیپلز پارٹی دودھ کی دھلی جماعت نہیں ہے،عمران خان کے پاس اچھی ٹیم نہیں ہے،مولانا فضل الرحمن سمیت ہماری مذہبی جماعتوں نے ہمیشہ مفادات کی خاطر مفاہمت کی پالیسی اپنائی۔مگر یہ عوام نہیں مانیں گے کیونکہ ہم نے اس عوام پہ بہت محنت کی ہے۔اگر میں یہ کہوں تو بے جا نہ ہوگا کہ ہم نے  ستر سال میں یہ منفرد اور باکمال قوم تیار کی ہے جسے سچ ہضم نہیں ہوتا۔

یہ قوم اسی پر یقین کرتی ہے جو اسے سامنے  نظر آتا  ہے، لہٰذا عمران خان لاکھ بھی ملک کو ترقی کی جانب لانے کی کوششیں کرے مگر یہ قوم ایک ہی جملہ بولے گی”میاں صاحب نے سڑکیں بہت بنوائیں“۔آپ اس قوم کو لاکھ سمجھائیں کہ پی ٹی آئی کے دور میں اگرچہ حالات بہت سنگین ہیں مگر عمران خان کی کوششوں کو شک کی نظر سے نہیں دیکھا جا سکتا ،مگر یہ قوم نہیں مانے گی۔آپ لاکھ سمجھا لیں کہ عمران خان کے دور میں ترقی کے فلاں فلاں پروجیکٹ مکمل ہوئے مگر یہ عوام جواب میں آپ کو عمران خان کا درباری کہیں گے،گالی دیں گے،غدار کہیں گے اور ساتھ ہی ”میاں صاحب کی بنائی ہوئی موٹر وے کی لمبائی اور چوڑائی گنوانا شروع کر دیں گے“۔یہی کام مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی کے دور میں ہوتا رہا۔ہم جب اپوزیشن یا حکومت کی حمایت میں لکھتے تھے تو مخالف سمت سے غدار گردانے جاتے تھے۔لہٰذا دوستو!آپ مجھے غدار کہہ سکتے ہیں۔

میں اس کالم کے توسط سے یہ بات خدا کو حاضر ناظر جان کر لکھ رہا ہوں کہ مجھے آج تک کبھی کسی سیاسی پارٹی سے نہ کالم لکھنے کے پیسے ملے اور نہ ہی مجھے کسی سیاسی جماعت نے کسی وزارت یا عہدے کی پیش کش کی۔ میں آج جس مقام پہ کھڑا ہوں اس میں بھی کسی بھی سیاسی پارٹی یا سیاسی پیشوا کا کوئی کردار نہیں ہے۔میں اگرچہ گزشتہ دس سالوں میں درجنوں سیاست دانوں سے ملا،ان کے ساتھ کھانے کھائے اور چائے میں شریک ہوا مگر کسی سیاسی لیڈر سے نہ نوکری کی درخواست کی اور نہ لفافہ لیا۔جو لکھا،خدا کو گواہ بنا کر لکھا اور ہمیشہ ایک ہی نقطہ نظر رہا کہ جس جس نے بھی اس ملک کے عوام کا ٹیکس کھایا،اس ملک کے عوام کے پیسے پہ دولت بنائی، اپنی جاگیریں بنائیں  اور قوم کے بچوں کو بھوکا ننگا کر کے اپنے بچوں کی قسمت بنائی، انہیں بالکل بھی معاف نہیں کرنا چاہیے۔یقین کریں نہ عمران خان میرا رشتہ دار ہے اور نہ نواز شریف۔میں نے نواز شریف کے دورِ حکومت میں ان کے خلاف بھی کالم لکھے اور حق میں بھی۔

مجھے خوب یاد ہے جب میرے کالموں پر میرے نون لیگی دوست کہا کرتے تھے کہ نواز شریف کو اپنی مدت پوری کرنی چاہیے تو میں نہ چاہتے ہوئے بھی اس کے حق میں تھا۔میں بھی یہی سمجھتا تھا کہ مڈٹرم الیکشن جمہوری راستہ نہیں ہے بلکہ حکومتوں کو اپنا دور مکمل کرنا چاہیے تاکہ اگلے الیکشن میں ووٹ دیتے وقت ووٹرز کے لیے آسانی ہو کہ وہ کسے منتخب کریں۔آج جب انہی دوستوں سے میں کہتا ہوں کہ عمران خان پر تنقید ضرور کریں مگر اس کا حل”مائنس ون“بالکل بھی نہیں۔اب وہی دوست مجھے غدار کہتے ہیں یا”لفافہ صحافی“ کہہ کر چپ کروا دیتے ہیں۔ ایسا کیوں ہے؟ہم سیاسی حوالے سے اتنے ضدی اور ہٹ دھرم کیوں ہیں؟ہم سیاسی جماعتوں کی حمایت کو اپنی انا کا مسئلہ کیوں بنا لیتے ہیں اور سیاسی پیشواؤں کی اچھی بری تمام حرکتوں کوکیوں ڈیفینڈ کرنا شروع کر دیتے ہیں؟۔

