غالب، - ٹیگ

جشن ریختہ : اے ایم یو بنی اردو سے قربت کا سبب -غالب کے کردار نے عشق کرادیا ۔ نصیر الدین شاہ

’ غالب ‘ نے اردو سے متعارف کرایا بلکہ عشق کرایا ، اردو داں بنایا ۔ زبان سے رشتہ تو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں جڑ گیا مگر’غالب‘ کے کردار نے اردو میں غرق کرا دیا۔ یہ کردار میں نے←  مزید پڑھیے

“غالب” کمرہ ء جماعت میں/ڈاکٹر ستیہ پال آنند

یک قدم وحشت سے درس ِ دفتر ِ امکاں کھلا جادہ اجزائے دو عالم دشت کا شیرازہ تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ طالبعلم -ایک یک قدم وحشت؟ فقط اک ہی قدم کیا ؟ اک قدم ہی سرحد ِ قائم مزاجی سے پرے؟ اک←  مزید پڑھیے

رضا میر کا انگریزی ناول ” مشاعرہ میں قتل”/احمد سہیل

مرزا اسد اللہ خان غالب ( آمد۔1797 ۔ رخصت 1869) اردو کے ادب کی تاریخ میں ایک بلند پایہ شاعر ہیں۔ جن کے اشعار لوگوں کو سب سے زیادہ یاد ہیں۔ ان کے زندگی کے واقعات رنج، اداسی اور انبساط←  مزید پڑھیے

​مرزا غالب اور ستیہ پال آنند ،بہم گفتگو

لکھا کرے کوئی احکام ِ طالع ِ مولود کسے خبر ہے کہ واں جُنبش ِ قلم کیا ہے (غالب) —————— ستیہ پال آنند “لکھا کرے کوئی احکام ِ طالع ِ مولود” حضور، “کوئی” سے آخر مراد کیا ہے یہاں؟ مر←  مزید پڑھیے

قافیہ بندی۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

غالب کے۲ اشعار پر ریدکتیو اید ابسردم تکنیک سے استوار کی گئی نظم ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔ قافیہ بندی صفحہٗ قرطاس پر بکھرے ہوئے الفاظ نا بینا تھے شاید ڈگمگاتے، گرتے پڑتے کچھ گماں اور کچھ یقیں سے آگے بڑھتے پیچھے←  مزید پڑھیے

کلکتہ کا سفر، چند حقائق۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

فکر فی نفسہ (۷)غالب : Short Notes jotted down in India House Library, London, in 1972-73 ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔ ۰ کلکتے کا سفر اگست 26 کو شروع ہوا۔ فروری 28 کو وہاں پہنچ گئے۔ نومبر 29 کو واپس دِلّی پہنچے۔ (ڈاکٹر←  مزید پڑھیے

غالب کمرہء جماعت میں (سیریز۔3)۔۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

​ نہ حشر و نشرکاقائل، نہ کیش و ملت کا خدا کے واسطے، ایسے کی پھر قسم کیا ہے طالبعلم ایک ذرا جو غور سے دیکھا تو یہ نظر آیا “خدا کے واسطے” خود میں ہی اک قسم ہے، جناب←  مزید پڑھیے

غالب کمرہء جماعت میں (سیریز۔2)۔۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

اسد ؔ بزم ِ تماشا میں تغافِل پردہ دار ی ہے اگر ڈھانپے توُ آنکھیں ڈھانپ، ہم تصویر ِ عر یاں ہیں۔ ۔۔۔۔۔۔۔ طالبعلم ایک اسد خود سے مخاطب تو نہیں اس شعر میں شاید یہ کوئی اورہی ہے جو←  مزید پڑھیے

غالب کمرہء جماعت میں (سیریز۔1)۔۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

یک قدم وحشت سے درس ِ دفتر ِ امکاں کھلا جادہ اجزائے دو عالم دشت کا شیرازہ تھا طالبعلم -ایک یک قدم وحشت؟ فقط اک ہی قدم کیا ؟ اک قدم ہی سرحد ِ قائم مزاجی سے پرے؟ اک قدم←  مزید پڑھیے

ستیہ پال آنند بنام مرزا اسد اللہ خان غالب

(ایک نظم جس میں صرف ستیہ پال آنند ہی محو کلام ہیں۔ مرزا غالب شاید عالمِ لاہوت میں ان کی شکائتیں سن رہے   ہیں) اسدؔ کو بت پرستی سے غرض درد آشنائی ہے نہاں ہیں نالۂ ناقوس میں، در←  مزید پڑھیے

