کہانی اور حقیقت۔۔ڈاکٹر اظہر وحید

ہم عجب قوم ہیں، حقیقت کو کہانیوں میں گم کر دیتے ہیں اور کہانیوں میں اپنے مطلب کی حقیقت تلاش کرنے کوشش کرتے ہیں۔ ملّا، مجاور اور ملحد تینوں کی سائیکی اس معاملے میں ایک سی ہے۔ اپنے مطلب کا فلسفہ ہر کہانی میں تلاش کر لیتے ہیں، اپنے اپنے مذہب (مذہب بمعنی راستہ) کی تبلیغ کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ کوئی واقعہ رونما ہو، اُس کا سیاق و سباق دیکھے بغیر بے دریغ کسی دوسرے واقعے سے اس طرح منطبق کرتے ہیں کہ دونوں کی اصل دھندلا کر رہ جائے، ایسے میں ایک سلیم العقل قاری جھنجھلا کر رہ جاتا ہے۔ بھان متی اپنے دلائل کاکنبہ ایسے جوڑتا ہے کہ کہیں کی اینٹ اور کہیں کا روڑہ بھی بھنّا کر رہ جاتا ہے۔

بقراطانِ وقت نے حال ہی میں ہونے والے پشاور کے واقعے کو ایک صدی قبل غازی علم الدین کے واقعے اور پھر ماضی قریب کے ممتاز قادری کے واقعے کے ساتھ ایسے جوڑا ، جوڑ توڑ کا ایسا ہاتھ مارا کہ معروضی حقائق منہ دیکھتے رہ گئے۔ راجپال ایک پبلشر تھا، مصنف نہ تھا، لیکن اس نے مسلمانوں کی دل آزاری کا حربہ اختیار کیا، خواہ مصنف نے بخاری اور طبری سے روایات نقل کی ہوں، لیکن کس روایات کو کس تناظر میں بیان کیا گیا، یہ ایک صریح تخریب کاری تھی۔ کسی بھی کمیونٹی کے مذہبی جذبات سے کھلواڑ کرنے کی اجازت کوئی ذی عقل نہیں دے سکتا ، خواہ کتنا ہی روشن خیال کیوں نہ ہو۔ چٹکی بھر بصیرت رکھنے والا بھی جانتا ہے کہ انسان اینٹ گارے پتھر اور ٹیکنالوجی کی دنیا میں نہیں بلکہ اپنے جذبات کی دنیا میں زندگی بسر کرتا ہے۔ اس کے جذبات کو ٹھیس پہنچانے والا دراصل ایک تخریب کار ہے اور وہ بساطِ زیست پر جنگ، فتنہ اور فساد کی تدبیر کرتا ہے۔ اِسی فطری اصول کے بنیاد پر کہ “فتنہ قتل سے شدید تر ہے” یعنی معاشرے میں فساد کی آگ بھڑکانا ایک قابل ِ سزا جرم ہے ٗ سیشن کورٹ نے راجپال کو سزا سنائی۔ اگر اِس سزا کو برقرار رکھا جاتا تو علم الدین، غازی ہی رہتا، شہید نہ ہوتا۔

اطلاعاً عرض ہے کہ راجپال نے یہ گستاخانہ کتاب 1923ء میں شائع کی اور اس قتل اس کی اشاعت سے چھ سال بعد ہوتا ہے، یعنی ایسا کہ عطااللہ شاہ بخاری کی تقریر کے زیر وبم نے ایک نوجوان کو مشتعل کر دیا۔ غازی علم الدین شہید سے پہلے دو مسلمان نوجوان راجپال پر حملہ کر چکے تھے۔ 27 ستمبر 1927ء کو خدابخش نامی نوجوان نے اس پر حملہ کیا تھا، اور 9 اکتوبر 1927ء کو ایک اور نوجوان عبدالعزیز نے وار کیا تھا۔ خطا گیا۔