میں آج بھی عمران خان کے مدت پوری کرنے کو ترجیح دوں گا، اگرچہ عمران خان کی ٹیم نے اسے بری طرح فلاپ کر دیا ہے،عمران خان اپنے کیے ہوئے درجنوں وعدے پورے نہیں کر پا رہے اور اس معاملے میں عمران خان اپنی کابینہ کے ہاتھوں مار کھا گئے ہیں۔یہ سو دنوں میں ملک بدلنے والے تھے مگر افسوس اڑھائی سال میں ملک کا دیوالیہ نکل گیا۔اس سب کے باجود جب ہم نون لیگ،پیپلز پارٹی،ایم کیو ایم کو پچیس سے تیس سال ملک دیوالیہ کرنے کے لیے دے سکتے ہیں تو پانچ سال پی ٹی آئی کو کیوں نہیں دے سکتے،ایک آزمائش ہی سمجھ لیں۔

لہٰذا ہمیں عمران خان پر بھروسہ کرنا چاہیے اور مجھے ابھی بھی قوی یقین ہے کہ جب یہ حکومت جائے گی تو ملک یقینا ً کسی اچھی پوزیشن میں ہوگا۔اب ساری بحث اور گفتگو کے بعد آپ مجھے لفافہ صحافی کہیں یا درباری،غدار کہیں یا محب ِ وطن،مجھے یقین جانیں ایک ٹکے کا فرق نہیں پڑتا کیونکہ میرا ضمیر مطمئن ہے۔اب جب دوست مجھے لفافہ صحافی کہتے ہیں تو میں شدید خواہش ظاہر کرتا ہوں کہ یار کسی سیاسی پارٹی سے کنٹریکٹ سائن کروا دیں کیونکہ ہم سب جانتے ہیں جس سیاسی پارٹی نے سب سے زیادہ صحافیوں،شاعروں اور ادیبوں کو نوازا وہ پاکستان مسلم لیگ نون ہے اور ہم سب اس کے چشم دید گواہ ہیں لہٰذا میری دوستوں سے گزارش ہے کہ نون لیگ سے کوئی کنٹریکٹ سائن کروا دیں تاکہ میں جینوئن لفافہ صحافی بن سکوں اور میں سکونِ قلب کے ساتھ نون لیگ کی حمایت کروں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

دوستو!ابھی کالم لکھتے ہوئے ایک افسوس ناک خبر ملی کہ بورے والا سے معروف شاعر اور مبلغ نادر صدیقی کوجمعہ کے دن دورانِ نماز(عشا) نامعلوم افراد نے اغوا کر لیا ہے اور ابھی تک ضلع وہاڑی کی پولیس اس معاملے سے لا علم ہے۔ان کا کہنا ہے کہ ہمیں کسی بھی طرح کا علم نہیں مگر نمازیوں کا کہنا ہے کہ دو لوگ موٹر سائیکل پر تھے اور ان کے پاس ایک ڈالہ(پولیس کی طرح کی گاڑی)تھا۔میری ریاست کے تما م سکیورٹی اداروں سے گزارش ہے کہ خدارا قلم کاروں پہ رحم فرمائیں‘اگر نادر صدیقی مجرم ہے تو اسے سب کے سامنے لائیں مگر ایسا ظلم مت کریں۔آج تک اس نے نہ تو کسی ریاستی بیانیے کے خلاف کوئی بیان دیا اور نہ ہی ملکی اداروں کو برا بھلا کہا، بلکہ شعر کہے اور بطور مبلغ اپنی پہچان بنائی، سو حکومت اس معاملے میں نرم دلی کا مظاہرہ کرے۔

Facebook Comments

آغر ندیم سحر
تعارف آغر ندیم سحر کا تعلق منڈی بہاءالدین سے ہے۔گزشتہ پندرہ سال سے شعبہ صحافت کے ساتھ وابستہ ہیں۔آپ مختلف قومی اخبارات و جرائد میں مختلف عہدوں پر فائز رہے۔گزشتہ تین سال سے روزنامہ نئی بات کے ساتھ بطور کالم نگار وابستہ ہیں۔گورنمنٹ کینٹ کالج فار بوائز،لاہور کینٹ میں بطور استاد شعبہ اردو اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔اس سے قبل بھی کئی اہم ترین تعلیمی اداروں میں بطور استاد اہنی خدمات سرانجام دیتے رہے۔معروف علمی دانش گاہ اورینٹل کالج پنجاب یونیورسٹی لاہور سے اردو ادبیات میں ایم اے جبکہ گورنمنٹ کالج و یونیورسٹی لاہور سے اردو ادبیات میں ایم فل ادبیات کی ڈگری حاصل کی۔۔2012 میں آپ کا پہلا شعری مجموعہ لوح_ادراک شائع ہوا جبکہ 2013 میں ایک کہانیوں کا انتخاب چھپا۔2017 میں آپ کی مزاحمتی شاعری پر آسیہ جبیں نامی طالبہ نے یونیورسٹی آف لاہور نے ایم فل اردو کا تحقیقی مقالہ لکھا۔۔پندرہ قومی و بین الاقوامی اردو کانفرنسوں میں بطور مندوب شرکت کی اور اپنے تحقیق مقالہ جات پیش کیے۔ملک بھر کی ادبی تنظیموں کی طرف سے پچاس سے زائد علمی و ادبی ایوارڈز حاصل کیے۔2017 میں آپ کو"برین آف منڈی بہاؤالدین"کا ایوارڈ بھی دیا گیا جبکہ اس سے قبل 2012 میں آپ کو مضمون نگاری میں وزارتی ایوارڈ بھی دیا جا چکا ہے۔۔۔آپ مکالمہ کے ساتھ بطور کالم نگار وابستہ ہو گئے ہیں