روبرو مرزا غالب اور ستیہ پال آنند

مر گیا صدمہ ء  یک جنبش لب سے غالبؔ ناتوانی سے حر یف ِ دم ِ عیسیٰ نہ ہوا ۔۔۔۔۔۔۔۔ ستیہ پال آنند ذہن میں میرے ہے بیتاب اک عجبک سا سوال ہو اجازت تو میں پوچھ ہی لوں ،←  مزید پڑھیے

روبرو مرزا غالب اور ستیہ پال آنند

لیتا ہوں مکتب ِ غم ِدل سے سبق ہنوز لیکن یہی کہ ’رفت‘ گیا ، اور ’بود‘ تھا ۔۔۔۔۔ ستیہ پال آنند لیتے ہیں ـ’’مکتب غم ِ دل‘‘ سے، حضور ، آپ کیا کیا سبق جو نکبت و ادبار دے←  مزید پڑھیے

روبرو مرزا غالب اور ستیہ پال آنند

آتش و آب و باد و خاک نے لی وضع ِ سوز و نم و رم و آرام ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (اس نظم کو رن آن لائنز کے طریق کار سے پڑھا جائے) ستیہ پال آنند ٓگیارہ الفاظ میں ، جناب، یہاں←  مزید پڑھیے

روبرو مرزا غالب اور ستیہ پال آنند

وضاحتی نوٹ! “روبرو غالب” کے تیس سے کچھ اوپر تعداد میں مکالماتی “نظم نا مے” لکھنے کے بعد خدا جانے کیوں یہ شوق چرایا، کہ اپنے استاد محترم کو دو صدیوں کے زمان کی اور امریکہ  /ہندوستان کے مکان کی←  مزید پڑھیے

روبرو مرزا غالب اور ستیہ پال آنند

قفس میں ہوں گر اچھا بھی نہ جانیں میرے شیون کو مرا ہونا برا کیا ہے نوا سنجان ِ گلشن کو ۔۔۔۔۔ ستیہ پال آنند جو اک تصویر سی بنتی ہے، قبلہ، وہ فقط یہ ہے ۱) کہ مجبوری کا←  مزید پڑھیے

روبرو مرزا غالب اور ستیہ پال آنند

آمد ِ سیلاب ِ طوفان ِ ِ صدائے آب ہے نقش ِ ِ پا جو کان میں رکھتا ہےانگلی جادہ ہے ستیہ پال آنند بندہ پرور، یہ کرم فرمائیں اس ناچیز پر عندیہ اس شعر کاکیا ہے ، کوئی لب←  مزید پڑھیے

پرانے گودام کے تنکے؟ (8)۔۔وہاراامباکر

”برٹش انڈیا جتنا طاقتور آج ہے، پہلے کبھی نہیں تھا۔ ہر طرف امن و سکون ہے۔ قانون کی بالادستی ہے۔ ملک محفوظ ہے۔ لوگ خوش ہیں۔ پچھلے کچھ برسوں میں برٹش راج اور ہندوستانی عوام نے بہت ترقی کی ہے۔←  مزید پڑھیے

روبرو مرزا غالب اور ستیہ پال آنند

آمد ِ خط سے ہو ا ہے سر د جو بازار ِ دوست دود ِ شمع کشتہ تھا شاید خط ِ رخسار ِ دوست ستیہ پال آنند بندہ پرور، آپ سے پوچھوں ، بصد عجز و نیاز کیا نہیں اس←  مزید پڑھیے

روبرو مرزا غالب اور ستیہ پال آنند

عرض نازِ شوخی ِِدنداں برائے خندہ ہے دعوی ٗ جمعیت ِ احباب جائے خندہ ہے ستیہ پال آ نند یہ اضافت کی توالی؟ اور مطلع میں؟ حضور گویا اس خامی کی غایت پیشگی مطلوب ہو کیا کہیں گے،بندہ پر ور،←  مزید پڑھیے

روبرو مرزا غالب اور ستیہ پال آنند

نہ جانوں کیوں کہ مٹے داغ طعن ِ بد عہدی تجھے کہ آئینہ بھی ورطہ ٗ ملامت ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ستیہ پال آنند حضور، مجھ کو تو جو کچھ سمجھ میں آیا ہے اگر کہیں تو میں منجملہ اس کو پیش←  مزید پڑھیے