جب عدالتیں انصاف کی بجائے مصلحت کا راستہ اختیار کرلیں تو ایسی صورت میں کسی کے جذبات کسی وقت بھی بھڑک سکتے ہیں، اور معاشرے میں انتقام کی آگ پھیل جاتی ہے۔ نظام پر اعتماد بحال کرنے اور اسے برقرار رکھنے کے لیے نظام کو شفافیت ہر حال میں برقرار رکھنا ہوتی ہے۔ اپنی توہین اور اپنے دین کی توہین کا بدلہ لینے کیلئے جو کوئی اٹھ کھڑا ہوگا اور اپنی جان کی بازی پر کھیل جائے گا، لامحالہ وہ اپنی کمیونٹی کا ہیرو بن جائے گا ، اور پھر اقبال صاحبِ حال کہے گا کہ ’’ترکھاناں دا منڈا بازی لے گیا،۔ تاریخی واقعہ ہے کہ غازی علم الدین شہید کو علامہ اقبالؒ نے خود لحد میں اُتارا تھا، اور مشاہداتی آنکھ رکھنے والے کہتے ہیں کہ اقبالؒ کو وہاں رسولِ کریمؐ کی جاگتے میں زیارت ہوئی تھی۔ یہ بات ماہنامہ سویرا کے ایڈیٹر محترم ریاض احمد نے اپنے ایک مضمون میں نقل کی ہے اور یہ واقعہ مرشدی واصف علی واصفؒ کی یادداشتوں کے حوالوں سے تحریر کیا گیا ہے۔

علامہ اقبالؒ ایسا مردِ قلندر ابھی تک کوچۂ ملامت سے گزر رہا ہے، ملّا و ملحد دونوں اس قد آور شخصیت کو بالشتیا قرار دینے پر تلے ہوئے ہیں، کوئی اسے سیالکوٹ کا مقامی شاعر کہتا ہے اور کوئی اس نامی گرامی فلسفی کو ’’اقبال نامی شاعر” کہہ کر اپنے خبثِ باطن کا برملا اظہار کرتا ہے اور فکرِ اقبال ؒ کو طاقِ نسیاں میں رکھنے کا عندیہ دیتا ہے۔ اقبالؒ نے وحدتِ اُمت کا خواب نہ دیکھا ہوتا، اُمت ِ محمدیہؐ کے غم میں گریہ کناں نہ ہوتا، ’’خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِ ہاشمیؐ،، کا سبق نہ دیا ہوتا، ’’کی محمدؐ سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں،، کا پیغام نہ دیا ہوتا … تو بنگالی شاعر رابندر ناتھ ٹیگور سے کہیں پہلے نوبل پرائز کا حق دار ٹھہرتا۔ لیکن اِس مشرق و مغرب کے بے مثل فلسفی نے دینِ فطرت کی ترجمانی کو ترجیحا ًاختیار کیا، غازی علم الدین شہید کی لحد میں آکر خود لیٹ گیا ،اور اپنے علم و ہنر اور شہرت کو انسانی فطری جذبات پر مقدم نہ جانا۔ وہ علم و حلم اور عجز و انکسار کا پیکر اپنی زندگی میں اتنا بے نام نہ تھا، جتنا اسے آج ثابت کیا جا رہا ہے۔ اگر غازی علم الدین شہید اور راجپال کا مقدمہ اتنا ہی بعید اَز عقل و دلیل ہوتا تو محمد علی جناحؒ ایسا انگلینڈ پلٹ بیرسٹر اُس کیس کی پیروی نہ کرتا۔ تاریخی حقائق مسخ کرنے کی روش بہرطور ہر دَور میں قابلِ نفریں رہے گی۔ عجب مذاق ہے ٗ یعنی بدذوقی کا عجب سامان ہے کہ گالی دینے اور لکھنے کو آزادئ رائے اور تہذیب گنا جائےاور اس پر ردِّ عمل کے ممکنہ اور فطری انسانی رویے کو قطعاً کسی شمار میں نہ لایا جائے۔

عقل، دلیل اور منطق آج اپنے قتل پرماتم کناں ہوگی ، جہاں یہ دلیل پیش کی جارہی ہو کہ جب کوئی علم الدین اور ممتاز قادری شہید ہونے جا رہا ہے تو اسے بچانے کیلئے اپیل کیوں کی جاتی ہے؟ گویا محاذ پر زخمی ہونے والے سپاہیوں کی مرہم پٹی نہ کی جائے کہ وہ شہید ہونے کی آرزو میں محاذِ جنگ پر گئے تھے، گویا کلمہ گو اپنے ملکوں میں ہسپتالوں اور ڈسپنسریوں کی عمارتیں گرا دیں کہ ان کے عقیدے کے مطابق تقدیر میں جس کی موت لکھی ہے، وہ آکر رہے گی، گویا آرمی والے اپنے ہاں سے میڈکل کور فارغ کر دیں ، کہ یہاں ہر فوجی شہید ہونے کی آرزو رکھتا ہے۔ چہ بوالعجبی است ! دین ِ فطرت سے مخاصمت رکھنے والا ، قانونِ فطرت کا نوشتہ پڑھنے سے بھی معذور ہو جاتا ہے۔

ماضی قریب میں پنجاب کے گورنر کے اُس کے اپنے باڈی گارڈ کے ہاتھوں قتل کے معاملے پر اگرچہ قوم منقسم تھی، لیکن اِس حقیقت سے چشم پوشی نہیں کی جا سکتی ہے کہ وہ شانِ رسالت مآبؐ کے بارے میں اپنے باڈی گارڈ کی موجودگی میں صبح شام مغلظات بکتا تھا ، جسے سن سن کر اُس کے صبر کا پیمانہ بالآخر لبریز ہو گیا۔ قتل کے دن بھی ریستوران میں اُس کا اپنے باڈی گارڈ سے اس معاملے پر لفظی جھڑپ ہوئی تھی، وہ کلماتِ خبیثہ عدالت کے ریکارڈ کا حصہ ہیں، ہمارا قلم انہیں دہرانے کی جرات نہیں کرتا۔ بات صرف اتنی سادہ نہ تھی کہ محض ایک قانون کو ’’کالا قانون،، کہنے کی پاداش میں کسی شعلہ نوا خطیب کے کہنے پر اُسے قتل کر دیا گیا۔ بہر طور اُس وقت حالات یہ تھے کہ گورنر کے خلاف کوئی مقدمہ درج نہ تھا، اور درج ہو بھی کیسے سکتا تھا، جب گورنر اور صدر کو قانون میں امیونٹی حاصل تھی۔ یورپی فکر کی نمائندگی کرنے کے خواہشمند حضرات ذرا پلٹ کر یورپ کی خبر لیں، یورپی یونین نے بھی قانون سازی کر لی ہے ، اب وہاں توہینِ رسالتؐ آزادی اظہارِ رائے نہیں بلکہ قابلِ دست اندازی قانون ہے، اس پر جرمانہ ہوتا ہے۔ جب سے قانون سازی ہوئی ہے، وہاں یہ طوفانِ بدتمیزی تھم چکا ہے۔ یورپ نے یہ جانا کہ ہالوکوسٹ کی طرح قانونِ توہین اَدیان بھی متشکل ہونا چاہیے … اور یہاں ہمارے ہاں ایسے قوانین کو ختم کرنے کی مہم جوئی کی جارہی ہے۔ کوئی قانون اِنسانی جذبات کو نظرانداز کرتے ہوئے نہیں بنایا جا سکتا ہے۔ قانونِ فطرت سے اعراض  بہرطور قابلِ اعتراض ہے۔ توہین دین، توہین ِ شعائر دین، اور توہین ِ صاحبِ دینؐ …ایسا حساس معاملہ ہے کہ اِس پر قانون سازی اَمن و سکون کیلئے عین فطری بھی ہے اورضروری بھی۔

قانون صرف کاغذوں میں لکھنے کیلئے نہیں ہوتا بلکہ عمل درآمد کیلئے ہوتا ہے۔ Justice delayed is justice denied قانون ہی کا کلیہ ہے۔ اگر قانون بروقت حرکت میں آئے تو کسی کو قانون ہاتھ میں لینے کی ضروت ہی نہ پیش آئے۔ اگر عدالتیں ملزم کا پاسپورٹ دیکھ کر فیصلوں میں تاخیر کریں تو یہ دہرا معیار دیکھ کر عدالتی نظام سے عوام الناس کا اعتماد اٹھ جاتا ہے، ایسے میں کوئی بھی جذباتی نوجوان کوئی بھی حرکت کر سکتا ہے۔

خواب کا معاملہ جدا ہے۔۔خواب اور حقیقت میں فرق ہوتا ہے۔ خواب حجت نہیں ہوتا، خواب دیکھنے والے کیلئے اُس کا اپنا خواب حجت نہیں تو دوسروں کیلئے وہ حجت کیونکر ہو گا۔ نبیؐ اور اُمتی کے خواب میں فرق ہے، اور اتنا ہی فرق ہے جتنا خود نبیؐ اور اُمتی میں فرق ہے۔ تکنیکی طور پر ہیرا بھی کاربن ہوتا ہے لیکن کوئلے اور ہیرے میں فرق ہر ذی بصیرت خوب جانتا ہے۔ تکنیکی دلیل کی بنیاد پر اگر کوئی ہیرے کو کوئلے کی مثل گردانے تو اُس کی عقل پر ماتم ہی کیا جا سکتا ہے۔ نبیؐ کا خواب بمنزلہ وحی ہوتا ہے، نبیؐ کو نیند سے بیداری کے بعد وضو تازہ کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی ہے کہ اُس کا دل نہیں سوتا۔ اُمتی کا خواب خواہ کتنی ہی خوبصورت زیارت کا سامان لے کر آئے، قابلِ تعبیر ہوتا ہے۔ خواب دیکھنے والا جب کسی مقدس ہستی کو دیکھتا ہے، تو وہ زیارت خواب دیکھنے والے کے روحانی استعداد اور اُس کے قلب میں موجزن نورِ ایمان کے مطابق ہوتی ہے۔ اس لیے کوئی بھی خواب جب تک شریعت ( یعنی قانونِ عقل) کے پیمانے پر پورا نہ اُترے، اُسے بعینہٖ حقیقت کی دنیا میں منطبق نہیں کیا جا سکتا ہے۔فرض کریں ٗ ایک اُمتی کہتا ہے کہ وہ اُسوۂ رسولؐ سے شناسا اور مزاجِ رسولؐ سے آشنا ہے، اس لیے وہ بخوبی جانتا ہے کہ خواب میں آکر کسی کے قتل کا حکم دینا ، شفیع المذنبین اور رحمت اللعالمین ؐ ذات کے شایانِ شان نہیں، دوسرا کہتا ہے یہ میری شان ہے کہ مجھے ایک گستاخ کی سرکوبی کا حکم ملا ہے ۔۔۔۔۔ ایک اُمتی کہتا ہے ٗ وہ اُسوۂ رسولؐ سے شناسا اور مزاجِ رسولؐ سے آشنا ہے ٗ اس لیے وہ بخوبی جانتا ہے کہ خواب میں آکر کسی کے قتل کا حکم دینا ، شفیع المذنبین اور رحمت اللعالمین ؐذات کے شایانِ شان نہیں، دوسرا کہتا ہے یہ سعادت اور شان مجھے دی گئی ہے کہ مجھے حکم ہوا ہے کہ اِس کی سرکوبی کرو۔۔۔۔۔اب ایسا خواب سنانے والا اُمت کو ایک دوارہے پر لاکھڑا کرتا ہے، اگرکوئی اُس کی بات پر یقین کرے تو اُسے خواب بتلانے والے پر ایمان باالغیب لانا پڑے گا، اگر انکار کرتا ہے تو اُسے رویائے صادقہ کی روایت پر شک کرنے کا گناہ اپنے سر لینا ہوگا۔ اس سلسلے میں حکیم الامت علامہ محمد اقبالؒ کی رہنمائی اُمت کے لیے ایک مشعلِ راہ ہے، اپنے ایک خط میں علامہ اقبالؒ ختم ِ نبوت ؐ کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ عقیدۂ ختمِ نبوتؐ دراصل اُمت مسلمہ پر ایک احسانِ عظیم ہے، یہ مسلمان قوم کی عقلِ سلیم پر انعام ہے، اب قیامت تک کوئی شخص ایسا نہیں ہے ، جس کی بات ہمیں غیر مشروط ماننی ہے اور جسے ماننے کیلئے ہمیں اپنی استقرائی عقل کو تج کرنا پڑے۔ عقیدۂ ختم ِ نبوت ؐ پر علامہؒ اپنے ایک خطبے میں کہتے ہیں “وارداتِ باطن کی کوئی بھی شکل ہو ٗ ہمیں بہرحال یہ حق پہنچتا ہے کہ عقل و فکر سے کام لیتے ہوئے آزادی سے اس پر تنقید کر سکیں۔۔۔۔ لیکن اس میں یہ غلط فہمی نہ ہونی چاہیے کہ زندگی میں اب صرف عقل ہی عمل دخل ہے اور اس میں جذبات کے لیے کوئی جگہ نہیں۔۔۔۔ ہمارے لیے تو زندگی کی روحانی اساس ایمان و یقین کا معاملہ ہے ٗ جس کی خاطر ایک غیر تعلیم یافتہ شخص بھی برضا و رغبت اپنی جان دے دے گا”۔

Advertisements
julia rana solicitors

وہ نورِ مجسم ذاتؐ کہ جس کا دیدار خواب کے عالم میں بھی ہو جائے تو انسان کی بیداری بیدار تر ہو جاتی ہے اور اس کے دونوں جہان آباد ہوجاتے ہیں، اسی پاک ہستیؐ کا فرمانِ عالی شان ہے کہ خواب کو کسی عالم یا کسی خیر خواہ کے علاوہ کسی کے سامنے بیان نہ کرو۔مرشدی حضرت واصف علی واصفؒ کا کہنا ہے کہ خواب دیکھنا اور پھر خواب دیکھنے کے خواب دیکھنا درحقیقت حقیقت کو نہ دیکھ پانے کے اضطراب کا نتیجہ ہے۔ آپؒ فرماتے کہ اگر کوئی شخص تمہیں آکر کوئی زیارت والا خواب سنائے اور سنائے کہ مجھے یہ حکم ہوا ہے تو اُسے کہو کہ تمہارا خواب سچا ہے لیکن تم جھوٹے ہو۔اس میں غور کریں تو بڑی حکمت ہے۔ اس میں جان بھی بچتی ہے اور ایمان بھی! یہ سنہرا قول حرزِ جاں بنایا ہے، تو کوئی شخص اپنے دلفریب خواب سنا کر قوم کو گمراہ نہیں کر سکتا۔ خواب ، خواب رہے گا جب تک اسے تعبیر میسر نہ آئے… اور تعبیر کرنے والا معبّر معتبر ہونا چاہیے، اگر معبّر ہی پر اعتبار کرنا ہے تو خواب دیکھنے کا انتظار کیوں کیا جائے؟ براہِ راست راستہ اپنے سے بہتر فہم رکھنے والے انسان سے کیوں نہ دریافت کر لیا جائے؟؟ بات صرف جذبات کی نہیں بلکہ ایمان اور ایقان کی ہے!

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply